کراچی کا امن کیونکرتباہ۔۔۔

1948ءمعروض پاکستان کے وقت سب سے زیادہ بھارت سے ہجرت کرنے والوں نے کراچی کا رخ کیا اور یہیں آباد ہوکر رہے، یوں تو ہجرت کے قافلے ملک بھر میں پھیل گئے تھے مگر سب سے زیادہ تعداد کراچی میں آباد ہوئی۔ اُس زمانے میں کراچی پاکستان کا دارلخلافہ تھا اور یہاں صنعت و تجارت ، تعلیم و ہنر، فن و فنکار، ادب، شاعری، خطاطی گو کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلباءکی بہت بڑی تعداد یہاں موجود تھی۔ مسلمانوں کی وہ نسل جو ہر شعبہ میں مہارت رکھتی تھی وہ ہجرت کرکے یہاں آباد ہوگئی۔ اُس نسل میں ادب و احترام بھی بہت اعلیٰ پایا جاتا تھا جو انتہائی شریف النفس بھی تھے۔ ان لوگوں نے کم وسائل کے باوجود پاکستان کے اسٹرکچر کیلئے شب و روز خالصتاً نیک نیتی سے بخوبی احسن طریقے سے سر انجام دیا ۔۔جبکہ دشمنان پاکستان کو ہرگز گوارا نہیں تھا کہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو وہ تو چاہتے تھے کہ پاکستان کا وجود ختم ہوجائے لیکن سچے، مخلص لوگوں کے سبب کم وقت میں بہت تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہوگیا۔ پاکستان زرعی ملک ہونے کے ناطے اس نے اپنی اجناس سے زرمبادلہ میں اضافہ کیا تو دوسری جانب صنعتی میدان میں اچھی پروڈکشن سے بیرون ممالک میں اپنی ساگھ بٹھادی۔ اُن ادوار میں نئی نسل کو اچھی تعلیم کی جانب راغب کیا تاکہ پاکستان کیلئے بہتر اور سود مند ثابت ہوسکیں ، وقت نے دنیا کو بتایا کہ ہجرت کرنے والوں کی پہلی نسل نے اپنے آباﺅ اجداد کے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے اس ملک کیلئے گراں قدر کارنامے سر انجام دیئے۔ آج بھی پاکستان کے نامور لوگوں میں ان ہی کی نسلوں کے نام آتے ہیں۔ ۔۔۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے انتقال کے بعد پرائم منسٹرز بالترتیب آئے جن میں سر خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ،چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی،ابراہیم اسمٰعیل چوہدری،سر فیروز خان نون،نورالامین، ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو،بینظیر بھٹو،کیئرٹیکرغلام مصطفٰی جتوئی، نواز شریف، کیئرٹیکربلخ شیر مزاری، نواز شریف، کیئرٹیکر معین الدین احمد قریشی،بینظیر بھٹو، کیئرٹیکر ملک معراج خالد، نواز شریف ،ظفر اللہ خان جمالی،چوہدری شجاعت حسین، شوکت عزیز،محمد میاں سومرو اور اب سید یوسف رضا گیلانی ۔خواجہ ناظم الدین سے اب تلگ ان جمہوری سربراہان نے پاکستان اور عوام کیلئے کس قدر مثبت خدمات پیش کیں ۔ اسی طرح صدور میںمیجر جنرل (ریٹائرڈ) اسکندر مرزا، محمد ایوب خان، آغا محمدیحیٰی خان، ذوالفقار علی بھٹو، فضل الہٰی چوہدری، جنرل محمد ضیاءالحق، غلام اسحاق خان،کیئرٹیکر وسیم سجاد، سردار فاروق احمد خان لغاری، کیئرٹیکروسیم سجاد، محمد رفیق تارڑ،پرویز مشرف ، محمد میاں سومرواور اب آصف علی زرداری۔۔۔ اسی طر ح سندھ میں گورنرز بالترتیب رہے شیخ جی ایچ ہدایت اللہ، شیخ دین محمد، میاں امین الدین، جارج بیکسینڈل ، حبیب ابراہیم رحیم تولا، نواب افتخار حسین، لیفٹینیٹ جنرل رخمان گل، ممتاز بھٹو، میر رسول بخش تالپور، بیگم رعنا لیاقت علی خان، الحاج محمد دلاور خانجی، عبد القادر شیخ، لیفٹینیٹ جنرل ایس ایم عباسی، لیفٹینیٹ جنرل(ریٹائرڈ) جہاں داد خان، اشرف ڈبلیو تابانی،جنرل (ریٹائرڈ) رحیم الدین خان، قدیر الدین احمد،فخرالدین جی ابراہیم، محمود ہارون، حکیم سعید، محمد ہارون، کمال الدین اظفر، لیفٹینیٹ جنرل معین الدین حیدر، ممنون حسین، ایئر مارشل عظیم داﺅد پوتا، محمد میاں سومرو اور اب ڈاکٹر عشرت العباد خان اور وزیر اعلیٰ سندھ کے منصب میں بالترتیب محمد ایوب کھوڑو، پیر الہٰی بخش، یوسف ہارون، قاضی فضل اللہ، محمد ایوب کھوڑو،پیر زادہ عبد الستار، محمد ایوب کھوڑو، ممتاز علی بھٹو، غلام مصطفی جتوئی، غوث علی شاہ، اختر علی قاضی، کیئرٹیکر اختر علی قاضی،سید قائم علی شاہ، آفتاب شعبان میرانی، جام صادق علی، سید مظفر حسین شاہ، کیئرٹیکر سید علی مددشاہ، سید عبداللہ شاہ، کیئرٹیکر ممتاز علی بھٹو، لیاقت علی جتوئی، علی محمد مہر، ارباب غلام رحیم، کیئرٹیکر عبد القادر ہالیپوٹہ اور اب سید قائم علی شاہ۔۔ اپنے قارئین کو آگاہ کرنے کیلئے پاکستان کے صدور، وزیر اعظم ، گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ کی بالترتیب اس لیئے پیش کی ہیں کہ یہ تمام ضامن ہیں پاکستان اور پاکستانی عوام کے تحفظ ، امن اور خوشحالی اور ترقی صنعت و تجارت کے۔۔۔ 1970ءکی جنگ کے بعد جہاں ہم نے اپنا ایک حصہ کھویا وہیں ہم ہر میدان میں پیچھے ہوتے چلے گئے۔ کراچی ابتدا ءہی سے خاص مقام رکھتا رہا ہے کیونکہ کراچی پاکستان کا تجارتی گیٹ ہے ،اسے منی پاکستان بھی کہتے ہیں ۔ کراچی میں وہ دور بھی تھا جب شب و روز تجارتی بازار اور رونقیں رہتی تھیں، نہ چوری کا خوف، نہ قتل غارت گری تھی ۔۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت سے پہلے صدر ایوب کے کچھ غلط فیصلوں نے سیاسی و معاشرتی توازن کا بگاڑ پیدا کردیا تھا اسی بابت رفتہ رفتہ کراچی کے حالات میں تیزی سے بد امنی پیدا ہوتی چلی گئی۔ صدر ایوب نے سب سے پہلے تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہم زبان کو کراچی میں بسایا اور کوئی جانچ پڑتال کیئے بغیر انہیں ہر بنیادی ضروریات بہم پہنچائی ، ان میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو جرائم میں ملوث تھے ۔۔ دوسری غلطی کراچی کے دارلخلافہ ختم کرکے پہاڑوں کے اطراف پہنچا دیا گیا جسے اسلام آباد کہتے ہیں اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان نیوی کا صدر دفتر بھی اسلام آباد میں لے جایا گیا بحرحال وہ کراچی جو پورے پاکستان کی معیشت کی جان ہے آج خون و آگ کی شدید لپیٹ میں ہے جو کئی دھائیوں سے جاری ہے مگر اب اس میں روز بروز شدت و اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ آج پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے یہ وہ جماعت ہے جس کی بنیاد عوامی فلاح پر رکھی گئی تھی لیکن کبھی بھی فلاح نصیب نہ ہوسکی۔ جنرل ضیاءنے اپنے دور حکومت میں افغانیوں کی آمد کا سلسلہ جو جاری کیا اس سے ملک بھر بالخصوص کراچی میں اسلحہ و بارود اور منشیات کا رواج پڑگیا۔ اب تو حال یہ ہے کہ کراچی کے نوجوان بالخصوص وہ نسل جن کے آباﺅ اجداد نے اپنی جانوں، مال و دولت اس سر زمین پاک کیلئے قربان دیں تھیں اُن کی نسلیں تعلیم و ہنر سے کوسوں دور ہوتی جارہی ہیں ، اُن کے ہاتھوں میں اسلحہ یا پھر نشہ آور اشیاءپائی جاتی ہیں ان حالات کے ذمہ داران وہی ہیں جن کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے یعنی وفاقی و صوبائی حکمران جن میں صدور اور وزیر اعظم شامل ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان میں سب کے سب مسلمان ہیں پر پھر بھی اللہ اور اس کے رسول سے کوئی خوف نہیں ۔ کیا یہ فرعون اور شداد سے زیادہ طاقت رکھتے ہیں ؟ کیا یہ خلفائے راشدین کی پیروی سے قاصر ہیں؟ آخر کیوں۔۔۔۔۔؟؟؟ جب یہ شراب و شباب سے پرہیز نہیں کریں گے اُس وقت تک قوم پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھالتے رہیں گے اس کے علاوہ ایسے بھی ہیں جو ظاہری مزہبی لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں جب جب انہیں حکومت میسر آئی تو انھوں نے بھی ان جیسوں سے کم کفر نہیں کیا۔۔۔!! پاکستان کو معاشی و اقتصادی اور معاشرتی طور پر تباہ کرنے کیلئے صرف اور صرف کراچی کو تباہ کردیا جائے تو کافی ہے اور ایسا ہورہا ہے ۔ مانا کہ ہمارا نظام ریاست انتہائی فرسودہ، ناکارہ اور بے سود ہے مگر اس کو ٹھیک کون کرےگا۔۔؟؟ وہ جنھیں عوام الیکشن میں منتخب کرتی ہیں !! کیا انتخاب غلط ہوتے ہیں یا انتخاب ہی نہیں ہوتے؟؟ شائد سلیکشن ہوں!! بحرحال پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کیلئے کراچی میں موجود جرائم پیشہ افراد کا بلا کسی دباﺅ آپریشن نہیں کیا جائیگا اُس وقت تک کراچی کا امن واپس ہر گز نہ آسکے گا۔کراچی میں بسنے والے تمام شہریوں کے حقائق پر مبنی کوائف جمع کیئے جائیں اور ان کی املاک کی تفصیلات بھی جمع کی جائیں کہ آیا کہاں سے کمایا اور کس طرح کمایا تو بہت کچھ راز فاش ہوجائیں گے اور جرائم میں ملوث افراد عیاں ہوجائیں گے ایسے لوگ جو ملک و قوم کیلئے ناسور ثابت ہورہے ہوں انہیں ملک بے دخل کردیا جائے اور ان کی شہریت بھی ختم کردی جائے تاکہ ملک میں امن وامان ممکن بن سکے اور کراچی بین الاقوامی سطح پر ایسا شہر شمار کیا جائے جس میں نہ صرف آزادانہ تجارت کا عمل ہو بلکہ تحفظات کے مکمل انتظامات بھی ہوں ۔کیا یہ خواب عوام کے سپنوں تک محدود رہ جائیگا یا ان ہی سیاسی کھلاڑیوں میں سے کوئی اٹھے گا یا پھر اللہ کا عذاب ان سب سیاستدانوں کو آگھیرے گا ۔۔یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ۔یاد رہے ظلم کرنے سے زمین کا اناج بند ہوجاتا ہے ، آسمان سے طوفان اور زمین کروٹ بدلنے لگتی ہے کہیں ایسا سلسلہ نہ بڑھ جائے۔ حکومتی ذمہداران یوں تو میڈیا میں بڑے بڑے دعوے کرتے نظر آتے ہیں مگر عمل اس لیئے نہیں ممکن کیونکہ جرائم بھی ان ہی کی آغوش میں پنپتے ہیں اور پھولتے ہیں۔ کراچی میں امن کیلئے ضروری ہے کہ کراچی کے مستقل رہائش پزیروں کو انتظامیہ اور پولیس میں تعنیات کیا جائے بغیر کسی سفارش اور رشورت کے اور پولیس کے معاملات میں بے جا سیاسی مداخلت کو روکا جائے تو حالات کنٹرول ہوسکتے ہیں اسی طرح مجرم کیلئے ہر شہری گواہی کا حوصلہ پیدا کرے اور عدلیہ اپنے کام کو نیک نیتی اور سچائی کے ساتھ گواہوں کو بے جا تنگ نہ کرے اور مکمل تحفظ پہنچائے تو بہت جلد کراچی میں امن دیکھنے کو ملے گا ورنہ عدالت میں پیشکاراور دیگر ملازمین لوٹ کھسوٹ میں مبتلا نظر آتے رہیں گے۔ کراچی اور پاکستان کا امن نظام ریاست کی درستگی کے بعد ممکن ہو سکے گا یہ ذمہ داری تما سیاستدانوں کی ہے چاہے حزب جماعت ہوں یا حزب اختلاف
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 273771 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.