حکمرانوں کے تمام تر بلند بانگ
دعوؤں کے باوجود کراچی میں آگ و خون کا کھیل جاری ہے۔ 13 مئی کو داعی قرآن
مولانا اسلم شیخوپوری کی شہادت کے بعد پر تشدد کارروائیوں میں تیزی آگئی ہے۔
کراچی ایک بار پھر بدامنی، ٹارگٹ کلنگ اور قتل و غارت کی زد میں ہے۔ انسانی
جان کی حرمت دلوں سے نکل گئی ہے۔ آج خون مسلم اتنا ارزاں ہوگیا کہ پانی کی
طرح بہایا جارہا ہے۔
اب کی بار تو عورتوں اور معصوم بچیوں کی بھی لاشیں بھی مل رہی ہیں۔ قانون
نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو بھی نہیں بخشا جارہا۔ کراچی میں جاری
دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اور ان کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا
ہے کہ مئی 2012ءکے22 دنوں کے دوران 115کے قریب افراد لاقانونیت کی بھینٹ
چڑھ چکے ہیں۔ آئی جی سندھ خود میڈیا کے سامنے اعتراف کررہے ہیں کہ گزشتہ 24
گھنٹوں کے دوران 18 افراد قتل کیے جاچکے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ ہمارے
رہنماﺅں اور حکمرانوں نے پُر اسرار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اس شہرِ بے
اماں میں قاتلوں، ڈاکوؤں اور بھتا خوروں کے راج کے اسباب سے سب واقف ہیں،
مگر جب صوبائی اور وفاقی حکومتیں انسانی جانوں کے تحفظ سے بے نیاز ہوکر
اپنا اقتدار بچانے میں لگ جائیں، جب وہ قاتلوں کی سرکوبی کی بجائے مصلحت
کوشی کا رویہ اختیار کرلیں، جب وہ دہشت گردوں کو لگام دینے کی بجائے بے حسی
کی چادر اوڑھ کر غافل ہوجائیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ جب حکومت خود اس لڑائی
کا حصہ ہو اور قاتلوں کے ٹولے کی سرپرستی کرنے والے اقتدار پر قابض ہوں۔
ایسی صورت میںکسی سے بھلائی و خیر کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟
عام طور پر خو ں ریزی کے واقعات بڑھنے پر وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک
کرچی دوڑے چلے آتے ہیں، وہ دہشت گردوں کو چند روز کا نوٹس دیتے اور اتحادی
جماعتوں کے ساتھ اجلاسوں کے بعد واپس لوٹ جاتے اور دہشت گردی کا سلسلہ وقتی
طور پر تھم جاتا یا یوں کہیے کہ اس میں وقفہ آجاتا ۔ پھر تھوڑے دنوں بعد
یہی تماشا دوبارہ دہرایا جاتا ہے۔ ہر بار عبدالرحمن ملک ٹارگٹ کلنگ اور
بدامنی کی بڑھتی لہر پر نوٹس لیتے ہیں اور بلند بانگ دعوے کرکے شہریوں کو
قاتل ٹولے کے سپرد کرکے اپنے فرائض سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ اس بار شاید
حکمرانوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کردی ہے اور صوبائی ذمہ داران سے لے کر
ایوان صدر تک سب نے کراچی میں انسانی المیے پر چُپ سادھ لی ہے۔ یوں محسوس
ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران یہ سمجھ رہے ہیں کہ کراچی حکومتی عمل داری میں
شامل ہی نہیں۔
حکومت تو رہی ایک طرف، حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعت ن لیگ کے
سربراہ میاں نواز شریف سندھ کو فتح کرنے کے لیے طوفانی دورے کررہے ہیں،
حالیہ کچھ عرصے میں انہوں نے پے درپے اندرون سندھ کے کئی دورے کیے مگر
کراچی آنے سے وہ بھی گریزاں ہیں۔۔۔۔ کیوں؟
کراچی کے باسیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے میاں نواز شریف کو یہاں بھی آنا
چاہیے تھا۔ اس سے عوام میں ان کا تاثر بہتر ہوتا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے
سربراہ الطاف حسین بھی عبدالرحمن ملک کو ٹیلیفون کے ذریعے اپنے کارکنوں کے
قتل کے بارے میںتشویش سے آگاہ کررہے ہیں۔ گویا حکمرانوں اور اپوزیشن
جماعتوں سمیت سب ہی کراچی کے قضیے پر اپنی بے بسی کا اظہار کررہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کراچی کے حالات کا نوٹس لیا، اس سے امن و امان کی صورت حال
وقتی طور پر بہتر ہوئی لیکن مسئلہ اب بھی جوں کا توں ہے۔
ان حالات میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ کراچی کے شہری تمام سیاسی
جماعتوں سے مایوس ہوچکے ہیں، ان کے غم و غصے کی لہر میں وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ صورت حال انتہائی خطرناک ہے کیوں کہ جب عوام
انصاف کے حصول سے ناامید ہوجائیں، جب انہیں نظام پر اعتبار نہ رہے، جب وہ
ڈپریشن کا شکار ہوجائیں اور ان کی مایوسی آخری حدوں کو چھونے لگے تو پھر وہ
قانون ہاتھ میں لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ہمارے ذمہ داران کو اس دن سے
ڈرنا چاہیے جب قوم فیصلے کروانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ ہمارے مقتدرین کو
بھی یہ سوچنا چاہیے کہ اقتدار فانی چیز ہے۔ یہ زندگی بھی اللہ تعالیٰ کی
امانت ہے۔ اگر اس دنیا میں اپنی رعایا کے حقوق ہڑپ کرلیں تو ایک نہ ایک دن
اللہ تعالیٰ کو تو جواب دینا ہی ہے۔
قومی سلامتی کے اداروں کو کراچی میں جاری بدامنی کا نوٹس لینا چاہیے۔ اس کے
لیے پورے شہر میں بلا امتیاز آپریشن کیا جائے تاکہ دہشت گردوں کو شہریوں کی
جانوں سے کھیلنے کا مزید موقع نہ مل سکے۔ بے لاگ احتساب کے بغیر کراچی
میںقیام ِامن کا خواب، خواب ہی رہے گا۔ |