آج کل آزاد کشمیر کے بعض حلقوں
کی طرف سے آزاد کشمیر کے اختیارات کی گراوٹ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ
”آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ نہیں بننے دیں گے“۔دوسری طرف بعض حلقے یہ
مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ آزاد کشمیر کے عوام کو پاکستانی عوام کے برابر
حیثیت دی جائے اور قومی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے ۔چند سیاسی حلقوں کی
طر ف سے کشمیر کونسل کو ختم کر کے آزاد کشمیر حکومت کو بااختیار بنانے کا
مطالبہ بھی سامنے ہے ۔
آزاد کشمیر اسمبلی اور کشمیر کونسل کی نشستوں میں اضافے کی سرگرمیاں بھی
ساتھ ساتھ جاری ہیں۔قرارداد الحاق پاکستان میں پاکستان کے ساتھ بطور ایک
ریاست کے الحاق کی بات کی گئی ہے،ریاست کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی
نہیں۔حقیقت سے دیکھا جائے تو بھارت اور پاکستان دونوں اپنے اپنے زیر انتظام
کشمیر کا حق ادا نہیں کر سکے۔دونوں ملک ریاست کے قدرتی وسائل کے بارے میں
تو معاہدے کر لیتے ہیں لیکن اس مسئلے کر حل نہیں کرتے جس نے کشمیریوں کے
جسم ہی نہیں ان کی روحوں کو بھی گھائل کر رکھا ہے۔
آزاد کشمیر میں اخلاقی گراوٹ سیاسی گراوٹ کی بڑی وجہ ہے۔جب آزاد کشمیر کے
عوام کے پاس غربت تھی لیکن کردار تھا،آج امراءکی ریل پیل ہے لیکن کردا ر ،
ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا/ نہایت کمیاب ہے۔کہاں کبھی آزاد کشمیر حکومت تمام
ریاست کی نمائندہ کے طور پر وجود میںآئی تھی اور کہا ں اب اپنے مقامی
اختیارات حاصل کرنے کی یکطرفہ ”آس“ لگائی جاتی ہے۔سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کے
بعد سیاسی ہم آہنگی کی صورتحال میں آزاد کشمیر کو ایسا سیاسی ڈھانچہ دیا
گیا جو کشمیر کاز کے حوالے سے ’رول ماڈل‘ رہے لیکن پاکستان اور آزاد
کشمیرکی منفی سیاست کے چلن نے آزاد کشمیر کی حکومت اور امور کو مقامی مسائل
و امور میں محدود کر دیا ہے اور یہ صورتحال آزاد کشمیر حکومت کے جواز کو ہی
ختم کر رہی ہے۔اس بات کا احساس ہی ختم ہو گیا ہے کہ آزاد کشمیر میں گراوٹ
کو فروغ دیتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام،عالمی برادری اور بھارت کو
کیا تصویر دکھائی جا رہی ہے۔
کئی بار کوئی بات سنجیدگی سے کہی جائے تو لوگ اسے مزاق سمجھتے ہیں اور جب
مزاق میں بات کی جائے تو اسے نہایت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔2009ءکی آزاد
کشمیر حکومت کے وزیر محمود ریاض نے مطالبہ کیا تھا کہ آزاد کشمیر اسمبلی کی
سیٹوں میںاضافہ کرتے ہوئے 69سیٹیں کر دی جائیں ،خواتین کے لئے دس اور بیرون
ملک مقیم کے لئے چار سیٹیں رکھی جائیں ۔اس مطالبے سے پہلے نیلم ویلی اور
کوٹلی میں ایک ایک اسمبلی سیٹ کے اضافے کا مطالبہ بھی ہے۔اب عباسپور کو ضلع
بنانے کی تحریک بھی چل رہی ہے۔بات در اصل یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں ”سیاسی
شعور“ اتنا بڑھ چکا ہے کہ اڑھائی ضلع پر مشتمل علاقہ اب دس اضلاع (مظفر
آباد،نیلم ویلی،ہٹیاں بالا ،باغ،حویلی،راولاکوٹ،پلندری،کوٹلی،بھمبراور
میرپور ) میں تبدیل ہونے کے باوجود اطمینان نہیں دے رہا۔ہمارے خیال میں بات
سیٹوں میں اضافہ کر کے 69کرنے سے بھی بات نہیں بنے گی۔آزاد کشمیر میں
برادریوں،علاقوں اور خاندانوں کی بہترین ایڈجسمنٹ کا طریقہ یہ ہے کہ آزاد
کشمیر کے ہر ضلع کو صوبے کا درجہ دے دیا جائے۔یوں ہر ضلع صوبہ بن جائے
گا،ہر صوبے میں گورنر،وزیر اعلی،وزیر،مشیر ہوں گے،ہر صوبے کی اپنی اسمبلی
ہو گی اور ہر صوبہ مظفر آباد کی مرکزی اسمبلی میں اپنا حصہ ڈالے گا۔اسی
صورت آزاد کشمیر میںبرادری،علاقے کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کو ایڈجسمنٹ
کا بہترین ماحول میسر آسکتا ہے۔آزاد کشمیر میں تیزی سے بڑہتے ہوئے ”سیاسی
شعور“کو دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ دس صوبے بھی آزاد کشمیر کے اس ” سیاسی
شعور“ کو سمیٹنے کے لئے مستقبل قریب میں ناکافی ہوں گے اور پھر ان صوبوں کو
ریاست کا درجہ دے کر ”یونائیٹڈ سٹیٹس آف آزاد کشمیر“ بنانا پڑے گا۔اب آپ
بتائیں کہ آپ کا کیا خیال ہے؟ |