ہر انسان کی زندگی میں بہت سے
لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ان میں سے کچھ لوگ دل کے آئینے میں نقش ہو کر
برسوں یاد رہتے ہیں۔ان کی یادیں ہمارا قیمتی سرمایہ بن جاتی ہیں اور انکی
رفاقت ہمارا حاصل زیست بن جاتا ہے۔یہ لوگ حقیقت میں بہت عظیم لوگ ہوتے
ہیں۔وہ آتے ہیں، چند دن ساتھ رہتے ہیں ،اور پھر اپنی حسین یادوں کی جگمگاتی
شمعیں ہمارے دلوں میں چھوڑ کر ہم سے بہت دور اپنے رب کے پاس چلے جاتے
ہیں۔یہ لوگ اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ان پر پیار آتا ہے،اور
وہ جلدی بلا لیے جاتے ہیں۔اور ہمیں جب ان کی یاد آتی ہے ،ان پر پیار آتا ہے
تو صرف چند آنسو اور سسکیاں ان کے نام کر پاتے ہیں۔
ایسے ہی کچھ خاص لوگوں میں سے آج وہ بہت یاد آیا تو سوچا، کیوں نہ ایک خوش
نصیب انسان کا تذکرہ کیا جائے اور اس تذکرے سے اپنے دل کو منور کیا جائے۔
وہ بہت پیارا انسان تھا ۔میں نے جب سے ہوش سنبھالا،اسے مسلسل حضرت امیر
صاحب حفظہ اللہ اور ان کے گھر والوں کی خدمت میں ہمہ تن مدہوش دیکھا۔ہم سب
بچے اسے ’’خان بابا‘‘ کہہ کر بلاتے تھے اور وہ بھی پیار سے مسکرا کر ہمیں
جواب میں ’’جی خان کی جان‘‘کہہ دیتا تھا۔وہ بہت محبت کرنے والا عجیب انسان
تھا۔جہاد سے والہانہ عشق تھا۔اس نے اپنی پوری زندگی جہاد والے عظیم عمل میں
لگا دی تھی۔افغانستان کے محاز پر اس نے بہادری کے جوہر دکھائے،شدید زخمی
حالت میں اسے گرفتار کرکے کچھ عرصہ شبر غان جیل کا قیدی بنا کر رکھا
گیا۔لیکن شہادت کے متلاشی اس عظیم انسان کی ہمت اور ارادے میں کوئی کمی
واقع نہ ہوئی۔
گرتے بھی رہے بڑھتے بھی رہے ہمت میں ذرا بھی فرق نہیں
ہم راہ وفا کے رہرو ہیں گر گر کے سنبھلنے والے ہیں
جیل سے رہا ہو کر وہ پھر جہاد کے ساتھ منسلک ہو گیا۔حضرت امیر صاحب حفظہ
اللہ کی رہائی کے بعد حضرت امیر صاحب کا خادم بن گیا۔اسمیں بہت پیاری صفات
تھیں۔انہیں پیاری صفات ہی کے حامل لوگ بہت اونچی منزلیں پا لیتے ہیں۔
خدمت کا جذبہ اسمیں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔وہ اپنے بڑوں کی خدمت کے لیے
رات رات بھر جاگتا رہتا تھا،حالانکہ جسمانی طور پر وہ بیمار رہتا تھا،شہادت
سے کچھ عرصہ پہلے ایک کام کے دوران اس کی کمر میں شدید درد ہو گیا تھا،میں
نے کئی بار اسے ڈاکٹر کو چیک کروانے کا کہا لیکن وہ نہیں مانا،ایک بار
زبردستی پکڑ کر بہاولپور کے مضافات میں واقع ایک پہلوان کے پاس لے گیا اور
اس نے خان بابا کو ایکسرے کروانے کا کہااور کچھ مالش بھی کی،کچھ دن افاقہ
رہا مگر پھر درد نے شدت اختیار کر لی،ایکسرے کے لیے کہا مگر وہ نہیں
مانا،اور آخر تک اسے کمر میں درد ہی رہا،پرہیزی کھانا کھاتا تھا،لیکن بعض
اوقات وہ خدمت میں ایسا مصروف ہو جاتا کہ دن بھر اسے کھانے کا خیال بھی نہ
آتا تھا۔سردی ہو یا گرمی وہ موسم کی سنگینی کی پرواہ کیے بغیر اپنے آپ کو
خدمت کے لیے وقف کر چکا تھا۔حضرت اباجی(رح) ﴿والد محترم حضرت امیر صاحب ﴾کے
ساتھ اسکا عجیب تعلق تھا،حضرت اباجی(رح) بھی اسے اپنے بہت قریب رکھتے
تھے۔وہ دن ہو یا رات حضرت ابا جی(رح) کی خدمت میں چوکنا رہتا تھا۔حضرت ابا
جی(رح) کا حد درجہ احترام اور ادب کرتا تھا۔حضرت ابا جی(رح)اسے اپنے بیٹوں
کی طرح عزیز رکھتے تھے ۔وہ جب بھی چھٹیوں پر گھر جاتا تو حضرت ابا جی(رح)
اسے اپنے پاس بلاتے اور ازراہ مذاق فرماتے’’اس دفعہ شادی کر کے آنا‘‘وہ چند
دن کے بعد لوٹ آتا اور حضرت اباجی(رح) سے عرض کرتا کہ اباجی(رح)!شادی
’’یہاں‘‘ نہیں’’ وہاں‘‘کروں گا۔حضرت اباجی(رح) اسکی بات سن کر مسکرا
دیتے۔جب حضرت ابا جی(رح) کا وصال ہو گیا تو وہ ہر پل غمگین رہا کرتا تھا
ہماری ڈھارس بندھاتاتھا،ہمارے آنسو پونچھتا تھا،مگر خود چھپ چھپ کر رویا
کرتا تھا۔اور اکثر کہا کرتا تھاکہ میں تم میں سب سے پہلا وہ شخص ہو ں گا جو
حضرت ابا جی(رح) سے ملاقات کروں گا۔اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ اور ایسا کیوں
نہ ہوتا اسکا دل اب اس جہاں میں لگتا ہی نہ تھا۔وہ بس ہر پل شہادت کی
دعائیں کیا کرتا تھا۔جو بھی اس سے ملتا ’’خان بابا‘ہمیشہ اسے اپنے لیے
شہادت کی دعا کی درخواست کرتا۔وہ دیوانہ تو بس شہادت کا۔شہادت ہی اسکی
محبوبہ تھی۔شہادت ہی اسکی منزل مقصود تھی۔اسکی شہادت کی اس درجہ تمنا کی
وجہ سے مجھے یقین ہو چلا تھا کہ ایک نہ ایک دن شہادت کے اس متلاشی انسان کو
اسکی منزل مقصود مل جائے گی۔
اسکی بہت سی اعلیٰ صفات میں سے ایک صفت کثرت عبادت تھی۔ریاض حسین شہید(رح)
جب اذان کی آواز سنتے تو اپنے سب کام چھوڑ کر، اپنی سب خواہشوں سے دامن
چھڑا کر فوراً مسجد کی طرف لپکتے تھے۔میں نے ان کو بسا اوقات ساری ساری رات
سجدوں میں گر کر رب کے حضور دعاؤں میں گڑگڑاتے ہوئے دیکھا ہے۔وہ تہجد بڑے
خشوع خضوع سے پڑھا کرتے تھے۔وہ اللہ کے ولی انسان تھے۔تقوٰی کی نعمت سے
مالا مال اور محتاط زندگی گزارنے کے عادی تھے۔آپ نوجوان تھے مگر کبھی اپنی
نظروں کو غلط سمت کی طرف نہیں موڑا۔آپ کی زبان سے کبھی کوئی غلط بات نہیں
سنی۔مذاق میں بھی سچائی کا دامن نہیں چھوڑتے تھے۔آپ نے حضرت امیر صاحب اور
ان کے گھر کی خدمت کے دوران بلا مبالغہ ہزاروں روپے خرچ کیے ،لیکن مجال ہے
کبھی ایک روپے کا حساب بھی ادھر ادھر ہوا ہو،آپ کی جیب چھوٹی چھوٹی بے شمار
پرچیوں سے ہمیشہ بھری رہتی تھی جن پر آمدن واخراجات کی رقوم کاحساب کتاب
درج ہوتا تھا۔
’’خان بابا شہید‘‘کی کن کن خصوصیات اور صفات کا تذکرہ کیا جائے آپکی ہر صفت
اعلیٰ اور ہر شان نرالی تھی۔آپ مرکز’’ عثمان (رض)و علی(رض) ‘‘کی جان تھے ہر
ایک کی دلعزیز شخصیت تھے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
ریاض حسین شہید(رح)جب تمام آزمائشوں میں اچھے نمبروں سے پاس ہو گئے تو ان
کے بڑوں نے انکی سب سے بڑی خواہش پوری کرنے کا فیصلہ کیا۔جب آپ کو اس اونچے
سفر کی اجازت مل گئی تو آپ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔اس دن آپ نے دعوت
کا اہتمام کیا،ہر ایک پاس جا کر اس دعوت میں شریک ہونے کا وعدہ لیا،دعوت کے
بعدسب کے پاس جا کر گلے ملے،مسرت اور خوشی کا اظہار انکی ہر ادا سے ٹپک رہا
تھا۔میں نے خان بابا کو اس سے پہلے کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا تھا۔اسی رات
کو مجھے خان بابا کے ساتھ باہر جانے کا اتفاق ہوا۔میں نے خان بابا سے
آہستگی سے پوچھا۔کہ آپ خوش تو ہو نا؟اس نے جواب دیا کہ اسی لمحے کا ہی تو
انتظار تھا۔میں آج بہت خوش ہوں وہ بے ساختہ حضرت امیر صاحب حفظہ اللہ کو
دعائیں دینے لگا۔
شمع شوق شہادت پہ جاں لٹانے کو
مچل رہے ہیں محاذوں پہ جا کے پروانے
وہ رخصت ہو رہا تھا۔سب ساتھی اس سے گلے ملنے لگے۔میں نے بھی الوداع سے پہلے
خوب گلے لگ کراس مبارک وجود کا لمس اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کی۔میں ان
سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا ،لیکن زبان گنگ ہو گئی اور کچھ بھی نہ کہہ
پایا۔میں نے گاڑی کے اندر بیٹھے اس عظیم مجاہد کو آخری بار دیکھا اور اپنی
آنکھوں میں آئے آنسؤں کو بہت مشکل سے جذب کیا۔وہ دور چلے گئے،تب دل کو
محسوس ہواوہ ہمارے بہت قریب تھے،ہمارے بہت اپنے تھے،ہماری عقیدتوں کا محور
تھے،ہماری الفتوں کا مدار تھے۔جب کوئی آپ کا اپنا ہمیشہ کے لیے آپ سے دور
ہو جائے تو کتنا درد ہوتا ہے یہ پہلی بار جانا تھا۔
میں سوچنے لگا ۔کاش ہم ان اسلام کے شاہینوں کی قدر کر لیں۔کاش ہم ان حقیقی
زندہ لوگوں سے زندگی حاصل کر لیں۔کاش ہم ان کی طرح زہد سیکھ لیںتاکہ دنیا
پرستی سے نجات پا لیں۔کاش ہم رجوع الی اللہ سیکھ لیں تاکہ لوگوں کے آگے
ہاتھ پھیلانا اور سر جھکانا چھوڑ دیں۔ہر جانے والا ہمیں یہ پیغام دے کر جا
رہا ہے،ان کی زندگی ہمیں بھی اس راستے پر آنے کی دعوت دے رہی ہے۔اور ان کی
یادوں کے لشکر ہمیں سیدھے راستے کی طرف کھینچ رہے ہیں۔
ان کے جانے کے کچھ دنوں بعد ایک شام کو میرے موبائل پر میسج آیا کہ ریاض
حسین (رح)اپنی خواہش کے حصول میں کامیاب و کامران ہو گیا ہے۔
انشائ اللہ وہ حسین جنت میں اپنی قربانیوں اور نیکیوں کے مزے لوٹ رہے ہوں
گے۔میرا یہ دعوٰی نہیں کہ ریاض حسین (رح) کوئی مافوق الفطرت چیز تھا یا
معصوم فرشتہ تھا۔وہ انسان تھا۔ممکن ہے بہت سارے لوگوں کی نظر میں اسکی کچھ
بشری خامیاں بھی ہوں۔ہاں اتنی بات یقین سے کہہ سکتا ہوں۔وہ ایک بہت اچھا
انسان تھا۔ بہت اچھا دوست اور رفیق تھا۔بہت اچھا مجاہد تھا۔وہ ایسا شخص تھا
جسکی مثالیں نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہیں۔وہ ایسا مجاہد تھاجس جیسوں کی
امت کو شدید ضرورت ہے۔وہ ہم میں تھا تو ہم اسے یاد کرتے تھے محبت کے ساتھ
،اب وہ ہم میں نہیں تو اسکی یاد ہمارے دلوں میں مہکتی ہے عقیدت کے ساتھ۔
یہ چند ٹوٹے پھوٹے منتشر الفاظ نہ اسکے مقام کا حق ادا کر سکتے ہیں نہ میری
محبت کا،لیکن اگر قبول ہو جاہیں تو میری سعادت کے لیے کافی ہیں۔ |