تحریر: مفتی منصور احمد
میرے سامنے اس وقت ایک ورق رکھا ہوا ہے جس پر کچھ لکھا ہوا ہے ۔ میں
چاہتاہوں کہ میرے ساتھ آپ بھی یہ تحریر پڑھ لیں :
’’آپ بیتی ہے ایک مجاہد کی اور حکم ملا ہے ایک مجاور کو کہ اس پر تقریظ
لکھے ۔ سرگزشت ہے تپتے صحراؤں ، سلگتے ریگستانوں اور فلک بوس پہاڑوں کو
عبور کرکے آنے والے ایک جاں نثار کی اور اس کا تعارف لکھنے کو کہا جارہا ہے
گوشۂ عافیت میں بیٹھے ہوئے ایک عافیت کوش انسان کو ‘جس کے نامہ عمل میں نہ
مجاہدے ہیں نہ قربانیاں !.‘‘
افغانستان کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے صحراؤں ، ریگستانوں ، پہاڑوں ، ندی
نالوں، گلی کوچوں، شہروں اور دیہاتوں ، جیل خانوں اور میدانوں میں ظلم وستم
کی ایسی ہزاروں داستانیں پھیلی ہوئی ہیں ‘جنہیں نہ کسی راوی نے بیان کیا
اور نہ ہی کسی قلم نے رقم کیا .ہاں!ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب پتھر بول
پڑیںگے ، دیواروں کو زبان مل جائے گی ، ذروں کا نطق ’’نطق والوں‘‘کو حیرت
زدہ کردے گا ‘زبان خنجر’’اہل زبان‘‘کے خلاف گواہی دے گی ‘اس دن ’’خاک وخون
‘‘مجرموں کے خلاف فرد جرم کے طور پر پیش ہوں گے .لیکن آئیے !ان ہزاروں
داستانوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے مولانا محمد مقصود احمد صاحب زید مجدہ
کے قلم سے اڑنے والی خاک اور ٹپکنے والے خون کا نظارہ کرتے جائیے کہ اس کا
نظارہ اور مطالعہ ’’خاک نشینوں‘‘کی ’’فلک نشینی‘‘کی گواہی دیتا ہے اور
ٹھنڈے خون میں گرمی پیدا کردیتا ہے. واللہ!وہ واقعی فلک نشین ہیں جن کے جسم
اللہ کے دین کے لئے تپتے صحراؤں میں جھلس گئے ‘جن کے اعضائ سلگتے
ریگستانوں میں بکھر گئے ‘جن کے خون فلک بوس پہاڑوں کے رخساروں کا غازہ بن
گئے .
خدا رحمت کند آں عاشقانِ پاک طینت را
محتاج دعا
محمد اسلم شیخوپوری
۹محرم الحرام ۳۲۴۱ھ
کل دوپہر جب کراچی سے ایک محترم دوست نے داعیٔ قرآن ، مفسر قرآن ، عاشق
قرآن حضرت مولانا محمد اسلم شیخوپوری(رح) کی کراچی کے ایک پر رونق علاقے
میں دن دیہاڑے سفا ک قاتلوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمانے کی المناک خبر
سنائی تو بلااختیار آنکھیں چھلک پڑیں اور ماضی کی کئی یادیں ایک ایک کرکے
نگاہوں کے سامنے آنے لگیں ۔انہی حسین یادوں میں سے یہ ایک ورق بھی تھا ، جو
آپ نے ابھی پڑھا اور آپ یقینا سمجھ چکے ہوںگے کہ یہ تحریر حضرت مولانا
شہید(رح) نے برادر عزیز مولانا محمد مقصود احمد شہید(رح) کی مقبول
کتاب’’خاک وخون‘‘پر بطور تقریظ لکھی تھی۔
بندہ نے مولانا شہید(رح) کو جو ’’عاشق قرآن‘‘ لکھا تو یہ صرف سنی سنائی
باتوں پر نہیں بلکہ چشم دید گواہی کے طور پر لکھا ہے ۔ جامعۃ النور کا پہلا
سال تھا ، مشکلات ، مسائل اور مصائب کی ایک یلغار تھی ۔ حکومت کے ظالمانہ
اقدامات کی بنائ پر ہم جیسے جامعہ کے خدام کا رابطہ ساری دنیا سے منقطع تھا
۔ ایسے آڑے وقت میں حضرت شہید (رح) نے جس طرح غیر محسوس انداز میں حوصلہ
افزائی اور سرپرستی کی ‘وہ یقینا آپ کا ہی حصہ تھا ۔ پھر تعلیمی سال کے
اختتام پر جامعہ میں چالیس روزہ جو قرآنی محفلیں سجائیں ، اس نے پہلی مرتبہ
جنگل میں منگل کا سماں پیدا کردیا تھا ۔ اپنی معذوری کے باوجود جس طرح
گھنٹوں قرآن مجید کا بلاتکان مسلسل درس دیتے، وہ اچھے خاصے صحت مند لوگوں
کے لئے بھی قابل رشک تھا ۔بندہ کے ذمہ نماز ظہر کے بعد تھوڑی دیر شرکائے
محفل میں سے جو باقاعدہ مدارس کے طلبہ تھے ، ان کو صرف ونحو کا اجرائ
کروانا تھا اور بس ۔ یقین جانیں کہ پہلی مرتبہ انہی کو دیکھ کر یہ احساس
ہوا کہ جامعہ کتنا اہم علمی اور عملی کردار ادا کرسکتا ہے ۔
آپ کو قریب سے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ آپ کتنے سادہ مزاج تھے اور یہ
سادگی تصنع اور بناوٹ کے طور پر نہیں بلکہ آپ کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھی ۔
اس افتادِ طبع کی بنائ پر آپ نے جامعہ میں ایک طرف اپنے خرچے پر دوکچے کمرے
اور ان کے ارد گرد کچی چار دیواری تیار کروائی اور اس پر ’’دار
الغریب‘‘لکھوایا ۔سادہ دل لوگ آتے تو سمجھتے یہ اردو والا ’’غریب‘‘ہے
حالانکہ انہوں نے یہ نام اس حدیث پاک کی بنائ پر تجویز فرمایا تھا :
’’کن فی الدنیا کأنک غریب او عابر سبیل ‘‘
﴿تم دنیا میں ایسے رہو جیسے کوئی مسافر یاراستے سے گزرنے والا رہتا ہے﴾
جامعہ میں ان دنوں ایک معذور مجاہد رہا کرتے تھے ۔ ان کے ساتھ ایک ساتھی
تھے ،جن کا نام تنویر تھا ، انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی اس مجاہد کی
خدمت کو بنالیا تھا ۔ بہت ہی سیدھا سادہ اور بھولا بھالاساتھی ، جب حضرت
شہید(رح) نے ان دونوں کی داستان سنی تو اتنے متاثر ہوئے کہ اپنے ایک کالم
میں اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا:
’’عبد اور عبید دو دوستوں سے ملاقات ہوئی دونوں ہنس مکھ ، خوش مزاج ،
بااخلاق .عبد معذور ہے اور اب مستقل وہیل چیئر پر ہے ، کسی معاون کے بغیر
نہ چیئر پر بیٹھ سکتا ہے نہ اتر سکتا ہے ،کھانے پینے سے لے کر سونے جاگنے،
وضو اور استنجائ تک معاون کا محتاج ہے۔ معاون کے فرائض عبید انجام دیتا ہے
وہ بڑی خوشی اور بشاشت سے عبد کی خدمت کرتا ہے ، اپنے مضبوط بازؤں میںعبد
کو اٹھا کر لیٹرین میں لے جاتا ہے اور اس کے لئے بنی مخصوص کرسی پر بٹھاتا
ہے وہ فارغ ہوجاتا ہے تو اسے وضو کراتا ہے ، نماز پڑھواتا ہے اور بستر
سیدھا کرتا ہے ، اس کے برتن اور کپڑے دھوتا ہے ، کہیں بھی لے کر جانا ہوتا
ہے ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے .میں نے اس کی معذوری کی وجہ جاننا چاہی ،
پہلے وہ دوسرے مجاہدین کی طرح ٹال گیا کیونکہ ان لوگوں کی تربیت ہی ایسی کی
گئی ہے ، یہ اپنی قربانیوں اور زخموں کی داستان سنانے پر مشکل سے ہی آمادہ
ہوتے ہیں .میں نے اصرار کیا تو بتایا کہ طالبان کے ساتھ ایک معرکہ میں حصہ
لیا جسم کے نچلے حصہ پر گولیاں لگیں جس سے میری ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوگئی
اور آدھا دھڑ معطل ہوگیا ، اب جسم کے اس حصہ کو اگر کاٹ بھی دیا جائے تو
پتہ نہیں چلے گا ۔
پھر اس نے عجیب بات کہی جو اس کے منہ سے اچھی لگی وہ یہ کہ مولانا صاحب یوں
سمجھئے میرا آدھا جسم شہید ہوچکا ہے ۔ میں نے کہا عبد یقین رکھو اللہ
تعالیٰ تمہارے جسم کو جنت اور جہنم میں تقسیم نہیں کرے گا ۔ شہادت والے حصہ
کا جنت میں جانا یقینی ہے تو دوسرا حصہ بھی ان شائ اللہ جنت میں جائے گا ۔
عبد کے جوا ب سے مجھے حضرت عبد اللہ بن زبیر(رض)یاد آگئے جن کی ایک ٹانگ
حادثہ میں زخمی ہوگئی جس کی وجہ سے کاٹنی پڑی ۔ ان کی تعزیت کے لئے لوگ آئے
ہر ایک نے تعزیت کی ایک شخص نے ایسی بات کی جس سے حضرت عبد اللہ بن
زبیر(رض) کا دل خوشی سے بھر گیا ۔ انہوں نے کہا ’’حضرت مبارک ہو آدھی ٹانگ
آپ سے پہلے جنت میں چلی گئی‘‘۔
عبد سے فارغ ہوکر میں عبید کے پاس گیا اور پوچھا تم کون ہو اور عبد کے ساتھ
تمہارا کیا رشتہ ہے ؟خادم ہو یا رشتہ دار ؟
اس نے کہا خونی رشتہ تو کوئی نہیں ایمانی رشتہ ہے ، ان کی خدمت کے لئے امیر
صاحب نے میری آٹھ سال کے لئے تشکیل کردی ہے جب تک یہ عالم بن کر مدرسہ سے
فارغ نہیں ہوجاتے میں ان کے ساتھ رہوں گا ۔ یقین کریں وہ آٹھ سال ایسے کہہ
رہا تھا جیسے آٹھ دن ۔
مجھے سو فیصد یقین ہے کہ کوئی خونی رشتہ دار آٹھ دن بھی ایسی خدمت نہیں
کرسکتا جیسی وہ کررہا تھا .پھر عبید نے بتایا کہ بہت دنوں سے مجھے والدین
گھر آنے کے لئے کہہ رہے ہیں لیکن میں اس لئے نہیں جاتا کہ میں جانتا ہوں
اگر میں گھر چلاگیا تو وہ میری شادی کردیںگے اور میں عبد کی خدمت سے محروم
ہوجاؤں گا ۔
میں بہت دیر تک عبید کا معصوم چہرہ اس لئے دیکھتا رہا کہ شاید یوں دیکھنے
سے اس کے ایمانی جذبہ کا کچھ حصہ مجھے بھی نصیب ہو جائے ۔ عبد اور عبید کے
حالات سن کر فیصلہ نہ کرپایا کہ بڑی قربانی کس کی ہے؟‘‘
حضرت شہید (رح) بہت زندہ دل اور خوش طبع تھے ۔ خشکی اور بدمزاجی شاید آپ کو
چھوکر بھی نہیں گزری تھیں ۔ جب بھی ملاقات ہوتی ، کسی نئے لقب سے یاد
فرماتے ۔ آپ سے آخری ملاقات حرم شریف کے سامنے ہوئی تو پوری بشاشت کے ساتھ
ملے اور دعاؤں سے نوازا ۔میدان عرفات میں آپ حجاج کرام کے ایک بڑے اجتماع
سے پُر اثر خطاب کررہے تھے ۔ دور سے دیکھا ، رش بہت تھا ، ملاقات کا موقع
نہیں تھا ، اس لئے زیارت پر ہی اکتفائ کرلیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان
میں جو تاثیر رکھی تھی، اس دن وقوف عرفہ نے اس کو چار چاند لگادیئے تھے اور
یوں لگتا تھا کہ ’’از دل خیزد بردل ریزد‘‘اسی کو کہتے ہیں ۔
بات ترتیب کے خلاف ہوجائے گی لیکن ابھی تک شش وپنج میں تھا کہ لکھوں یا نہ
لکھوں ۔ حضرت شہید(رح) سے ابتدائی تعارف اور خط وکتابت کا واقعہ بھی عجیب
ہے ۔ بندہ کراچی کے ایک دینی ادارے میں زیر تعلیم تھاانہی دنوں حضرت نے
اپنے استاد محترم امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صاحب صفدر (رح)
کے اعزاز میں بہت بڑی کانفرنس کا اہتمام کیا تھا اور یہ طے کیاگیا تھا کہ
اس سال جن طلبہ نے وفاق المدارس العربیہ سے پورے پاکستان کی سطح پر امتیازی
کامیابی حاصل کی ہے ، ان کی حوصلہ افزائی کے لئے حضرت امام اہل سنت (رح) کے
دست مبارک سے ان میں انعامات تقسیم کئے جائیں گے۔
بندہ نے چونکہ بفضلہ تعالیٰ اپنے تعلیمی ادارے میں درجہ رابعہ میں ایسی ہی
کامیابی حاصل کی تھی ، اس لئے ایک دعوت نامہ وہاں بھی پہنچا جسے ارباب
انتظام نے اس غریب الدیار طالب علم تک پہنچنے ہی نہیں دیا ۔ کافی عرصے بعد
جب مجھے ایک طالب علم کے ذریعے یہ سب کچھ معلوم ہوا تو میں نے حضرت
شہید(رح) کے نام ایک خط لکھا، جس میں یہ بھی عرض کیا کہ مجھے آپ کے ہاں کے
ایک طالب علم نے بتایا ہے کہ جن طلبہ نے موقع پر انعامات وصول نہیں کئے
تھے، ان کے انعامات محفوظ رکھے ہوئے ہیں ۔ چند دن بعد حضرت (رح) کا جوابی
خط ملا ، جس میں لکھا تھا کہ انعامات تو دوسال انتظار کے بعد تقسیم کردئیے
گئے ہیں لیکن اگر آپ سے ملاقات ہوجائے تو زہے نصیب۔ میں نے جامعۃ النور میں
ایک مرتبہ یہ پوری داستان انہیں سنائی تو اپنے مخصوص تبسم والے انداز میں
فرمایا کہ دیکھیں ہم واقعی خوش نصیب ہیں کہ آپ سے ملاقات ہوگئی ہے۔
میں یہاں تک لکھ پایا تھا کہ مجھے یاد آیا کہ جب حضرت(رح) کی تفسیر ’’تسہیل
البیان‘‘جو واقعی اسم بامسمیٰ ہے ، کی پہلی جلد کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوکر
آیا تو آپ(رح) نے اس کے دونسخے مجھے بھجوائے تھے ۔ ان میں سے ایک نسخے کے
پہلے صفحہ پر آپ کے قلم سے یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں :
بسم اللہ
ہدیہ محبت وعقیدت برائے الشیخ محمد مسعود اظہر دامت برکاتہم
محتاج دعا
محمد اسلم شیخوپوری
اس مختصر اور آسان تفسیر کے شروع میں آپ نے جو چند سطریں لکھی ہیں ‘وہ بھی
قرآن مجید سے آپ کے تعلق اور محبت کی گواہی کے طور پر یہاں نقل کردیتا ہوں
:
’’پیش نظر تفسیر کے مؤلف کو درس نظامی سے فراغت کے بعد کم وبیش بیس سال
تدریس کا موقع ملا ، چند سالوں سے وہ تصنیف وتالیف سے بھی تعلق رکھے ہوئے
ہے کچھ عرصے سے اس کے دل میں یہ داعیہ شدت سے پیدا ہورہا تھا کہ جس طرح
عربی میں نئے انداز میں بعض تفاسیر لکھی گئی ہیں ، اس طرح کاکام اردو میں
بھی ہوجائے ، کبھی کبھی اس کے دل میں خیال آتا کہ وہ یہ کام خود ہی کردے
مگر جب وہ اپنی علمی بساط پر نظر ڈالتا تھا تو اسے یہ خیال بھی مضحکہ خیز
لگتا تھا کہاں تفسیر قرآن اور کہاں یہ سراپا جہل وعصیان !مگر یہ خیال تھا
کہ اسے کسی پل چین نہ لینے دیتا تھا چنانچہ کافی غور وخوض کے بعد اس نے یہ
کام کرنے کا فیصلہ کرہی لیا تاکہ قیامت کے دن گناہوں میں ڈوباہوا یہ شخص
بھی اللہ کے حضور کوئی نیک عمل پیش کرسکے ò
روز قیامت ہر کسے در دست گیرد نامہ ای
من نیز حاضر می شوم تفسیر قرآں در بغل
’’قیامت کے دن جبکہ ہرشخص اپنا نامہ اعمال ہاتھ میں لئے ہوگا میںبھی بغل
میں تفسیر قرآن لے کر حاضر ہوجاؤں گا ‘‘
حضرت شہید (رح) جیسے مخلص ، بے لوث اور وفا شعار اسلام اور قرآن کے خدام اب
خال خال ہی کہیں نظر آتے ہیں اور اب تو یہ حالت کہ ہر جانے والے کے پیچھے
خلا ہی نظر آتا ہے ۔ آج سے چند سال پیشتر ان آنکھوں نے جن پاکباز ہستیوں کی
زیارت کی ، آج جب ذہن میں ان کا تصور آتا ہے تو بلا اختیار زبان پر اقبال
مرحوم کا یہ شعر مچلنے لگتا ہے ò
آئے عشاق، گئے وعدۂ فردا لے کر
اب ڈھونڈ انہیں، چراغ رخ زیبا لے کر
یوں توایک ڈیڑھ سال پر محیط یادیں بہت سی ہیں لیکن اصل سبق جو بالخصوص
نوجوان علمائ وفضلائ کے لئے آپ کی حیات مستعار میں پنہاں ہے وہ یہ کہ اخلاص
کے ساتھ انتھک محنت کامیابی کی ضمانت ہے ۔ اگر انسان کے عزائم بلند ہوں،
ارادے غیر متزلزل ہوں اور نظر خدا پر ہو تو پھر جسمانی معذوری بھی اس کے
لئے کسی مقام اور مرتبہ کے حصول میں رکاوٹ نہیں بن سکتی اور پھر ہمارے خود
تراشیدہ اعذار کی حقیقت تو صرف یہی ہوتی ہے کہ ò
یہ ہے کم ہمتی جو بے بسی معلوم ہوتی ہے
دشمنان اسلام ہمیشہ اہل حق علمائ کو اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے
آئے ہیں ۔ پورے ملک میں ان قدسی صفت انسانوں کا خون ناحق بہہ رہا ہے ۔
دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے جلیل القدر استاذ حضرت مولانا شیخ نصیب خان
وزیر(رح) کی شہادت ، جامعہ حلیمیہ لکی مروت کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد
محسن شاہ صاحب(رح) کی شہادت اور کراچی میں حضرت مولانا محمد اسلم شیخو پوری
(رح) کی شہادت ، یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔ اس لئے اہل حق کو باہم
متفق ومتحد ہوکر سوچ بچار کرنے کی ضرورت ، آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔باقی
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ان شہادتوں کی وجہ سے اہل حق اپنا موقف اور نظریہ
بدل لیں گے تو یہ اس کی بھول ہے ۔ شہادتوں کے کارواں چلتے رہیںگے اور اسلام
کا پرچم لہراتا رہے گا ۔ سلام ہو آپ پر اے بزم شہدائ سجانے والو!سلام ہو آپ
پر اے اسلام کے نام پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والو!سلام ہو آپ پر
.ایک گناہ گار عاصی کا سلام محبت وعقیدت .گر قبول افتد زہے عز وشرف |