تحریر:عبدالعزیز کاٹل
26اپریل 2012ءپاکستا ن کی تاریخ کا ایک ایسا دن ہے جو کہ دنیائے تاریخ میں
بھی اپنی حیثیت کا حامل ہو گا۔کیونکہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے ملک کے
وزیر اعظم جو کہ منتخب وزیر اعظم ہیں کو توہین عدالت کیس میں سزا سنائی اور
سزا بھی ایسی کہ وزیر اعظم نے اسی وقت بھگت بھی لی۔جو کہ صرف 32سیکنڈ
تھی۔اس لحاظ سے بھی یہ اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ ورلڈ ریکارڈ کا حامل ہے ۔وزیر
اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے سزا بھگتنے کے بعد فوری کابینہ کے
اجلاس کی صدارت کی اور دوسرے دن قومی اسمبلی میں خصوصی خطاب بھی کیا۔اپنے
خطاب میں بھی انہوں نے خود ہی اپنے خلاف سنائے گئے فیصلے کو گنیز بک آف
ورلڈ ریکارڈ میں درج کیے جانے کے قابل قرار دیا۔وزیر اعظم کو سائی گئی سزا
درست ہے یا غلط اس پر راقم کو کوئی رائے زنی نہیں کرنی ہے انہیں تو ”سزا
یافتہ وزیر اعظم“کے نام سے پکاریں یا کوئی اور نام دیں مجھے اس سے بھی کوئی
سروکار نہیں کیونکہ یہ سب قانونی مو شگافیاں ہیں۔جنکے گنجل میں پھنس جانے
سے نکلنے کا راستہ مشکل ہی سے ملتا ہے ۔ہر قانون دان کی اپنی رائے ہوتی ہے
ایک اسلامی ملک کے جمہوری وزیر اعظم اور جمہوری بھی ایسا کہ جسے منتخب کرنے
میں تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر اپنا کردار ادا کیا تو عدلیہ کی
حکم عدولی کا مرتکب کیوں ہونا پڑا اور اپنے خلاف توہین عدالت کے جرم میں
سزا پائی ۔آخر کیوں........پاکستان کا ہر شہری جانتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی
وزیر اعظم پاکستان نے سپریم کورٹ کے حکم کے مقابلہ میں پاکستان پیپلز پارٹی
کے شریک چیئرمین جو کہ صدر پاکستان بھی ہیں کے خلاف سوئٹزر لینڈ میں قائم
منی لانڈرنگ کے مقدمات جو کہ سابقہ دور حکومت میں محض اٹارنی جنرل کے تحریر
کیے جانے پر بند کر دیئے گئے کو ری اوپن کرنے کے لئے خط نہ لکھنے کی وجہ سے
توہین عدالت جرم میں سزا بھگتنی پڑی....ایک اسلامی مملکت جس کے آئین کی اہم
ترین شق ہی اس امر کی ضمانت فراہم کرتی ہے کہ قرآن و سنت کے مقابل کوئی
قانون نہ بنایا جائے گا۔اور اسلام اس سلسلہ میں کسی بھی شخصیت کو الگ سے
کوئی رو رعایت نہیں دیتا۔ کہ کس بڑی شخصیت کو جرم کرنے پر ”استثنیٰ “دے دی
جائے۔وزیر اعظم اپنی تقاریر میں اور اخباری بیانات میں اپنے فعل”توہین
عدالت“کو آئین کی پاسداری کا نام دیتے ہیں اور جمہوریت کی حفاظت کا بھرم
رکھنے کا نام دیتے ہیں اور اسی حالت میں یعنی سزا یافتگی میں ہی ایک ملک کے
سرکاری دورہ پر بھاری وفد لیکر روانہ ہو جاتے ہیں ۔جس ملک میں جمہوریت کے
حوالے سے بڑی بڑی مثالیں موجود ہیں کہ اس ملک کے وزراء،وزیر اعظم پر عدالت
سے جرم ثابت ہونا تو بہت دور کی بات ہے محض کسی ذرائع سے الزام ہی سامنے
آجائے تو استعفیٰ پیش کر کے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی جاتی ہے،حال ہی
میں انکے ”برطانیہ“ کے ایک وزیر خزانہ ڈیوڈ روز جنہیں وزارت خزانہ کا
قلمدان سنبھالے ابھی دو ہفتے ہی گزرے تھے کہ ایک اخبار میں خبر شائع ہوئی
کہ انہوں نے 2004سے 2009ءتک پانچ سال کے دوران اپنے ایک قریبی ساتھی کے
ساتھ جو اسکی ملکیت تھا رہے ہیں تا کہ اپنے دوست کو مالی فائدہ پہنچا
سکیں۔خبر شائع ہوتے ہی نہ اسکی وضاحت کی اور نہ ہی اسے حق قرار دیا،اور نہ
ہی اپنے خلاف کوئی سازش قرار دیا بلکہ فوری طور پر وزارت سے استعفیٰ پیش کر
دیا جو کہ منظور بھی کر لیا گیا۔موصوف ایک ایسے جمہوری ملک میں اپنے خلاف
فیصلے کی وضاحتیں کرتے پھر رہے ہیں انہوں نے وہاں”برطانیہ“میں ایک انٹرویو
میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ موجودہ حکومت پالیسیوں سے ایک تہائی افراد
تنگ آ کر ملک چھوڑنے کے لئے تیار ہیں کہا کہ وہ چلے جائیں۔انہیں کس نے روکا
ہے یہ ہے ایک وزیر اعظم کا جواب کہ عوام ملک سے جانا چاہتے ہیں جائیں انہیں
اس سے کوئی سروکار یا دلچسپی نہیں ۔اللہ اکبر........یہ توٹھہڑے ورلڈ
ریکارڈ ہولڈر وزیر اعظم........چھ مئی کو تفصیلی فیصلہ آنے پر بڑے بڑے
تجزیہ نگار اور تبصرہ نگار بہت کچھ لکھ رہے ہیں حکومت مخالف جماعتیں سڑکوں
پر آنے کے لئے تیاری میں ہیں۔سینئر تجزیہ نگار جناب عرفان صدیقی نے اپنے
کالم ”حیف وہ شخص“روزنامہ جنگ میں نہایت دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر
اعظم اور حکومت کے حوالے سے سچ لکھ کر ثابت کر دیا ہے کہ واقعی وہ صحیح
معنوں میں قلمی جہاد میں مصروف عمل ہیں کیونکہ ایک منہ زور اور جابر حاکم
کے سامنے سچ کہہ دینا ہی جہاد ہے۔میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ایسے لوگ عوام
کی صحیح ترجمانی کرنے والے ہوتے ہیں اور یہی لوگ مبارکباد کے اہل ہوتے
ہیں۔میں سلام پیش کرتا ہوں عرفان صدیقی کو اور دعا گو ہوں کہ اللہ انکی
کاوشوں کو پذیرائی عطا فرمائے۔ |