'' اب احتجاجی بیانات جاری ہوں
گے، تعزیت کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھ جائے گا، تفتیشی ٹیمیں تشکیل دی
جائیں گی، سرکاری کارندے مجرموں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اعلان
کریں گے… پھر چند دنوں یا چند ہفتوں بعد کسی کو شاید یاد ہی نہ رہے کہ کوئی
سانحہ بھی پیش آیا تھا۔ نہ مستقبل کے لیے منصوبہ بندی ہوگی، نہ منتشر صفوں
میں اجتماعیت کی کوئی سنجیدہ کوشش۔ سکوت اور مصلحت کوشی کی ایک طویل چادر
ہوگی جو عوام اور خواص سب کو ڈھانپ لے گی تا آنکہ کسی دوسرے مفتی عتیق
الرحمن کو نشانہ نہ بنالیا جائے۔ حیرت ظالموں پر نہیں، تعجب تو مظلوموں اور
مقتولوں کے ورثا پر ہے جو ظلم پر ظلم سہے جاتے ہیں مگر دستِ گلچیں کو
مروڑنے کے لیے منظم نہیں ہوتے۔ اگر مشام جاں کو معطر کرنے والے پھول یکے
بعد دیگرے یونہی مسلے جاتے رہے تو ایک وقت آ ئے گا جب چمن پر خزاں کا تسلط
اور ظلمتوں کا بسیرا ہوگا۔ جو قوم یا جماعت ظلم سہنے کی عادی ہوجائے اسے
مرگِ مفاجات سے کوئی نہیں بچا سکتا، قانونِ فطرت میں انہی کی مدد کی جاتی
ہے جو خود اپنے مددگار ثابت ہوتے ہیں''۔
یہ وہ پردردکلمات ہیں،جومفسرقرآن حضرت مولانامحمداسلم شیخوپوری نے داعی
قرآن حضرت مولانامفتی عتیق الرحمن کی دردناک واندوہ ناک شہادت پراپنے کالم
میں تحریرفرمائے تھے۔آج جب وہ بھی دشمنان اسلام کی تیغ ستم کاشکارہوکرہم سے
جداہوچکے اوراپنی مساعی جمیلہ کااصل انعام پانے کے لیے اپنے رب غیورکے
حضورپہنچ چکے ہیں،یہ کلمات دل ودماغ اورقلب وجگرمیں ایک طوفان برپاکیے ہوئے
ہیں۔آپ بھی مفتی عتیق الرحمن کے نام کی جگہ مولانامحمداسلم شیخوپوریکانام
لگائیں اوران سطروں کوایک بارپھرپڑھیں۔کیاقلندرکی ایک ایک بات سوفیصددرست
نہیں ؟کیاہمیشہ سے یہی کچھ نہیں ہوتاآیاہے؟تفتیشی ٹیموں کی تشکیل،قاتلوں سے
آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے حکومتی بیانات،رسمی وزبانی جمع خرچ…مجھے
بتلایئے!کیااس کے علاوہ بھی اب تک کچھ ہواہے؟مولاناحق نوازجھنگوی اورعلامہ
احسان الٰہی ظہیر کی شہادتوں سے شروع ہونے والی خونی لہراب تک مشام جاں
کومعطرکرنے والے کتنے پھول اب تک مسلے جاچکے ہیں؟کتنے علما،حفاظ،قرائے
کرام،شیوخ حدیث ،علم وعمل کے کتنے پہاڑ،تقویٰ وللٰہیت کے کتنے مجسم نمونے
اب تک قاتلوں کی سفاکیت کانشانہ بن چکے ہیں؟کیازمانہ ان میں سے کسی ایک کی
بھی مثال پیش کرسکتاہے؟نہیں اوریقینانہیں…مگرقاتل کاہاتھ روکنے والا،اس کے
ہتھیارکوتوڑنے والاآخرکوئی بھی کیوں نہیں…ٹھیک ہے یہ افرادکانہیں اداروں
کاکام ہے،عوام کانہیںحکومت کاکام ہے،عدلیہ ومقننہ اورپولیس کافریضہ
ہے…مگرمجھے ہرسواندھیرے کی دبیزچادرکے سواکچھ نظرنہیں آتا۔کیوں اس قدرنے
حسی ،بے بسی وبے کسی چھائی ہوئی ہے؟قانون سے لیکرحکومت تک،پولیس سے
لیکرارباب سیاست وسیادت تک،مریدین سے لیکرعقیدت مندوں اورعقیدت کیشوں
تک…میں جس طرف دیکھتاہوں،سکوت مرگ کاسامنظرنظرآتاہے۔آخرکیوں؟؟
کون پوچھے گاسفاک قاتلوں اوران کے پشتی بانوں سے…آخرمولانامحمداسلم
شیخوپوری کاجرم کیاتھا،جوتم نے ان کے معصوم خون سے اپنے ہاتھ رنگین
اوراپنانامہ اعمال سیاہ کردیا؟وہ شخص،جس نے خودکوصرف اورصرف قرآن مجیدکی
عالمگیردعوت اتحادوامن کے پرچارکے لیے وقف کردیاتھا،سفرہویاحضر،وعظ وبیان
ہویامضمون وکالم،درس وتدریس ہویاعوامی اجتماعات سے خطاب اس کی ایک ہی دعوت
تھی :بتان رنگ وخوں کوتوڑکرملت میں گم ہوجا…نہ تورانی رہے باقی ،نہ ایرانی
نہ افغانی۔
کیاجوملک اسلام کے نام پرحاصل کیاگیا،اس ملک میںاتحادبین المسلمین
کاپرچارقابل گردن زدنی جرم ہے؟کیاقرآن مجیدکاحیات افزاپیغام انسانیت تک
پہنچانے کے لیے اپنی صلاحیتیںبروئے کارلانا اورخودکواس مقصدرفیعہ کے لیے
وقف کردینے کی سزایہی ہے کہ اسے خاک وخون میں تڑپادیاجائے؟آخرکوئی
توہوجوقاتل سے پوچھنے کاجگراوراسے کیفرکردارتک پہنچانے کاجگررکھتاہو!!
حضرت مولانامحمداسلم شیخوپوری ایک مسلمہ حیثیت رکھنے والے جیدعالم دین
تھے،جوسیاسی وجماعتی وابستگیاں توایک طرف مسلکی اختلافات کے بھی علمی
حدودسے آگے لے جائے جانے کے خلاف اورہرقسم کے تفرقے کوسم قاتل تصورکرتے
تھے۔وہ صرف قرآن کے داعی تھے اوران کی دعوت وہی تھی جوقرآن کی دعوت
ہے…اتحاد،اتحاداورصرف اتحاد۔وہ اہل حق کے باہمی اختلاف کوحصول منزل کی راہ
کاکانٹاسمجھتے اورنجی محفلوں میں اس حوالے سے اپنی مخلصانہ تشویش
کااظہارکرتے رہتے تھے۔وہ صرف حق کے ساتھی تھے اورتمام اہم حق کواپناسمجھتے
تھے۔
راقم کوان کی صحبت ایک عرصے تک حاصل رہی مگرانہیں ہمیشہ حق کاپرستاراوربے
لوث وبے خوف پایا۔اللہ تعالیٰ ان کی شہادت کواپنی بارگاہ میں قبول ومقبول
فرماکردعوت قرآنی کے پرچارکاذریعہ بنائے۔آمین
حضرت شہید کے لفظوںمیں:حیرت ظالموں پر نہیں، تعجب تو مظلوموں اور مقتولوں
کے ورثا پر ہے جو ظلم پر ظلم سہے جاتے ہیں مگر دستِ گلچیں کو مروڑنے کے لیے
منظم نہیں ہوتے۔گستاخی معاف!!کیاہم یہ کہنے میں حق بجانب نہیںکہ دینی قیادت
پورے ملک میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص مشایخ اور علمائے کرام کے خون
کی ارزانی کی روک تھام کے سلسلے میں اب تک کسی بھی فورم پر مؤثر انداز میں
آواز نہیں اُٹھا سکی ہے۔کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ آپ سب متحد ہوجائیں؟ آ
پ کی اجتماعی قوت اور آواز کو محسوس کیا جائے اور سنا جائے؟ اگر یہ حضرات
ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر گردوپیش پر نظر ڈالیں تو انہیں لاکھوں مخلصین کا
جمِ غفیر دکھائی دے گا جو ان کی ایک آواز پر لبیک کہنے اور ان کے اشارہ
ابرو پر مرمٹنے کے لیے ہردم تیار ہوگا۔ دشمن بھی اس آواز کو نظرانداز نہیں
کرسکے گا۔ گلی کوچوں میں حق کی دعوت دینے والوں کو یکہ وتنہا نہیں سمجھے
گا۔اگرہرسطح پرعلمائے کرام کے تحفظ کی سنجیدہ کوششیں کی جائیںتوشایدیہ
فضابدل جائے جوآج ہے کہ ہم شہیدکی تعریف وتوصیف میں مگن ہوجاتے اورچندروزکے
بعدسب کچھ بھول جاتے ہیں اوردشمن نئے شکارکی تلاش اوراپنی پلاننگ میں مصروف
ہوجاتاہے۔ہمیں اس وقت ہوش آتاہے جب نئے شہیدکاجنازہ اٹھتاہے۔ |