پاکستان کے قیام کا مقصد ملک میں
شرعی احکام کا نفاذ اور آزادانہ دین کی ترویج و تبلیغ کاکام کرتے ہوئے دنیا
بھر میں اسلامی احکام کے تحفظ اور فروغ کے لیے مرکز قائم کرنا تھا ۔مگر روز
اول سے اسلام دشمن قوتیں پاکستان کو لادین ریاست بنانے کے لیے کوشاں رہی
ہیں۔ لیکن جس طرح تحریک آزادی ہند اور تحریک پاکستان کے دوران علماءاور
مذہبی طبقے کی بے پناہ قربانیوں نے آزادی کو ممکن بنایا، اسی طرح قیام
پاکستان کے بعد بھی علماءنے شبانہ روز محنت سے پاکستان کولادین ریاست بنانے
کی ہر سازش کا مقابلہ کیا اور ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ اور شرعی احکام
کی ترویج وتبلیغ کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔
65 سالہ اس سفر میں ہزاروں علماءاور مذہبی نظریات کے حامل افراد نے
قربانیاں دیں۔ قرارداد مقاصد کی شکل میں اسلامی احکام اور شعائر کو آئین
پاکستان میں تحفظ ملنا اور اسلامی احکام کے ضمن میں خصوصی آرٹیکلز کا
اندراج انہی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔اسلام دشمن قوتوںنے پاکستان کو غیر
اسلامی ریاست بنانے کوشش کی ناکامی کے بعد اسلام کی تبلیغ وترویج میں مصروف
اہم شخصیات کو راستے سے ہٹانا شروع کیا۔ کبھی علماءالزام تراشیاں کیں تو
کبھی تشدد کا راستہ اختیار کیا اور پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کی کوشش
کی پاداش میں اب تک ہزاروں علماءاور عوام قربانیاں دے چکے ہیں۔
کراچی میں1991ء سے2012ءتک کے اکیس سال کا ہی جائزہ لیں تو یہاں کے گلی
محلے، مساجد، علمائے حق کے خون سے رنگین نظر آتی ہیں۔ جامعہ فاروقیہ کے
پانچ علماءکی ڈرگ روڈ میں شہادت سے شروع ہونے والا سفر ختم ہونے کا نام
نہیں لے رہا ہے۔ اہل کراچی کو کبھی پانچ جید علماءکی شہادت کا صدمہ سہنا
پڑتا ہے تو کبھی شیخ الحدیث مولانا یوسف لدھیانوی ؒجیسے جید عالم کی جدائی
کا صدمے کا سامنا ہوتا ہے۔ اسی شہر میں ممتاز عالم دین مولانا حبیب اللہ
مختارؒ اورمولانا عبدالسمیع ؒکو دین کی تبلیغ وترویج کے جرم میں نہ صرف
شہید بلکہ لاشوں تک کو نذر آتش کیا گیا۔کراچی میں ہی مولانا مفتی نظام
الدین شامزئیؒ جیسے عظیم مجاہد ، مفتی جمیل احمد خانؒ جیسے مدبر ، مولانا
سعید احمد جلال پوری ؒجیسے ختم نبوت کے شیدائی ، مولانا عبدالغفور ندیم
ؒجیسے صحابہ ؓکے سپاہی ، مولانا مفتی عتیق الرحمن جیسے عظیم معلم اور اب
،داعی و مفسر قرآن مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ جیسے جید عالم کو بے دردی سے
شہید کیا گیا۔ انہی بیس سال کا ترتیب سے واقعات کا جائزہ لیںتو ختم نبوت کے
متوالوں، صحابہ کے سپاہیوں، اسلامی شعائر کے محافظین اور حق کا پرچار کرنے
والے ان علمائ، طلباءاور عامة المسلمین کی شہادت کی ایک طویل فہرست ہے۔ ایک
اندازے کے مطابق گزشتہ بیس سالوں میں کراچی میں مجموعی طور پردرجنوں جید
علماءسمیت ایک ہزار سے زائد طلبہ، مذہبی کارکن اور عامة المسلمین کو اسلامی
شعائر کے تحفظ، ترویج وتبلیغ کی وجہ سے شہادت جیسے عظیم رتبے پر فائز ہوچکے
ہیں۔
داعی قرآن مولانا اسلم شیخوپوری ؒ جیسے معذور عالم دین کو اس لیے برداشت
نہیں کیا گیا کہ وہ قرآن کے حقیقی پیغام سے لوگوں کو روشناس کراتے تھے۔
مولانا اسلم شیخوپوریؒ نے 1959ءمیں اپنی آنکھ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے
گاﺅں لدھڑ میں زمیندار محمد حسین کے گھر کھولی اور تین سال کی عمر میں ہی
فالج کے حملے میں دونوں ٹانگوں سے معذور ہوئے لیکن اس معذوری کو کبھی اپنی
مجبوری بننے نہیں دی۔ ابتدائی عصری تعلیم اپنے گاﺅں میں حاصل کی مگر چوتھی
جماعت سے ہی9سال کی عمر میں قرآنی علوم سے اپنا تعلق قائم کیا اس میںمقامی
مسجد کے امام کی ترغیب اور والد کی خواہش نے اہم کردار ادا کیا اور صرف
گیارہ ماہ کی مختصر مدت میں حفظ قرآن کی سعادت حاصل ہوئی۔ درس نظامی کی
ابتدائی چند کتابیں اپنے علاقے میں ہی پڑھیں مگر معذوری کے باوجود شرک
وبدعت کے ماحول سے نکل کر علوم دینیہ کے لیے مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی
عظیم درسگاہ جامعہ نصرت العلوم گوجرانوالہ کا انتخاب کیا ۔ بعدازاں اعلیٰ
دینی تعلیم کے لیے اپنے چچا اسلم کے ہمراہ کراچی پہنچے اور عظیم دینی
درسگاہ جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاﺅن کا انتخاب کیا۔ ان کے
اساتذہ میں حضرت مولانا یوسف بنوریؒ، حضرت مولانا ولی حسن ٹونکیؒ، حضرت
مولانا مفتی احمد الرحمنؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید
ؒجیسے جید علماءشامل ہیں۔
دورہ حدیث کے بعد دین کی تبلیغ وترویج کے لیے اپنے گاﺅں کا انتخاب کیا لیکن
شرک و بدعت کے ماحول میں کام کرنا انتہائی مشکل ثابت ہوا۔ مجبوراً کراچی کا
رخ کیا اور جامعہ بنوریہ العالمیہ سائٹ میں درس وتدریس اختیار کی۔ مولاناؒ
کا شمار جامعہ کے اساسی اساتذہ میں ہوتا ہے اور19 سال تک فروغ علوم دینیہ
میں مصروف رہے۔ اسی دوران جامع مسجد خدیجہ لیبر اسکوائر سائٹ ٹاﺅن میں
خطابت کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔،بعد ازاں عظیم درس گاہ جامعة الرشید
احسن آباد میں تقریباً 7 سال تک محدث، مفسر اور استاد کی حیثیت سے خدمات سر
انجام دیتے رہے۔اللہ تعالیٰ نے جس طرح ان کو علوم دینیہ کے حصول کی بھرپور
صلاحیت عطا کی اسی طرح فن خطابت، تحریر اور فنی علوم کی محارت میں وہ اعلیٰ
مثال تھے۔ انہوں نے نصف درجن سے زائد کتابیں لکھیں جن میں7 جلدوں پر مشتمل
”ندائے ممبر ومحراب“ علماءبالخصوص خطباءجبکہ” 50 تقریریں “دنیا بھر کے
طلباءمیں انتہائی مقبول ہیں۔مولانا جہاں ایک عظیم معلم تھے وہیں پر ایک
بہترین کالم نگار بھی تھے۔ تقریباً 10 سال تک ہفت روزہ ضرب مومن میں پکار
کے نام سے کالم لکھتے رہے اور گزشتہ 10 سال سے کلی طور پردرس قرآن کے کام
میں مشغول ہوگئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کے دروس قرآن واحادیث کی
مجموعی تعداد 2 ہزار سے زائد ہے جو مختلف موضوعات پر سیر حاصل اور مدلل ہیں
( بیشتر انٹرنیٹ میں موجود ہیں) ۔
مولانا اسلم شیخوری کا شمار نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے جید چند علماءمیں
ہوتا تھا۔ وہیل چیئر کے ذریعے آمد ورفت کرنے والے اس جید عالم نے اپنی53
سالہ زندگی میں وہ دینی خدمات سر انجام دیں جو شاید لوگ صدیوں میں بھی نہ
کر سکیں۔ مولانا شہید کے داماد اور متعلقین کے مطابق وہ اپنے دروس اور عام
گفتگو میں کہا کرتے تھے کہ”میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش قرآن پا ک کی
تفسیر” تسہیل البیان“ اوردروس کے ذریعے ”قرآن پاک“ کی تفسیر کی تکمیل
ہے،۔تفسیر ’تسہیل البیان“ کی چار جلدیں شائع ہو چکی ہیں اورپانچویں جلدآخر
ی مراحل میں تھی اوران میں مجموعی طورپر ساڑھے سترہ پاروں کی تفسیر ہے جب
کہ دروس قرآن کا سفر بھی بیسویں پارے تک پہنچ چکا تھا جس کو مولانا اپنی
زندگی کی دوسری بڑی خواہش قرار دیتے تھے۔
مولانا شہید کے داماد مولانا محمود حسن کہنا ہے کہ مولانا اسلم شیخوپوری
13مئی 2012کواپنے صبح کے معمولات کے مطابق حسب وعدہ 10بجکر50منٹ پر گھر سے
القرآن کورسز نیٹ ورک بہادرآباد میں درس قرآن کے لیے ڈرائیور سفرین
،محافظین نجم الدین اوروزیر علی کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ درس قرآن کا یہ سلسلہ
ہر ماہ کی دوسری اتوار کو انہی اوقات میں تقریبا پانچ سال سے جاری تھا۔
11:30 پر درس کا آغاز ہوا اورایک بجے سے چند منٹ قبل اختتام ہوا، فوری طور
پر وہاں سے نکلنے کے بعد تقریباً ایک بجے بہادر آباد سے چند کلومیٹرکے
فاصلے پرہارون چورنگی رنگون والا ہال کے سامنے چھ سے آٹھ مسلح موٹر سائیکل
سوار دہشت گردوں نے اچانک پیچھے حملہ کیا پہلے ڈرائیور سفرین سواتی کی گردن
پر ایک گولی ماری اوریہی ان کی موت کی وجہ بنی، جب کہ ڈرائیورکے ساتھ والی
نشست پر موجود محافظ وزیر علی کو آٹھ اور نجم الدین کو جسم کے مختلف حصوں
میں سات گولیاں ماری گئیںاوریہ دونوں شدید زخمی ہیں۔
مولانا شہید کے جسم میں صرف دوگولیوں کے نشان ہیں ایک ہاتھ پرلگی ہے جب کہ
دوسری پیٹ سے ہوتے ہوئے دل کے قریب سے گزری ہے شاید اسی گولی نے دل کو
متاثر کیااور تقریباً40منٹ بعد اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ مولانا کے محافظ نجم
الدین کے مطابق جب حملہ ہوا تو میں مولانا کے لیے ڈھال بنا۔ اسی دوران
مولانا نے میرے سینے پر ہاتھ رکھااورکہا کلمہ پڑھو۔عینی شاہدین کے مطابق جب
مولانا کی لاش گاڑی سے نکالی جارہی تھی تواس وقت بھی ان کاہاتھ اپنے محافظ
کے سینے پر تھا اور اسی ہاتھ پر گولی لگی تھی ۔ مولانا شہید اور نجم الدین
گاڑی کی پچھلی نشستو ں پر سوار تھے۔مولانا شہید کے داماد کے مطابق ایک بج
کر 8 منٹ پر مجھے مولانا کے نمبر سے ہی فون موصول ہوا اور پوچھا گیا کہ یہ
نمبر کس کا ہے اورآپ کون ہیں جس پرمجھے بڑی حیرانی ہوئی اوریہ خدشہ بھی
ہواکہ شاید مولانا کاموبائل چھن گیا ہے یاپھر گراہے۔فون کرنے والے سے
استفسارپر انہوں نے بتایا کہ وہ پولیس آفیسر ہیں اورمولانا پر قاتلانہ حملہ
ہواہے جنہیں ہم نجی ہسپتال ( آغا خان) لے کر جارہے ہیں جو یہاں سے چند سوگز
کے فاصلے پر ہے، لیکن جب میں جائے وقوعہ پر پہنچا تو نجی ایمبولینس سروس کے
لوگوں نے بتایا کہ انہیں جناح ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ عینی شاہدین
اورمولانا کے داماد کے مطابق اندازہ ہے کہ یہ واقعہ ایک بجے کے قریب پیش
آیا ہے۔زخمی گارڈز کے مطابق حملہ اتنا اچانک تھاکہ دہشت گردوں نے سنبھلنے
کا موقع ہی نہیں دیا جب کہ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی
وجہ سے پوراعلاقہ گونج اٹھا اورشدید خوف وہراس پھیل گیا ۔
مکینوں کے مطابق جائے حادثہ کے ساتھ ہی داﺅد اسکول سے متصل ایک اہم شخصیت
کی رہائش گاہ ہے جس کی وجہ سے ہمہ وقت یہاں پر پولیس تعینا ت رہتی ہے لیکن
یہ عجیب اتفاق یا کارنامہ ہے کہ اس وقت پولیس غائب تھی ۔مبصرین ”زخمیوں کو
چند سو گز کے فاصلے پر واقع دوبڑے نجی ہسپتالوں آغاخان اورلیاقت نیشنل کے
بجائے تقریبا دس کلومیٹر دور جناح ہسپتال لے جانے کے فیصلے اورپولیس کے
واقعے سے قبل یہاں سے غائب ہونے کے عمل کو“ شکوک وشبہات اورسازش کی نظر سے
دیکھ رہے ہیں۔مولانا کی شہادت کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی
اورہزاروں شاگرد عقیدت مند اورمتعلقین ہسپتا ل پہنچے ،ضروری کاروائی کے بعد
تقریباً پونے تین بجے لاشیں جامع مسجد توابین گلشن معمار منتقل کی گئیں۔
ہسپتا ل میں مولانا شہید کے متعلقین اورورثاءنے نماز جنازہ جامعة العلوم
الاسلامیہ علا مہ بنوری ٹاﺅن میں ادا کرنے کا فیصلہ کیا تاہم راستے میں
لوگوں کے غم وغصے اوراشتعال کو دیکھتے ہوئے شہر کے امن وامان کو برقرار
رکھنے ، عوام کے جان ومال کا تحفظ یقینی بنانے اورمزید کسی شرپسندانہ
کاروائی سے بچنے کے لیے فیصلہ کیا گیا کہ نمازجنازہ جامع مسجد توابین میں
بعدنماز مغرب ادا کی جائے گی، یہی وجہ ہے کہ مولاناشہید کی نماز جنازہ کی
جگہ کے حوالے سے متضاد اطلاعات اورپیغامات زیر گردش رہے جس کی وجہ سے
مولانا کے شاگردوں اور متعلقین کی بڑی تعداد نماز جنازہ میںشرکت نہ کرسکی۔
علماءنے جنازے کو بنیاد بنا کر امن وامان کو تباہ کرنے سے گریز کیا
اورافسوس یہ ہے کہ کسی اعلیٰ حکومتی شخصیت کورابطہ تک کرنے کی توفیق نہیں
ہوئی ورنہ علما چاہتے تو دیگر کی طرح لاشوں کو بنیاد بناکر جلاﺅ،گھیراﺅ ،
توڑ پھوڑاور اشتعال کا رویہ اختیار کرسکتے تھے، لیکن علماءہمیشہ امن کے
داعی رہے ہیںاسی لیے درجنوں لاشیں اٹھاکر بھی امن کے دامن کو نہ چھوڑا،ممکن
ہے کہ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ عمل بزدلی بھی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ
علماءکا یہ عمل اسلام کے احکام کی پیروی کا عکاس ہے۔ اس فیصلے کو علماءکی
امن پسندی کہیں یا ان کی مظلومیت کی انتہا؟۔ علماءمیں بدامنی یا شہر میں آگ
وخون کے دریا بہانا چاہتے تو وہ توابین مسجد سے جامعة العلوم الاسلامیہ
علامہ بنوری ٹاﺅن تک تقریباً تیس کلو میٹر راستے کے دوران دہشت اور خوف کا
بھرپور اظہار کرسکتے تھے اور اسی طرح واپسی میں بھی یہی کچھ ہوسکتا تھا۔
مولانا کے ہزاروں عقیدت مند اور شاگرد نماز جنازہ سے قبل ہی جامع مسجد
توابین پہنچے اور نماز جنازہ میں ایک اندازے کے مطابق شرکاءکی تعدادچالیس
ہزار سے زاید تھی ۔ لوگ وں میں شدیدغم وغصے کا عجیب منظر تھا،ہر آنکھ اشک
بار تھی۔ ہر شخص اپنے آپ کو تنہا اور بے بس محسوس کررہا تھا۔ مولاناشہید کے
شاگرد اور چاہنے والے دھاڑےں مار کر رو رہے تھے۔ کوئی مولانا شہید کے درس
قرآن کے انداز بیان کا ذکر کرتا اور اشک بہاتا تو کوئی ان کے دلائل کا ذکر
کرتے ہوئے غش کھاتا۔ مولانا کے چہرے کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگ دیوانہ
وار آگے بڑھ رہے تھے لیکن سلام ہو ان عقیدت مندوں پر کہ علماءکے ایک اشارے
پر اپنے قدموں کو روک لیا اور جہاں تھے وہیں جم گئے۔ مولانا اسلم شیخوپوری
کی نماز جنازہ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے پڑھائی اور
اپنے مختصر خطبے میں کہا کہ یہ مولانا اسلم شیخوپوری کے لیے سعادت ہے کہ
ساری زندگی قرآن کی خدمت میں مصروف رہے اور شہادت بھی پائی تو قرآنی خدمت
کے دوران ہی۔ بعد ازاںمسجد کے محراب کے سامنے مغربی جانب مسجد توابین کے
احاطے میں ہی تدفین ہوئی ۔ گزشتہ چند سال میں پاکستان کے دو ہی علماءکو
اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت بخشی ہے کہ ان کی لکھی ہوئی تفاسیر اور کتب کو ہر
شعبہ ہائے زندگی میں مقبولیت حاصل ہوگئی ان میں شیخ الاسلام مولانا مفتی
محمد تقی عثمانی اور دوسرے داعی قرآن مفسر قرآن مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ
ہیں۔
مولانا اسلم شیخوپوریؒ کے درس کے موضوعات اور شرعی احکام، اصلاح معاشرہ،
مسلمانوں کے مسائل ہوا کرتے تھے اور ان کے چاہنے والے نہ صرف پاکستان بلکہ
دنیا بھر میں موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک کے اسفار بھی کرنے پڑتے۔
مولانا اسلم شیخوپوری کا شمار ان چند علماءمیں ہوتا ہے جنہوں نے بہت مختصر
وقت میں بہت زیادہ کام کیا اور ان کے اس کام کو پذیرائی بھی ملی۔ چند سال
قبل درس قرآن کے حوالے سے دھمکیاں بھی ملیں لیکن انہوں نے مشن کو جاری رکھا
اور شہادت جیسے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
مولانا کو کس نے اور کیوں شہید کیا۔ اس کا مختصر جواب یہی ہے کہ مولانا کی
شہادت ماضی کے علماءکی شہادتوں کا تسلسل ہے اور ان کے قاتلوں پس پردہ وہی
عالمی اور مقامی کردار ہیں جن کا مقصد پاکستان کے اندر لادینیت کا فروغ اور
اسلام پسندوں کو ختم کرنے کی مذموم سازش ہے ۔ اسی لیے یہ اسلام اور پاکستان
دشمن عناصر ہر اس عالم اور مذہبی شخصیت کو نشانہ بناتے ہیں جس کو عوام میں
پذیرائی ملتی ہے اور ان کی تحریر وتقریر سے عوام اصلاح کی طرف گامزن ہوجاتے
ہیں۔ یہی جرم ان علماءکا ہے، مولانا اسلم شیخوپوری ؒکا جرم بھی یہی ہے لیکن
دشمنان اسلام اور پاکستان کو یاد رکھنا چاہئے کہ علمائے حق کا یہ قافلہ
ماضی کی شہادتوں سے پہلے ہٹاہے اور نہ آیندہ ہٹے گا۔ اسلم شیخوپوری کے مشن
کو ان کا ہر عقیدت مند اور چاہنے والا پورا کرے گا۔ |