سید ضمیر جعفری

سید ضمیر جعفری اردو ادب کا ایک معروف اور منفرد نام ہے۔ جس نے نہ صرف شاعری بلکہ نثر میں بھی ایک روایت کو فروغ دیتے ہوئے اپنی شناخت قائم کی وہ پاک فوج میں بطور میجر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس حوالے سے وہ ”شناخت پریڈ“ بھی لکھ سکتے تھے۔ بہرکیف یہ کارِ خیر ڈاکٹر یونس بٹ نے سرانجام دے دی۔ شناخت پریڈ ادیبوں کی ہو یا شاعروں کی ضمیر جعفری ہر دو قسم کی پریڈوں میں نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔
مزاح لکھنا اگر مشکل کام ہے تو اسے سمجھنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ بہت سے لوگوں کو لطیفہ سنا کر بتانا پڑتا ہے کہ لطیفہ ختم ہوگیا ہے۔ مزاح کو سمجھنے کے لئے ایک خاص قسم کی حس درکار ہوتی ہے جو بکثرت نہیں پائی جاتی‘ گویا اس معاملے میں زیادہ تر لوگ ”بے حِس“ ہی واقع ہوئے ہیں۔ سید ضمیر جعفری مزاح کی دنیا کا ایک ایسا نام ہے جسے پڑھ کر بے حس سے بے حس آدمی کی حسِ مزاح بھی پھڑک اٹھتی ہے۔ ضمیر جعفری کی شاعری جہاں اپنے موضوعات کے اعتبار سے منفرد ہے وہاں سادگی اور بے ساختہ پن کی بنا پر بھی امتیازی اہمیت کی حامل گردانی جاتی ہے۔ ضمیر جعفری نے خود کہا تھا:
گرد نے ملتان تک اس طرح گردانا مجھے
میری بیوی نے بڑی مشکل سے پہچانا مجھے

مرحوم ضمیر جعفری کا لکھا ہوا مزاح ہی نہیں ہے بلکہ ان کا کلام دورِ حاضر کے بہت سے مسائل کی ترجمانی کرتا ہوا بھی دکھائی دیتا ہے۔ ان کی شاعری ہلکے پھلکے انداز میں انتہائی سنجیدہ اور اہم مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے بہت کچھ سوچنے بلکہ سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کردیتی ہے۔
شوق سے لختِ جگر نورِ نظر پیدا کو
ظالمو تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو

زندگی اﷲ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام ہے۔ اسے کسی مقصد کی تکمیل اور سلیقے سے گزارنا بھی اﷲ کی رضا کے بغیر ممکن نہیں۔ سید ضمیر جعفری ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اﷲ تعالیٰ نے نثر اور شاعری دونوں اسلوب پر دسترس عطا کررکھی تھی۔ مزاح از خود ایک خوبصورت چیز ہے‘ سید ضمیر جعفری نے اسے اور بھی خوبصورت بنا دیا تھا۔

محبت کی وارداتوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ”سپورٹس مین سپرٹ(Sports Man Sprit) کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے یہ تک کہنے سے گریز نہیں کیا۔
تیرے کوچے میں یوں کھڑا ہوں
جیسے ہاکی کا گول کیپر ہوں

لاہور میں سید ضمیر جعفری سے ملاقات ہوتی رہی۔ ان کی شخصیت میں ایک خاص قسم کا ٹھہراﺅ اور وقار دکھائی دیتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مزاح میں کبھی پھکڑ پن کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کا یہ شعر تو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
بس یہی فرق ہے نالج اور فالج میں
جیسے مرد چوکیدار لڑکیوں کے کالج میں

سید ضمیر جعفری نے عمر کا ایک بڑا حصہ افسری میں گزارا اور پھر افسری بھی یونیفارم کی۔ ڈسپلن کے اندر رہتے ہوئے مزاح لکھنا اور بھی پیچیدہ ہنر ہے۔ فوج کی وردی میں رہتے ہوئے لکھے گئے ان کے مزاح کو ”ہیومر اِن یونیفارم“ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ خود افسر تھے لہٰذا افسروں کی نس نس سے واقف تھے۔ ان کا یہ شعر بھی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر تخلیق ہوا لگتا ہے۔
پن کھلا‘ نکلس کھلا‘ ٹائی کھلی‘ کالر کھلا
کھلتے کھلتے جا کر کہیں دو گھنٹے میں افسر کھلا

ملٹری کالج جہلم سرائے عالمگیر میں زمانہءطالب علمی سے ہفت روزہ ہلال اور دیگر اخبارات و جرائد میں ان کا کالم ”ضمیر حاضر ضمیر غائب“ پڑھتے رہے ہیں لیکن یہ نہیں سوچا تھا کہ ضمیر کبھی غائب بھی ہو جائے گا۔ضمیر غائب ہوجائے تو باقی کچھ نہیں بچتا۔ ضمیر حاضر ہے اور اپنے کام کی بدولت ہمیشہ حاضر رہے گا۔ جب تک اردو ادب زندہ ہے ضمیر جعفری کے مزاح کا باب کبھی بند نہیں ہوسکتا۔ ضمیر جعفری جب ”حاضر“ تھے انہوں نے کہا تھا:
میری بیوی قبر میں لیٹی ہے جس ہنگام سے
وہ بھی ہے آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے

سید ضمیر جعفری مشاعروں اورادبی محفلوں کی جان ہوا کرتے تھے۔ وہ جس طرح لہلہاتے ہوئے آتے اور لہلہاتے ہوئے بولتے تھے۔ یہ انہی کا خاصہ تھا۔ انہوں نے نہ صرف لکھنے بلکہ بولنے کابھی ایک اسلوب متعارف کروایا۔ یکم جنوری1987 کو اپنی سترویں (70ویں) سالگرہ پر ضمیر جعفری نے خود اپنے بار ے میں کہا تھا:
آخری سانس کے آنے تک
برسے گا اور گرجے گا
بوڑھا اول درجے کا

عمر اور وقت کے ساتھ ساتھ انسان شاید بڑھاپے کی دہلیز کو چھونے لگتا ہے لیکن ایک چیز جو کسی انسان کو جوان رکھتی ہے وہ اس کی کارکردگی ہے۔ انسان کا کام کبھی نہیں مرتا۔ پھر ضمیر جعفری جیسے لوگ جو تمام عمر خوشبوئیں بکھرنے اور محبتیں تقسیم کرنے میں مشغول رہے ہوں کیونکر مرسکتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی منفرد معنی رکھتی تھی۔ انہوں نے زندگی کو کبھی اکتاہٹ اور یاسیت کی نذر نہیں ہونے دیا۔ زندگی کے حوالے سے ان کا ایک قطعہ ملاحظہ کیجئے۔
موسیقی کی تان میں بھی جذبات کا ایک ہیجان سہی
بچے کی معصوم ہنسی جان کو تابندہ رکھتی ہے
سورج چاند ستارے ہی بس جینے کا سامان نہیں
گھرمیں پھرتی بلی بھی انسان کو زندہ رکھتی ہے

ضمیر جعفری زندہ رہنے کا ہنر جانتے تھے وہ ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔ آج بھی ضمیر جعفری کی نثر پڑھ رہے ہوں تو ”لائیو“ مناظر کا احساس ہوتا ہے۔ منظر بھی ان کا ایک خاص وصف تھا۔ وہ اپنی کتاب ”ضمیر حاضر‘ ضمیر غائب“ میں لکھتے ہیں:

”گاﺅں کی ناگوار خبر شائد اس لئے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے کہ گاﺅں میں اپنائیت زیادہ ہے۔ گاﺅں کی خبر سیدھی آپ کی طرف آتی ہے۔ آپ اس سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔ تازہ خبر ہماری طرف سیدھی ہی نہیں آئی بلکہ تیر کی طرح لگتی بھی ہے‘ ورنہ اس سے پہلے یہی خبر علاقے کی بڑی خبر ہوتی تھی کہ فلاں کا بیل چوری ہوگیا‘ فلاں کی گھوڑی کھل گئی۔ اب کے یہ خبر آئی ہے ہمارے گھر میں چوری ہوگئی ۔ فصل کے موسم میں ہمارے مکان کے دوطرف گیہوں یا باجرے کی فصل لہلہاتی رہتی ہے۔ چور کھیت کی طرف سے آئے‘ نقب لگائی‘ ظروف اورپارچات کی صورت میں جو کچھ اٹھاسکتے تھے اٹھا کر لے گئے۔“

سید ضمیر جعفری کی تحریروں سے ان کے گاﺅں اور وطن کی خوشبو آتی ہے۔ پوری دنیا گھومنے اور بین الاقوامی سطح پر شہرت رکھنے والے شخص کی اپنی مٹی سے محبت ناقابلِ مثال ہے۔
ناروے کی برف میں یاد آگئیں
جھنگ اور جہلم کی کیسر کیاریاں
ڈھونڈتا ہوں اس مشینی دور میں
گاﺅں‘ گائیں‘ گاگریں پہاڑیاں
ایک جگہ یوں رقم طراز ہیں:
ہائے وہ گلیوں کی زندہ رونقیں
ہائے وہ لڑتی ہوئی ہمسائیاں
ہائے وہ دن جب گھروں میں تھیں بہم
مائیں‘ ماں جائیں‘ بھرجائیاں

12 مئی 1999ءکو وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے لیکن اب بھی کل کی بات لگتی ہے کہ ضمیر جعفری کے ٹی وی ”لائیو“ پروگرام آیا کرتے تھے۔ آج صرف ”ریکارڈنگ“ رہ گئی ہے۔ شاید زندگی کی کہانی اتنی ہی ہوا کرتی ہے۔ قتیل شفائی نے ابنِ انشاءکے لئے لکھا تھا۔
تم لاکھ سیاحت کے ہو دھنی اِک بات ہماری بھی مانو
کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں اس دیس نہ جاﺅ انشاءجی
Yousaf Alamgirian
About the Author: Yousaf Alamgirian Read More Articles by Yousaf Alamgirian: 51 Articles with 101467 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.