سرسیداحمدخان اس دور کے ایک
غیرمعمولی انسان تھے،جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی۔مسلمان غلامی کی
زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ اس تاریک دور میں سرسیداحمدخان روشنی کی کرن
ثابت ہوئے۔ پہلے سرسید ھندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے قائل تھے
لیکن جب انھوں نے ھندوؤں کے رویوں کا مشاہدہ کیا تو انھیں اندازہ ہوا کہ یہ
ھم سے الگ قوم ھے۔ انھوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا، جس کے مطابق مسلمان اور
ہندو دو علیحدہ قومیں ہیں۔
سرسیداحمدخان وہ پہلے رہنما تھے، جنھوں نے سب سے پہلے مسلمانوں کے لیے لفظ
قوم کا استعمال کیا۔ سرسیداحمدخان نے مسلمانوں میں جدید تعلیم کی اہمیت کو
اجاگر کیا۔ انھوں نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ پہلے تعلیم حاصل کرو پھر
سیاست میں شمولیت اختیار کر کے معاشرے میں اپنی پرانی حیثیت حاصل کرنے کی
کوشش کرو۔
سرسیداحمدخان نے مسلمانوں پر واضح کیا کہ وہ کیا اسباب ھیں جن کی وجہ سے
مسلمانوں کو تنزلی کا سامنا کرنا پڑا۔ سرسید نے مسلمانوں کو بیدار کر کے
آزادی کا جذبہ پیدا کیا۔ سرسید اور انکے بعد آنے والے عظیم رہنماؤں کی
کوششوں سے مسلمان منظم اور متحد ہوگئے اور ایک آزاد مملکت وجود میں آئی- |