عدالت عظمی سب اداروں پر مقدم اہم ستون ریاست ہے

ملک میں کوئی تو ہو نا چاہیئے کہ جس کے پاس ظالموں اورناانصافوں کے خلاف شکایات کی جاسکیں اور انکی زیادتیوں کا ازالہ ہوسکے۔ دنیا کے تمام معتدل اور پر امن معاشروں میں عدل و انصاف کا شعبہ ایسا ہے کہ ملک کے تمام افراد، جماعتیں اور ادارے عدل و انصا ف کے شعبے کو مقدم جانتے ہوئے دل و جان سے احترام بھی کرتے ہیں حتمی فیصلہ بھی اسی شعبہ کا ہوتا ہے ۔ اور ہمارا تو ایسا مکمل نظام حیات ہے کہ دنیا اسکے مقابلے میں آ ج تک کوئی نظام پیش نہ کرسکی ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بہت سارے غیرمسلم ممالک نے اسلامی نظام حیات کی خوشہ چینی کی ہے ۔نظام عدل کی اہمیت انسانی معاشرے میں ایسی ہے کہ جیسے جسم خاکی میں روح کی۔ نظام عدل کے استحکام کی وجہ سے کئی غیر مسلم حکمرانوں کا نام تاریخ میں عادل کے نام سے موجود ہے جیسے ایران میں نوشیروان عادل۔ جو لوگ اقتدار کے نشہ میں اپنی غلط کاریوں کے بارے کسی عدالت کے فیصلے کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے اور اپنے خلاف عدلیہ کے فیصلو ں کی توہین کرتے ہوئے بے توقیر قراردیتے ہیں وہ ایسے بے توقیر اور ذلیل ہوتے ہیں کہ نشان عبرت بن جاتے ہیں۔ ہمارا ملک وہ بد نصیب ملک ہے کہ جس طرح ملک کے دیگر شعبہ جات کو حکمرانوں نے کٹھ پتلی بنائے رکھا شعبہ عدل کو بھی ابھی اپنی انگلیوں پر نچاتے رہے۔ بڑے وڈیروں اور جاگیر داروں نے ملک کو لوٹنے اور اس پر اپنا مکمل تسلط قائم رکھنے کے لیئے مربوط منصوبہ بند ی کی۔ خاندان کاایک فرد آرمی افسر بنا، دوسرا پولیس افسر، تیسرا، جج اور چوتھا بیوروکریٹ اور پانچواں سیاستدان۔تو اسطرح سیاست بھی خوب چمکی۔ چور ڈکیت اور قاتل بے فکر تھے کیونکہ سیاستدان کی سفارش، پولیس افسرکی ہدائت پر اول تو بے گناہ گردانے گئے یاکمزور پرچے درج کیئے گئے، اگلا مرحلہ جج کا بھی ہاتھ میں تھا ۔ ججوں کے بھی پیٹی بھائی ہوتے ہیں۔ججوں کی تقرریوں اور ترقیوں تک کے مراحل میں سفارش اور رشوت کی کرامات یوں دیکھیں کہ سول جج کی تنخواہ آج بھی اتنی نہیں کہ وہ عیش کی زندگی بسر کرسکے کہ اسکے پاس قیمتی گاڑی بھی ہو۔مگر یہ سب کچھ انکے پاس کہاں سے آتا ہے۔؟ بیوروکریٹ کس طرح منصوبہ بندیا ںکرکے اپنوں کو سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے دیتے رہے اور دیوالیہ قرار دے کر انکے قرضوں کو معاف کراتے رہے جبکہ دوسری طرف سرکای خزانے سے لی گئی رقم سے ذاتی ملیں اور فیکٹریاں بنیں۔ یہ سب کچھ روز روشن میں کیا گیا۔ مگر کیا کیا جائے ان کا احتساب کرنے والا کوئی نہ تھا۔ہر موڑ پر ڈاکوﺅں، لٹیروں، غاصبوں اور بدمعاشوں نے مختلف روپ دھار کر قبضہ جمایا ہوا تھا۔ اگر کوئی فوجی ڈکٹیر آیا تو یہ اسکے ساتھ چل پڑے کیونکہ انہیں اپنا تحفظ اور آئیندہ بھی اپنی بداعمالیوں کا سلسلہ جاری رکھناتھا۔اسی زبوں حالی میں پاکستان نے اپنی چونسٹھ سالہ زندگی گذاری۔ اس میں مرکزی کردار عدلیہ کا تھا ۔ عدلیہ کے اعلٰی جج ملک اور قوم دشمن عناصر کو نظریہ ضرورت کے تحت تحفظ دیتے رہے۔ اور اپنے فرائض کی اہمیت کو بھول گئے کہ انہیں بھی اللہ کے حضور ایک دن پیش ہوکر جواب دینا ہے۔مگر وہ اپنی نوکریاں بچاتے رہے ۔ ایک کے بعد دوسرا بد سے بد تر اور پھر بد ترین کی حد بھی پار ہوگئی۔ایک جج کا ضمیر جاگ اٹھا اور اس نے اپنے رب کے حضور سرخرو ہونے کا اعلان کردیا۔ امریکہ کے پالتو پرویز کو یہ نیا انداز فکر پسند نہ آیا اور اس نے اپنا آمرانہ سکہ چلایا تو اسکی توقع کے خلاف ملک کا بچہ بچہ سڑکوں پر نکل آیا۔ محترمہ بے نظیر مرحومہ نے کہا تھا کہ چیف جسٹس کو بحال کراﺅں گی اور انکی رہائش گاہ پر پاکستان پرچم خود لہراﺅں گی۔وہ جانتی تھیں کہ مدتوں بعد چیف جسٹس ملا۔ اسکی قدر میں کروں گی تو ملک میں انصاف اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔ لیکن اسکے ساتھ ہی ملک اور قوم کے ساتھ بڑاحادثہ یہ ہواکہ NRO معاہدہ کے تحت چوروں،ڈاکوﺅں، لٹیروں، قاتلوں اور ملک کی دولت لوٹنے والوں کوعام معافی مل گئی جنکی تعداد آٹھ ہزار بتائی جاتی ہے ان میں سے ایک تو صوبہ سندھ کا گورنر اور دوسرا پاکستان کا صدر بن بیٹھا۔ہر شاخ پہ الوبیٹھا ہے یا ہر شاخ برگ پر زاغ زغن نے گھونسلے بنالیئے توانجام گلستاں کیا ہوگا؟ کیا ہوگا وہ تو قوم دیکھ ہی رہی ہے۔قوم کا فیصلہ تھا ملک کو اللہ تعالٰی نے پہلی مرتبہ چیف جسٹس دیا۔ آپ کہیں گے کہ پہلے بھی تو تھے۔ ہاں وہ نام کے تھے، تنخواہ اور مراعات کے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ چیف جسٹس روئے زمین پر اللہ کی مخلوق کو انصاف دینے کے لیئے ہوتا ہے۔ وہ اپنے فرائض منصبی کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوتے رہے۔ جس نے اپنے فرائض کی تکمیل کے لیئے اپنی جان کی بازی لگا دی تو اللہ نے اسکی مدد کی۔مستقبل کا انہیں کیا معلوم تھا کہ میرے ساتھ عدل کے دشمن کیا کریں گے۔مگراللہ کا فرمان ہے ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ جو اللہ پاک پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اسکے لیئے کافی ہے۔ وکلااور دیگر عوام کا انکی حمائت میں نکلنا مصنوعی نہ تھا بلکہ اللہ پاک نے انکے دلوں میں یہ جذبہ حمائت عدل و انصاف ڈالا۔ عدالت عظمی نے اپنی سمت کا تعین کرلیا تھا۔ عدالت عظمی نے درست تاریخی فیصلوں کا آغا ز کردیا۔ جن میں خباثتوں اور غلاظتوں کا انبار NRO بھی تھا۔ مغربی جمہوری کفر کی پیداوار موجودہ حکومت نے NRO کے تحفظ کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ کیونکہ اسکی زد میں زیادہ تر حکمران طبقہ آرہا تھا۔ چاہیئے تو تھا کہ یوسف رضا اپنے آپکو گیلانی کہلانے اور بزرگوں کی لاج رکھتے مگر انہوں نے تو زرداری کے تحفظ کی قسم کھارکھی ہے۔گیلانی بہت بڑا نام ہے ۔ اس نسبت کی لاج رکھنی چاہیئے ۔ خلیفہ وقت سیدنا غوث اعظم السید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر اشرفیوں کی تھیلیاں بطور نذرانہ پیش کرتے ہیں لیکن آپ لینے سے انکار فرماتے ہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ اشرفیا ں کہاں سے آئی ہیں۔ اگر میں نے یہ نذرانہ قبول کرلیا تو خلیفہ کی اس خطا میں برابر کا شریک ہوجاﺅں گا۔ خلیفہ نذرانہ دینے پر مصر ہے تو آفتاب ولائت تھیلیوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر جلال سے دباتے ہیں تو ان سے خون ٹپکنا شروع ہوجاتا ہے۔ فرماتے ہیں اے خلیفہ رسول پاک ﷺ کے ساتھ تیری قرابت داری کا پاس ہے ورنہ اس خون سے تیرے محلات کو ڈبو دیتا۔یہ عوام کا پیسہ ہے جو تم لے کر آئے ہو۔یوسف رضا صاحب کچھ تو اپنے بزرگوں کا پاس رکھتے ۔ زرداری کو عوامی دولت پر ڈاکہ ڈالنے اور ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے کا اختیار کس نے دیا؟ این آر او دفن ہوچکا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ جس نے بھی اس ملک کے عوام کا پیسہ لوٹا اس سے لیا جائے ۔ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے ۔ حکمرانوں کا مطمع نظرلوٹ کھسوٹ ہے۔ لٹیروں کوکو ن سا ملک استثنا دیتا ہے۔اور ہم تو مسلمان ہیں ہمارا دین اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔نظام اسلام میں کسی کو استثنا نہیں ہے۔ صدر پاکستان ملکی خزانہ لوٹے یا عوام کا قتل عام کرائے تو اسکے خلاف انصاف کا عمل کیوں نہ حرکت میں آئے؟ ملک میں ایک ہی ادارہ ہوتا ہے کہ جہاں ہر طرف سے مایوس کر رجوع کیا جاتا ہے اور وہ عدالت ہے۔ جب چیف جسٹس صاحب نے حکم دیدیا کہ سوئز عدالت کو اپنی سابقہ رکی ہوئی کاروائی جاری رکھنے کے بارے لکھا جائے۔ تو آپ وزیر اعظم اور ملک کے منتظم اعلی ہوتے ہوئے چیف جسٹس کے احکامات پر پر عمل درآمد نہ کرکے ایک تاریک روائت چھوڑ رہے ہیں۔صاحبزادہ علی موسی صاحب نے بھی کمال کردکھایا، جنہیں بچانے کے لیئے سابق وزیراعظم نے انسداد منشیات کے محکمے کو اپنے غیض و غضب کا نشانہ بناتے ہوئے ایک جرنیل کو بھگایا، تفتیشی بریگیڈیر کو طلب کرکے فرمایا کہ وہ کام نہ کرو جو آج تک اس ملک میں کسی نے نہیں کیا۔ یہ بات ہمارے سمجھ میں آگئی۔ صاحبزادہ والا شان جو منشیات میں اونچا ہاتھ ماراٹھیک کیا ۔ اب تک اس ملک میں یہی روائت رہی ہے ۔ کسی معمولی افسر کے بیٹے کے خلاف آج تک کچھ نہ ہوا پھر یہ توملک کے جمہوری منتخب وزیر اعظم کے فرزند ارجمند اور آئندہ کے گدی نشین بھی ہیں۔لھذا انٹی نارکوٹکس کے بریگیڈیر ایفی ڈرین کیس چلاکر منشیات فروشوں کے خلاف کاروائی کرنے کی نئی روائت نہ ڈالیں۔ غیر آئینی ارباب اقتدار کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اب اس ملک میں لوٹ مار کی روایات دفن ہورہی ہیں اور لیٹروں کے محاسبہ کی روایات قائم ہورہی ہیں ۔یہی کچھ توعوام چاہتے ہیں۔عوام میں آپکا مقام گرگیا اور بریگیڈیر صاحب کا مقام بلند ہوگیا۔ آپ نے عدالت عظمی کو آنکھیں دکھائیں، آپ اور آپکی پارٹی آئے دن عدالت کے بارے نازیبا الفاظ استعمال کررہے ہیں۔ عوام کا درد اپنے دل میں رکھنے والی سیاسی رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے قاتلوں کا نہ پکڑا جانا دال میں کالا ہے یا دال ہی کالی ہے؟ امید ہے کہ اللہ تعالی ظالموں کو منظر عام پر لائے گا ۔ بات تو واضح ہوچکی کھسیانی بلی اب کھمبا ہی نوچے گی۔ میں آپ کو باور کرانا چاہتا ہوں کہ اس ملک کے عوام میں شعور اور آگہی آچکی ہے، میڈیا پل پل کی خبریں عوام تک پہنچا رہاہے۔ اب آپ لوگ عدالت کے حضور سرنڈر ہوجائیں تو شائد آپکی کچھ ساکھ بن جائے۔ سابق وزیر اعظم اور انکے زبردستی کے وزرا کا کہنا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے ۔ کس بارے؟ پارلیمنٹ میں جعلی ڈگریوں والے، فریب کار، ملکی دولت لوٹنے والے،دین اسلام ، قرآن و سنت سے ایسے بیگانے کہ سورة الاخلاص بھی یاد نہیں۔ جن کا مستقبل امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ وابستہ ہے،بچے یہودو نصاری کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم،علاج کرانا ہو تو امریکہ برطانیہ کے علاوہ انکی شان کے لائق معالج اور علاجگاہیں نہیں۔ کروڑوں روپے خرچ کرکے اراکین بن کر قومی خزانے پر شب خون مارنے والوں کوبھلاہم کیسے سپریم تسلیم کریں۔ اراکین اسمبلی کی تنخواہیںبیس سال پڑھ کر آنے والوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ ان کا انتخاب ہی مغربی جمہوری کفر کی پیداوار ہے۔ملک کا بچہ بچہ انہیں چورچور کہ رہا ہوتو ہم کیسے انہیں مقدس تسلیم کریں۔ سب سے زیادہ اہم اور قابل احترام وہ ادارہ ہے جسے ایوان عدل کہا جاتا ہے ۔ جہاں حکمرانوں کے خلاف مظلوم دادرسی کے لیئے جاتے ہیں۔ یہ وہ اہم بنیاد ی ستون ہے جو ریاست کے استحکام اور عوام کے حقوق کا ضامن ہے۔ اس ستوں کو قائم رکھیں ممکن ہے کہ جنہیں آج عدلیہ کے فیصلے ناگوار ہیں کل انہیں حصول انصاف کے لیئے باب عدل پر دستک دینی پڑے۔ پھر کس منہ سے جاﺅگے ۔۔۔ابھی شرمیلے بن جائیں۔ کہیں اپنی کراچی والی شر میلا (موئنث نام مذکر)نہ سمجھ لینا کیونکہ ہمارے سابق وزیر اعظم صاحب کوکبھی کبھی حالت سکر میں بیخودی کے عالم میں یہ بھی سجھائی نہیں دیتا کہ انہوں نے اپنا بازو شیرکے گلے حمائل کیا ہے یا شیری کے۔یہی وجہ ہے کہ کبھی کہا کہ جو عدالت عظمی فیصلہ دے گی اس پر سر تسلیم خم ہوگا جب فیصلہ آیا تو اسے نہ مانا۔اللہ انہیں فکر فردا عطا فرمائے آمین۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140920 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More