ڈاکٹر عبد الرحمن البر
ترجمہ: اشتیاق عالم فلاحی
انسان جن چیزوں کو بہت واضح سمجھتا ہو اگر ان کے مفاہیم کے سلسلہ میں بعض
اہلِ علم اور جہاندیدہ افراد کو الجھن میں دیکھے تو اسے بہت تعجب ہوتا ہے
چنانچہ ایک انتہائی واضح مسئلہ میں جب زور دار مباحثے اور مذاکرے ہوتے ہیں
اور وہ مسئلہ مشکل اور پیچیدہ شکل اختیار کر لیتا ہے تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔
یہ احساس ہونے لگتا ہے :
خضر کیوں کر بتائے کیا بتائے
اگر ماہی کہے دریا کہاں ہے
جن مسائل پر اس وقت گرمام گرم بحثیں ہو رہی ہیں ان میں سے ایک اخوان
المسلمون میں بیعت کا مسئلہ بھی ہے۔ ڈاکٹر محمد مرسی کو منصب صدارت کا امید
وار بنانے کے بعد بعض لوگوں کی الجھنیں اور بڑھ گئی ہیں۔ بعض لوگوں نے
آئندہ صدر کے سلسلہ میں ایسے سوالات کھڑے کر رہے ہیں جو تقاضائے انصاف کے
خلاف ہے۔ بعض لوگوں نے نہایت شد و مد کے ساتھ یہ گفتگوچھیڑی ہے کہ عملاً
مرشد عام ملک کے حکمراں ہوں گے کیونکہ –اخوان کے ہر فرد کی طرح– ڈاکٹر مرسی
نے بھی اخوان کی قیادت سے سمع و طاعت کی بیعت کی ہے! اس معاملہ کو عجیب
انداز سے گڈ مڈ کیا جا رہا ہے حالانکہ محترم مرشد عام نے بڑے عوامی اجلاس
میں قطعی طور پر اس بات کی صراحت کی ہے کہ وہ ڈاکٹر مرسی کو اس بیعت سے
آزاد کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں، میں نے نے محسوس کیا کہ اس شبہہ اور
الجھن کو دور کرنا ضروری ہے۔ اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے چند باتیں عرض
ہیں:
بیعت، مبایعت: سے مراد دو فریقین کے درمیان کسی معاملہ میں ہونے والا عہد
یا معاہدہ ہے گویا فریقین میں سے ہرایک نے اپنے پاس کی چیز دوسرے کو فروخت
کر دی اور جس موضوع پر معاہدہ ہو رہا ہے اس میں اس نے دوسرے سے اخلاص اور
اطاعت کا معاملہ کرلیا۔ بیعت کی دو قسمیں ہیں: بیعتِ عام، اور بیعتِ خاص۔
بیعتِ عام: وہ بیعت ہے جوملک کے شہری حاکم یا صدرِ مملکت سے کرتے ہیں، امت
کے لیے ضروری ہے کہ دین کی اقامت اور مظلومین کی انصاف رسانی کے لیے ان کا
کوئی حاکم ہو۔ لوگوں کو پورے پورے حقوق ملیں، عدل قائم ہو، اور مختلف
اختیارات کی تقسیم ہو۔ اس صدر کی بیعت ہر مسلم پر واجب ہے جیسا کہ مسلم کی
روایت ہے کہ رسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: "مَنْ
مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً" ﴿جس کی
موت اس حالت میں ہوئی کہ وہ امیر کی بیعت سے آزاد تھا تو اس کی موت جاہلیت
کی موت ہے﴾۔ اسی بیعت کی ایک شکل انتخابات ہیں، جسے آزاد اور شفاف انتخابات
میں عوامی اکثریت حاصل ہو جائے اس کے حق میں تمام شہریوں کی بیعت ہو جاتی
ہے خواہ انہوں نے اس کے حق میں اپنی رائے دی ہو یا نہ دی ہو اور اس بیعت کا
تقاضہ ہے کہ تمام شہری معروف میں حاکم کی اطاعت کریں، کھلے، چھپے ہر حال
میں اس کے لیے سمع و طاعت کا مظاہرہ کریں۔ اس کی مخالفت نہ کریں۔ اگر کوئی
شہری اپنے دل میں اس بیعت کی خیانت کا ارادہ کرے، یا اس بیعت سے نکل جائے
تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی کیونکہ وہ سمع و طاعت کی بیعت سے آزاد ہو
گیا تھا۔
اس بیعت کے نتیجہ میں جس طرح امیر کے حق میں سمع و طاعت ضروری ہے اسی طرح
امیر کے لیے واجب ہے کہ جن فرائض کی انجام دہی کے لیے شہریوں نے اس سے بیعت
کی ہے اور دستور و قانون میں جن کی نشان دہی کی گئی ہے ان کو وہ پورا کرے۔
پوری امت اور اس کے ادارے ان ذمہ داریوں کی انجام دہی ہو رہی ہے یا نہیں یہ
دیکھیں گے۔ اگر وہ اپنے فرائض سے غفلت برتے تو امت کے افراد اور اداروں کی
ذمہ داری ہے کہ اسے نصیحت اور تذکیر کریں۔ اگر وہ نہ مانے اور اپنی روش پر
ڈٹا رہے تو انتخابات ، عدمِ اعتماد کی تحریک یا دستور و قانون میں طئے کیے
گئے دوسرے وسائل سے اسے معزول کرنے اور ہٹانے کی کوشش کریں۔
ملک کے افراد اور اداروں کے لیے جائز ہے کہ اس حاکم سے اختلاف کریں، اس کے
ساتھ نصح و تذکیر کا معاملہ کریں لیکن یہ جائز نہیں کہ اس کے خلاف کسی اور
سے بیعت کریں یا اس کے خلاف مسلح خروج کریں۔ مسلم نے نبی صلى الله عليه
وسلم کی روایت نقل کی ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: "مَنْ
بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ
فَلْيُطِعْهُ إِنِ اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا
عُنُقَ الآخَرِ" ﴿جس نے کسی امام سے بیعت کی، اس کے ہاتھ سے ہاتھ ملایا اور
دل میں اسے جگہ دی تو اسے چاہئے کہ ممکنہ حد تک اس کی اطاعت کرے، اور اگر
اس کی جگہ کوئی اور امارت کا دعوی لے کر کھڑا ہو توتم سب اس کی گردن
ماردو﴾۔ مسلم کی ایک اور روایت ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: "سَتَكُونُ بَعْدِي هَنَاتٌ وَهَنَاتٌ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ
يُفَرِّقَ أَمْرَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم وَهُمْ جَمْعٌ
فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْفِ" ﴿ میرے بعد بہت سے فتنے اور فساد جنم لیں گے،
ایسی صورت میں جو شخص بھی امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متحد شیرازہ
کو منتشر کرنا چاہے اسے موت کے گھاٹ اتار دور﴾۔ مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی ایک اور روایت ہے جس میں آپ نے فرمایا: "بنی اسرائیل کی قیادت
انبیاء کرتے تھے، کسی بھی نبی کی وفات ہوتی تو کوئی اور نبی ان کے جانشین
ہوتے۔ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا، بڑی تعداد میں خلفاء ہوں گے۔ لوگوں نے
پوچھا: ایسی صورت میں آپ ہمیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا: ہر
ایک کی بیعت کو نبھاو، انہیں ان کا حق ادا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جس
چیز کا نگہبان بنایا ہے اس کے سلسلہ میں ان سے باز پرس کرے گا"۔ بخاری نے
عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت نقل کی ہے۔ انہوں نے فرمایا: " مسلمانوں
سے مشاورت کے بغیر کسی سے کوئی بیعت نہ کرے، ورنہ بیعت کرنے والا اور جس سے
بیعت کی جارہی ہے دونوں اپنے آپ کو دھوکہ دیں گے اور مسلمانوں کے ہاتھوں
اپنے کو قتل کے لیے پیش کرنے والے ہوں گے"۔
حاکم کے لیے جو بیعت ہے وہ شرعی اعتبار سے دو افراد کے حق میں نہیں ہو
سکتی۔ اخوان اپنی قیادت سے جو بیعت کرتے ہیں وہ حاکمیت کی بیعت نہیں ہے۔
اخوان کی نظر میں مرشد عام نہ تو حاکم ہیں اور نہ ہی وقت کے حکمراں کے مدِّ
مقابل ہیں۔
دوسری قسم: یہ خصوصی بیعت ہے۔ اس میں حکومت سے ہٹ کر کسی مخصوص معاملے کے
لیے بیعت کی جاتی ہے جیسے تبلیغ دین کے لیے یا غلبہٴ دین کے لیے اخلاقی
قدروں اور صالح اعمال کو فروغ دینے کی بیعت۔ یہ بیعت حاکم اور اس کی بعض
رعایا کے درمیان بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بیعت تمام شہریوں پر لازمی نہیں ہے۔
اسی طرح یہ چند افراد کے درمیان بھی ہو سکتی ہے۔ یہ وہ بیعت ہے جس کی
پابندی صرف بیعت کرنے والے کے اوپر لازمی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ﴿مومنو بندشوں کی
پوری پابندی کرو﴾، اسی طرح ارشاد ہوا: وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ
الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا ﴿عہد کو پورا کرو، عہد کے بارے میں باز پرس
ہوگی۔ اس عہد کی پابندی اس وقت اور ضروری ہوتی ہے جب اس عہد کی جزئیات
مشاورت کے ذریعہ طئے پائی ہوں۔ جماعت اخوان المسلمون میں بیعت کی یہی نوعیت
ہے۔ جس نے یہ خصوصی بیعت نہیں کی ہے وہ اس کو پورا کرنے کا پابند نہیں ہے۔
رسول اللہ نے بعض لوگوں سے جو مخصوص بیعت لی اس کی مثال مسلم کی وہ روایت
ہے جس میں جریر بن عبد اللہ کہتے ہیں : "بَايَعْتُ النَّبِيَّ صلى الله
عليه وسلم عَلَى النُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ" ﴿میں نے نبی صلی اللہ علیہ و
سلم سے ہر مومن کے حق میں خیر خواہی کی بیعت کی﴾۔ اسی طرح خواتین نے یہ
بیعت کی کہ وہ نوحہ نہ کریں گی۔ متفق علیہ روایت ہے جس میں ام عطیہ کہتی
ہیں: "رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے ہم سے یہ عہد لیا کہ
ہم نوحہ نہ کریں گی"۔ اس حدیث کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایک خاتون دوسری
خاتون کے کسی عزیز کی میّت پر نوحہ کرنا چاہتی تھی۔ پہلے تو اس نے بیعت سے
انکار کیا۔ پھر بعد میں آکر اس نے بیعت کی۔ بخاری کی روایت یوں ہے: ام عطیہ
رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ اس
موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت ﴿أَنْ لاَ يُشْرِكْنَ بِاللهِ
شَيْئًا﴾ ﴿اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی﴾ پڑھی اور ہمیں نوحہ کرنے
سے روکا تو ایک عورت نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا اور کہا کہ فلاں عورت نے
میرے عزیز کی میت پر نوحہ کیا تھا، میں بھی اس کے کسی عزیز کی وفات پر نوحہ
کرنا چاہتی ہوں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون سے کچھ نہ کہا۔ وہ
چلی گئی۔ اس نے دوبارہ واپس آکر بیعت کی۔
اس بیعت کو عہد، معاہدہ، اتفاق یا اس جیسا کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ
کسی بھی صورت میں اس عمومی بیعت کے خلاف نہیں ہے جو ریاست کے شہری حاکم سے
کرتے ہیں۔ اپنی کتابِ سیرت میں ابو اسحاق الفزازی کہتے ہیں: میں نے اوزاعی
سے کہا: اگر ہماے امیر کے پاس بہت سے دشمن آجائیں اور انہیں اپنے ساتھیوں
کے بھاگ جانے کا ڈر ہو پھر وہ اپنے ساتھیوں سے کہیں: آؤ ہم بیعت کریں کہ ہم
بھاگیں گے نہیں تو کیا وہ ان سے بیعت کر لیں؟۔ انہوں نے کہا: یہ تو بہت
اچھی بات ہوگی۔ میں نے پوچھا: اگر امیر نہ ہوں اور لوگ آپس میں اس طرح کا
عہد کریں تو؟ انہوں نے کہا: اگر لوگ ایسا کرتے ہیں تو یہ بیعت نہ ہوگی ایک
معاہدہ ہوگا۔
اخوان المسلمون کے افراد اور قیادت کے درمیان یہی دوسری نوعیت کی بیعت ہے۔
اخوان کے وابستگان اپنی قیادت سے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی
معصیت کو چھوڑ کر دیگر امور میں اسلام کی مدد، دین کی اشاعت، دین کے راستے
میں لوگوں کو متحد کرنے کے لیے سمع وطاعت کا مظاہرہ کریں گے۔ اخوان کے پاس
اسلام کی جو معتدل فکر ہے اس کے مطابق اور تمام اخوان کی اجتماعی رضا مندی
سے طئے شدہ ضوابط کے مطابق ہوتی ہے۔ مرشد عام سے ان کی بیعت اس لیے نہیں
ہوتی کہ وہ مصر یا کسی اور ریاست کے حاکم سے بیعت کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب
یہ ہے کہ بعض لوگ جو یہ شبہہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر عوام ڈاکٹر
مرسی کو صدر جمہوریہ منتخب کرتے ہیں ﴿ان شاء اللہ﴾ تو وہ مرشد عام کے تابع
ہوں گے۔ یا ان کی وفاداری دوہری ہوگی، ایک طرف وہ وطن کے بھی وفادار ہوں گے
اور دوسری طرف اخوان کے بھی۔ ڈاکٹر محمد مرسی نے وضاحت کے ساتھ اس بات کا
اعلان کیا ہے کہ ان شاء اللہ اگر وہ صدر منتخب ہوتے ہیں تو مرشد عام کی
شخصیت یا منصب کے پورے احترام کے باوجود ان کی قانونی حیثیت بھی ایک شہری
کی ہوگی۔ کیا لوگ اس واضح مسئلہ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیّار ہیں؟ ۔ |