یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں
ہے کہ ہر قوم کا ماضی، حال اور مستقبل آپس میں کچھ اس حد تک مربوط ہوتے ہیں
کہ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کسی قوم کے مستقبل کا اندازہ کرنے
کے لئے اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ اس کے ماضی کا بغور مطالعہ کیا جائے۔
قوم میں جو خرابیاں راہ پا جاتی ہیں انہیں دور کرنے کا طریقہ بھی یہی ہے کہ
ایام گزشتہ پر نظر دوڑائی جائے اور زمانہ حال سے ان کا مقابلہ کرکے خرابیوں
کے ازالے کی کوشش کی جائے، بالکل اسی طرح جیسے کسی مریض کے مرض کی تشخیص
اور اس کے علاج کے لئے مرض سے پہلے کے حالات کی اچھی طرح چھان بین کرنی
ضروری ہوتی ہے۔ آج مسلمانوں پر بھی انحطاط کا دور دورہ ہے۔ جو قوم صدیوں تک
بڑی شان سے دنیا کے ایک بڑے خطے پر حکومت کر چکی ہے وہ آج قصر مذلت میں پڑی
ہے۔ ضروری ہے کہ ہم بھی چودہ سو برس پہلے کے واقعات و حالات کا بہ نظر غائر
جائزہ لے کر وہ اسباب ڈھونڈیں جو ہمارے انحطاط کا باعث بنے اور وہ راستے
تلاش کریں جن پر گامزن ہوکر ہمیں آج بھی اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت اور
قدر و منزلت حاصل ہوسکتی ہے۔آج کی مجلس میں اسی ضرورت کے پیش نظر سیدنا
صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی سیرت طیبہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ ان کے مبارک
تذکرے سے اللہ کی رحمت بھی نصیب ہوجائے اور ان کے مثالی کردار کی ایک جھلک
بھی ہمارے سامنے آجائے۔
تاریخ اسلام کی جلیل القدر شخصیت سیدنا صدیق اکبر(رض) کا نام اسلام لانے سے
قبل عبدالکعبہ تھا، مگر اسلام قبول کرنے کے بعد سرور کائنات حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام تبدیل کرکے عبداللہ رکھ دیا، سیدنا صدیق اکبر
کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انہوںنے بغیر کوئی دلیل یا معجزہ مانگے سب سے پہلے
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ توحید پڑھ کر مسلمان ہونے کا اعلان
کیا ،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر کے لقب سے نوازا۔ حضرت
ابوبکر صدیق کے والد کا نام عثمان او رکنیت ابوقحافہ اور حضرت ابوبکر صدیق
کی والدہ کا نام سلمیٰ اور کنیت ام خیر اور ام رومان تھی حضرت ابوبکر صدیق
قریش کے قبیلہ بنی تیم کے چشم وچراغ تھے۔آپ کا خاندان عرب میں اعلیٰ وجاہت
کا حامل تھا۔ نسبی شرافت میں بنی تیم کے افراد کسی سے کم نہ تھے۔جدا مجد
مرہ بن کعب بن لوی القرشی پر پہنچ کر آپ کا سلسلہ نسب آں حضرت صلی اللہ
علیہ وسلم سے جاملتا ہے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ بھی اللہ
تعالیٰ کی طرف سے اعزار حاصل ہے کہ دورنبوت ہی میں ان کے خاندان کی چار
نسلیں اسلام سے مشرف ہوئیں، والد، والدہ، خود ، اولاد ، پوتے نواسے، سب نے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس پر اسلام قبول کیا۔ حضرت ابوبکر
صدیق نے چار شادیاں کیں، آپ کی بیویوں کے نام قتیلہ بنت سعد اور زینب ام
رومان، حبیبہ بنت خارجہ بن زید بن ابی زہیرہ الخزرجی، اسمائ بنت عمیس رضی
اللہ عنہن۔حضرت قتیلہ بنت سعد سے حضرت ابوبکر صدیق کے صاحب زادے حضرت
عبداللہ اور صاحب زادی حضرت اسمائ پیدا ہوئیں، آپ کے صاحب زادے حضرت
عبداللہ غزوہ طائف میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ان کی وفات
حضرت ابوبکر صدیق کے دور خلافت میں ہوئی۔ ان کی اولاد میں حضرت اسماعیل
پیدا ہوئے، جو بچپن میں فوت ہو گئے ،حضرت اسمائ کی شادی حضرت زبیربن عوام
سے ہوئی، انہیں کے بطن سے مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے۔ آ ں
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا لقب’’ ذات النطاقین‘‘ رکھا تھا۔حضرت
زینب، اُم رومان کے بطن سے حضرت ابوبکر صدیق کے صاحب زادے حضرت عبدالرحمن
اور صاحب زادی ام المؤمنین حضرت عائشہ پیدا ہوئیں۔ ام رومان ہجرت کے چھٹے
سال فوت ہوئیں، حضرت اُم رومان کے لیے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی
دعا فرمائی تھی۔ حضرت حبیبہ بنت خارجہ بن زید بن ابی زہیرہ الخزرجیہ کے بطن
سے حضرت ابوبکر صدیق کی تیسری صاحب زادی اُم کلثوم پیدا ہوئیں۔ حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میںقرآن کریم کی کئی آیات نازل ہوئیں۔ ایک جگہ
فرمایاگیا:
’’﴿اور یاد کرو وہ وقت﴾جب کہ نکال دیا تھا کافروں نے ثانی اثنین یعنی حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق کوجب وہ دونوں حضرات غار میں
تھے اورجب کہ اس نے اپنے ساتھی، یعنی حضرت ابوبکر صدیق کو کہا تھا: لا
تحزن! یعنی فکر مت کر ،بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔﴿التوبۃ﴾
آپ کی رفعت شان کا اس بھی اندازہ لگائیے کہ خودحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: اے ابوبکر ! تم غار میں بھی میرے رفیق تھے اور حوض کوثر پر
بھی میرے رفیق ہو۔ بخاری شریف میں حضرت ابو الدردا سے روایت ہے کہ آں حضرت
صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری امت کوتنبیہ کرے ہوئے ارشاد فرمایا: یقین جانو
کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث فرمایا تو تم لوگوں نے مجھے کہا
کہ جھوٹ کہتے ہو۔ صرف ابوبکر نے کہا کہ آپ سچ فرماتے ہیں۔ پھر یہی نہیں،
ابوبکر نے اپنی جان اور مال سے میری غم خواری کی تو کیا تم میری خاطر میرے
ساتھی کو بحث وتنقید سے معاف رکھو گے؟
حضرت ابو سعید خدری(رض) سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: ہر نبی کے دو وزیر اہل آسمان سے اور دو وزیر اہل زمین میں سے
ہوتے ہیں،میرے وزیر اہل آسمان میں سے جبریل اورمیکائیل ہیں او راہل زمین
میں سے ابوبکر(رض) اور عمر(رض) ہیں، اگر آسمان والے بے وفا نہیں تو زمین
والے کیسے بے وفا ہو سکتے ہیں؟
جن کفار نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کے وقت محاصرہ کیا، اللہ
تعالیٰ کے فضل وکرم سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے محاصرہ سے نکل
کر حضرت ابوبکر صدیق کے گھر گئے، حضرت ابوبکر صدیق کو بلا کر فرمایا: اے
ابوبکر صدیق !اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کا حکم ہوا ہے اور فرمایا آپ نے
بھی ساتھ جانا ہے۔ یہ سن کر ابوبکر صدیق بڑے خوش ہوئے اور اسی وقت ساتھ چل
دیے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق چلتے چلتے غار ثور
پر پہنچے تو حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کیا :اللہ کی قسم! آپ اندر نہ جائیں،
پہلے میں جاتا ہوں، اگر اس کے اندر اذیت کوکوئی سامان ہو گا تو آپ بچ جائیں
گے اور جو کچھ گزند ہونا ہے مجھے ہو جائے گا۔یہ کہہ کر اندر داخل ہوئے، غار
کو صاف کیا، ایک طرف چند سوراخ نظر آئے، ان کو اپنی چادر پھاڑ کر بند کیا،
پھر بھی دو سوراخ رہ گئے تو دونوں پاؤں سے ان کے دہانے بند کر دیے، پھر
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی اب اندر تشریف لے آئیں۔ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر(رض) کی گود میں سر مبارک
رکھ کر سو گئے، کچھ دیر بعد حضرت ابوبکر(رض)کے پاؤں میں سوراخ کے اندر سے
سانپ نے ڈس لیا۔ مگر قربان جائیے صدیق اکبر کے ادب رسالت پر کہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کی بیداری کے خوف سے ابوبکروہ تکلیف برداشت کرتے رہے لیکن
انہوں نے کوئی حرکت نہ کی، جب ابوبکر کے آنسو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کے چہرہ انور پر ٹپکے تو آپ بیدار ہو گئے ۔فرمایا: ابوبکر کیا بات ہے؟
ابوبکر صدیق(رض) نے عرض کی:اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں!
مجھے سوراخ کے اندر سے سانپ نے ڈس لیا ہے۔ آپ نے اپنا لعاب دہن لگا دیا تو
اس لعاب دہن کی برکت سے صدیق اکبر کی وہ ساری تکلیف جاتی رہی۔
علم وفضل میںبھی آپ دیگر صحابہ کرام میں سب سے زیادہ عالم اور ذکی تھے جب
کسی مسئلے کے متعلق صحابہ کرام میں اختلاف رائے ہوتا تو وہ مسئلہ حضرت
ابوبکر کے سامنے پیش کیا جاتا، آپ اس مسئلہ پر جو حکم لگاتے وہ تمام صحابہ
کرام قبول کر لیتے، قرآن پاک کا علم حضرت ابوبکر کو سب صحابہ کرام سے زیادہ
تھا۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق کو اپنی زندگی
میں امام بنایا۔
قرآن کریم میں سورۃ طہ کی آیت نمبر55 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ ہم نے
تم کو اسی زمین سے پیدا کیا اور اسی میں ہم تم کو ﴿بعد موت﴾ لے جائیں گے
اور قیامت کے روز پھر دوبارہ اسی سے ہم تم کو نکالیں گے‘‘۔ اس آیت سے پتہ
چلتا ہے کہ حضرت ابوبکر پیدا ہونے سے پہلے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
ساتھ تھے اور پیدا ہونے کے بعد بھی سب سے پہلے حضرت ابوبکر حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کے دوست بنے اور جب رسالت کا اعلان کیا تو بھی حضرت ابوبکر پہلے
اسلام لاکر سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی بنے اور یہ صحابیت
اس طرح نبھائی کہ زندگی کے نشیب وفراز میں بھی آپ کے ساتھ رہے اور موت کے
بعد روضہ مبارک میں بھی ساتھ، قیامت والے دن بھی ساتھ، حوض کوثر پر بھی
ساتھ اور جنت میں بھی ساتھ ہوں گے ۔والحمدللہ رب العالمین
نبی کریم کی وفات کے بعد اسلام پر جوسنگین وقت آیا اور جناب صدیق اکبر نے
جس بلند ہمتی اور اولوا لعزمی اور استقامت و دینی غیرت واستقامت کے ساتھ
تمام فتنوں کی سرکوبی فرمائی وہ ان کا ایسا کردار ہے جس نے ان کے کردار کو
ایسا روشن کردیا ہے جو رہتی دنیا تک باقی رہے گا اور اسلام کا ہر نام لیوا
ان کے زیر احسان رہے گا۔
حضرت ابوبکر صدیق 22 جمادی الاخریٰ13 ہجری بروز دو شنبہ کو مابین مغرب وعشا
اس دنیا فانی کو چھوڑ کر دار بقا میں جنت نشان مقام میں ارض وسمائ کے افضل
ترین ٹکڑے میں مدفون ہوئے۔ رضی اللہ عنہ
حضرت ابوبکر صدیق نے دو سال تین ماہ گیارہ دن کے دورخلافت میں پچھتر ہزار
آٹھ سو چالیس مربع میل علاقے پر اسلام کا پرچم بلند کیا۔
اسلام کی سر بلندی کے لئے جو مؤقف حضرت ابوبکر صدیق(رض) نے اختیار کیا
تھااور رسول اللہ کی رفاقت کے ذیل میں جو بلند پایہ خدمات انہوں نے انجام
دیں وہ نہ صرف مجموعی طور پر آب و زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں بلکہ ان میں
سے ہر ایک حضرت ابوبکر صدیق(رض) کے نام کو ابد الاباد تک زندہ رکھنے کے لئے
کافی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق(رض) کی رفعت شان کو احاطہ
تحریر میں لانا ممکن ہی نہیں کیونکہ اعلائ کلمۃ اللہ کی خاطر جو قربانیاں
انہوں نے پیش کیں ان کا تعلق اصل میں دل سے ہے اور یہ علم اللہ ہی کو ہے کہ
حضرت ابوبکر صدیق(رض) کے دل میں اسلام اور رسول اللہ کی محبت کے جو جذبات
موجزن تھے وہ ظاہر کے مقابلے میں کتنے شدید تھے اور ان کا اندرونی اخلاص
ظاہری اخلاص سے کتنا زیادہ تھا۔رضی اللہ عنہ |