افغانستان ،امریکی و اتحادی افواج کیلئے پھانسی گھاٹ

افغانستان پر قابض امریکی اور نیٹوافواج کو پے درپے ہزیمتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایک طرف طالبان نے ان کی ناک میں دم کررکھا ہے تو دوسری طرف ان کے اپنے ہی تربیت یافتہ افغان آرمی کے سپاہی ان کے لئے مستقل دردسر بلکہ موت کا فرشتہ بنتے جارہے ہیں۔ اپنے ہی ہاتھوں پھانسی کا پھندا تیار کرنے کے مصداق افغان فوجی اور پولیس اہلکار امریکی اور اتحادی افواج کے عسکری انسٹرکٹرز سے جو تربیت حاصل کرتے ہیں اس کا عملی مظاہرہ ان ہی کے اسلحے سے ان کی جان لے کر کرتے ہیں۔تازہ واقعہ صوبہ ہلمند کے علاقے لشکر گاہ میںپیش آیا جہاں افغان پولیس کے اہلکار وں نے فائرنگ کر کے دو برطانوی فوجیوں کو ہلاک کر دیا ۔ ایک فوجی کا تعلق فرسٹ بٹالین ولس گارڈز جبکہ دوسرے کا رائل ایئر فورس سے بتایا جاتا ہے۔ برطانوی وزارت دفاع کے مطابق حملہ کرنے والے افغان پولیس کے اہلکار برطانوی فوجیوں کو ضلع لشکر گاہ میں مقامی حکام سے ملاقات کے دوران سکیورٹی فراہم کر رہے تھے ۔دو روز قبل صوبہ کنڑ کے ضلع غازی آباد میں اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں افغان فوجی نے ایک امریکی فوجی کو اندھا دھند فائرنگ کرکے ہلاک جبکہ دو کو زخمی کردیا اور موقع سے فرار ہونے میں بھی کامیاب ہوگیا۔ ایک ہفتہ قبل صوبہ ہلمند میں ہی ایک افغان فوجی نے حملہ کرکے ایساف کے دو فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ 20جنوری کو بھی ایک افغان فوجی نے فائرنگ کرکے چار فرانسیسی فوجیوں کو قتل کردیا تھا۔صوبہ پروان میں بھی ایک افغان خفیہ اہلکار کی فائرنگ سے دو نیٹو فوجی ہلاک ہوگئے تھے ۔ ہلاک ہونے والوں میں امریکی فوج کا کرنل اور ایک میجرتھا۔

اس طرح 2001ءسے اب تک افغانستان میں ہلاک ہونے والے صرف برطانوی فوجیوں کی کل تعداد 414 ہوگئی ہے جبکہ امریکی اور نیٹوافواج کی ہلاکتوں کی تعداد تو شمار نہیں کی جاسکتی۔ غرض افغانستان کے ہر صوبے اور ہر ضلعے سے امریکیوں فوجیوں کو جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے جس پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی خفگی نمایاں ہے اور یہی وجہ ہے کہ نیٹو نے افغانستان کی تمام وزارتوں سے اپنے عملے کو واپس بلا لیا ہے اور اتحادی ممالک میں سے تو اکثر نے اپنی افواج کو واپس بلانے پر غور و حوض شروع کردیا ہے بلکہ اس پرعملدآمد بھی شروع کردیا ہے۔سوئس دستوں کے بعد پولینڈ ،جرمنی اور فرانس نے بھی اپنے فوجیوں کی واپسی کا عمل شروع کردیا ہے۔ جسے ان ممالک کے عوام نے ایک مثبت قدم قراردیا اور پرزور انداز میں اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ اکثر ممالک کے عوام کی رائے یہی ہے کہ امریکہ نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے بعد افغانستان پر قبضہ جمایا اور ان کی افواج کو اس آگ کی بھٹی میں جھونک دیا۔ حالیہ ہفتوں میں امریکی و اتحادی افواج پر حملے بڑھنے کی بڑی وجہ امریکی پادری جان ٹیڑی کی جانب سے قرآن پاک کی حرمتی کا واقعہ ہے جس کے خلاف افغانیوں میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں امریکی افواج کی طرف سے افغان شہریوں کے ساتھ بدسلوکی اور گزشتہ دنوں ایک امریکی فوجی کے ہاتھوں 16معصوم شہریوں کی ہلاکت جیسے واقعات بھی افغان فوجیوں اور شہریوں کو ردعمل پر ابھار رہے ہیں۔ ایسے تمام واقعات اتحادی افواج کے لئے شدید قسم کی مشکلات کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

دوسری طرف طالبان بھی قابض افواج کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب طالبان نے افغانستان کے کسی حصے میں کارروائی نہ کی ہو اور اتحادی افواج کی ہلاکتیں نہ ہوئی ہوں۔ نیٹو اور امریکی افواج جدید اسلحہ رکھنے کے باوجود کابل تک کو محفوظ نہیں بنا سکیں۔ جہاں جہاں غیرملکی افواج تعینات ہیں، طالبان ان پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ اور اتحادی پاکستان کے خلاف تو ڈومورکی رٹ لگائے رکھتے ہیں مگر خود افغانستان میں وہ کوئی بھی خاطر خواہ کاکامیابی نہیں کرسکے بلکہ بلند و بانگ دعوﺅں کے برعکس عملی طور پر ان کی کسی صوبے یا علاقے میں کوئی عملداری نہیں ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف حال ہی میں امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی چیئرپرسن فیئر ڈائن فینسئن نے ”فاکس نیوز“ کو دیئے جانے والے ایک انٹرویو میں بھی کیا ہے کہ افغانستان کے ایک تہائی حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے ۔

اس تناظر میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کو مورودِ الزام ٹھہرانا اس کی ناکامی اور بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امریکی اور اتحادی افواج کا افغانستان کے دور دراز علاقوں کا کنٹرول نہ ہونے کی تو بہت سی وجوہات کو قراردیا جاسکتا ہے مگر کابل کے حالات بے قابو ہونا ان کی نالائقی ہی تصور کیا جائے گا۔ طالبان وہاں آئے روز کوئی نہ کوئی محاذ کھول دیتے ہیں۔ کبھی کوئی سرکاری عمارت یا امریکی افواج کا ٹھکانہ ان کے نشانے پر ہوتا ہے۔ وہاں کسی کی جان محفوظ ہے نہ مال۔ کسی بھی وقت کسی جگہ بھی طالبان وارد ہوکرامریکی، اتحادی اور افغان افواج خواس باختہ کرکے کرزئی اور اس کے حواریوں کی سیکورٹی کی قلعی کھول دیتے ہیں۔ کرزئی کے متعدد قریبی ساتھی طالبان کی گولیوں کا نشانہ بن کر موت کے آغوش میںجاچکے ہیں جن میں اس کا بھائی بھی شامل ہے۔ تازہ ترین واقعہ طالبان سے مذاکرات کیلئے افغان امن کونسل کے اہم رکن اور حامد کرزئی کے انتہائی قریبی ساتھی ارسلا رحمانی کی ہلاکت ہے۔ جنہیں کابل میں اس وقت گولی ماردی گئی جب وہ گھر سے اپنے دفتر جارہے تھے۔

افغانستان کے یہ حالات اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اب امریکہ افغان دلدل میں واقعی پھنس چکا ہے اور نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی سی کیفیت سے دوچارہے۔یعنی افغانستان میں رہتا ہے تو اسے اپنی افواج رکھنے اور کرزئی حکومت کو چلانے کے لئے کروڑوں اربوں ڈالر اخراجات کا خسارہ برداشت اور طالبان کے تابڑ توڑ حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ علاوہ ازیں افغان جنگ سے اکتا جانے والے اتحادیوں اورخود امریکی عوام جن اکثریت اب افغان جنگ کے خلاف ہوچکی ہے کو منانا ہوگا۔ اگر وہ افغانستان سے اپنی افواج واپس بلا لیتا ہے تو افغان فورسز اس قابل نہیں کہ وہ امریکہ کے انخلاءکے بعد کرزئی کی کٹھ پتلی حکومت کو سہارا دے سکیں بلکہ جس طرح امریکی و اتحادی افواج کے ساتھ ان کا رویہ رہا ہے لگتا یہی ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ جاملنے میں ہی اپنی عافیت جانیں گے۔ اس طرح ہر دو صورتوں میں امریکہ کے مقدر میں شکست لکھی جاچکی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اب طالبان سے مذاکرات کے راستے تلاش کررہا ہے بلکہ ان کی تمام شرائط ماننے کو بھی تیار ہے جس کے تحت قطر میں طالبان ہیڈکوارٹر بھی قائم ہوچکا ہے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو امریکہ اپنی ان تمام نااہلیوں اور نالائقیوں کاملبہ اس پر ڈال کر جگ ہنسائی سے بچنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 69647 views Columnist/Journalist.. View More