(برائے اسلامی صفحہ)
تمام انسانوں میں ابنیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے بعد فضیلت میں
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کا درجہ ہے ۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ
عنہم اگر چہ معصوم نہیں ہیں ، مگر ان سے جو بھی گناہ ( اللہ تعالیٰ نے کسی
حکمت کے تحت صادر کرائے اور ) ہوئے تھے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما
کر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلا تفریق اپنی رضا کا پروانہ عطا
فرما یا ہے ،لہٰذا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر ہمیشہ اچھے لفظوں
میں کرنا چاہیے۔اسلام دشمنوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی کہ صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم کی حیثیت کو کم کیا جائے تاکہ ان کے ذریعے سے ہم تک پہنچنے والے
دین میں نقب زنی آسان ہوجائے ۔
فاتح عرب و عجم، کاتب وحی، برادر نسبتی پیغمبر، ہم زلف نبی، راز دار نبوت،
امام تدبر و سیاست، خال المومنین، امیر المومنین،سیدالرسل امام الانبیاء
خاتم المعصومین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نہایت ممتاز و جلیل
القدر صحابی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آسمان نبوت کے وہ ستارے اور
چمنستان محمدی ۖ کے وہ پھول ہیں کہ جن پر سب سے زیادہ اعتراضات کیے اور کئی
الزامات عائد کیے گئے ہیں۔بغض اعداء کایہ عالم ہے کہ اس عظیم ہستی کے یوم
وفات پرباقاعدہ دعوتوں کااہتمام کیاجاتاہے۔ تمام اعتراضات و الزامات کی وجہ
قرآن و سنت کے مقابلہ میں تاریخی روایات کو اہمیت دینا ہے۔ جبکہ قرآن و سنت
کی تعلیمات کے خلاف ہر روایت قابل تردید ہے۔ چہ جائے کہ اس پر تکیہ کرتے
ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام پر براہ راست اور
بالواسطہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر انگلی اٹھائی جائے، حالانکہ یہ
ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرام کا مقام تاریخ کی کتابوں سے متعین نہیں
کیا جاسکتا ، کیونکہ تاریخیں کئی صدی بعد لکھی گئی ہیں ۔
امام حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں : مقام صحابہ کا تقاضہ ہے کہ ایسی تمام
روایتیں لکھنے والوں کے منہ پر مار دی جائیں ( البدایہ والنہایہ تاریخ ابن
کثیر )
امام نافع کی یہ بات آب زرسے لکھے جانے کے قابل ہے،اپنے شاگردوں سے
فرمایا:سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اصحاب رسول ۖ کے درمیان پردہ ہیں، جو یہ
پردہ چاک کرے گا، وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہ پر لعن طعن کی جرات کر سکے
گا۔(دفاع معاویہ )
فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (دیوبندی)فرماتے ہیں:سیدنا معاویہ
رضی اللہ عنہ کا شمار ان ظیم المرتبت صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے،
جنہوں نے آنحضرت ۖ کی خدمت سے منفرد حصہ پایا۔
شیخ حضرت سید نذیر حسین دہلوی(اہل حدیث) فرماتے ہیں:سیدنا معاویہ رضی اللہ
عنہ نے کفر کی حالت میں بھی کبھی اسلام کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی ،قبول
اسلام کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام کی بے مثال خدمت کی ۔
مولانا احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن
کرے، وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے، ایسے شخص کے پیچھے نماز حرام ہے
۔(احکام شریعت )
یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت مقام صحابہ کے خلاف کسی واقعے اور روایات
کو تسلیم نہیں کرتے ، بلکہ اس کے انکار کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں ۔ حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث طیبہ سے بھی ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ
عنہم سے محبت اور ان کے دشمنوں سے نفرت کا درس ملتا ہے ۔
حضرت معاویہ ۔ابتدائی تعارف:
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ رضی اللہ تعالی عنہ بعثت نبوی ۖ کے
تقریباًپانچ برس قبل پیداہوئے۔آپ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضورصلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتا ہے۔حضر ت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ رضی
اللہ تعالی عنہ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل القدر صحابی ہونے کے ساتھ
کاتب وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے امیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے کئی
دفعہ دعائیں اور بشارتیں نکلیں ، آپ رضی تعالی عنہ کی بہن حضرت سیدہ ام
حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ
اور ام المومنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔آپ کے والدحضرت سیدناابوسفیان رضی
اللہ عنہ اوروالدہ حضرت سیدہ ہندہ رضی اللہ عنہابھی شرف صحابیت سے مشرف
تھے۔ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آئینہ اخلا ق میں اخلاص ، علم
وفضل، فقہ واجتہاد، تقریر وخطابت، غریب پروری، خدمت خلق، مہمان نوازی،
مخالفین کے ساتھ حسن سلوک، فیاضی وسخاوت، اور خوف الہی کا عکس نمایاں نظر
آتا ہے۔
حضور ۖ کی نوازشات:
آپ صلح حدیبیہ کے بعدہی اسلام قبول کرچکے تھے،تاہم اس کاباقاعدہ اعلان فتح
مکہ کے موقع پرکیا۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ حضرت معاویہ رضی
اللہ تعالی عنہ کے سابقہ حالات زندگی اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے آگاہ
تھے اس لئے انہیں خا ص قرب سے نوازا ۔ فتح مکہ کے بعد آپ رضی اللہ تعالی
عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی رہے اور تمام غزوات میں
حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت و معیت میں بھرپور حصہ لیا۔
قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب ''کتابت وحی'' ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر مشتمل ایک
جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ '' کاتب وحی '' تھے ان میں حضرت معاویہ رضی
اللہ تعالی عنہ کا چھٹا نمبر تھا۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کا تب وحی بنایا تھا۔۔۔ اورآپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم اسی کو کاتب وحی بناتے تھے جو ذی عدالت اور امانت دار ہوتا
تھا (ازالتہ الخفا ازشاہ ولی اللہ)
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت وحی
کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطوط تحر یر کرنے کی سعادت
حاصل ہوئی۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت
میں حاضر رہتے یہاں تک کہ سفرو خضر میں بھی خدمت کا موقع تلاش کرتے۔چنانچہ
ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں تشریف لے گئے تو سیدنا حضرت
امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پیچھے پیچھے گئے۔ راستہ میں حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کو وضو کی حاجت ہوئی پیچھے مڑ ے تو دیکھا، معاویہ رضی اللہ
تعالی عنہ پانی لیے کھڑے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے متاثر ہوئے
،چنانچہ وضو کے لیے بیٹھے تو فرمانے لگے: معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تم
حکمران بنو تو نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اور برے لوگوں کے ساتھ درگزر
کرنا ۔حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی خدمت اور بے لوث محبت سے اتنا خوش
تھے کہ بعض اہم خدمات آپ کے سپرد فرمادی تھیں ۔ علامہ اکبر نجیب آبادی''
تاریخ اسلام'' میں رقمطراز ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے
باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدرات اور ان کے قیام وطعام کا انتظام
واہتمام بھی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے سپرد کر دیا تھا۔
فضائل احادیث کی روشنی میں:
رسول اللہ ۖ نے فرمایا:اے اللہ! معاویہ کو ہدایت دینے والا اورہدایت یافتہ
بنا دیجئے اوراس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت دیجئے۔( ترمذی)
رسول اللہ ۖ نے فرمایا:اے اللہ! معاویہ کو حساب کتاب سکھا اور اس کو عذاب
جہنم سے بچا۔(کنزالعمال)
رسول اللہ ۖ نے فرمایا:معاویہ میرا رازداں ہے، جو اس سے محبت کرے گا وہ
نجات پائے گا، جو بغض رکھے گا وہ ہلاک ہو گا۔(تطہیرالجنان)
رسول اللہ ۖ نے فرمایا:اللہ تعالی قیامت کے دن معاویہ کو اٹھائیں گے ، تو
ان پر نور ایمان کے چادر ہوگی۔(تاریخ الاسلام حافظ ذہبی)
رسول اللہ ۖ نے فرمایا:میری امت میں معاویہ سب سے زیادہ بردباد ہیں۔(بحوالہ
:سیرت امیرمعاویہ )
خلفائے راشدین کے دورمیں جہادی کارنامے:
حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں آپ نے مانعین زکوٰة، منکرین ختم نبوت ،
جھوٹے مدعیان نبوت اور مرتدین کے فتنوں کے خلاف بھرپور حصہ لیا اور کئی
کارنامے سر انجام دیئے ۔ایک روایت کے مطابق مسلیمہ کذاب حضرت معاویہ رضی
اللہ تعالی عنہ کے وار سے جہنم رسید ہوا۔
خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں جو
فتوحات ہوئیں، ان میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا نمایاں حصہ
اور کردار ہے ،جنگ یرموک میں آپ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے، اس جنگ
میں آپ کا پورا خاندان جنگ میں حصہ لے رہا تھا۔
خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں سیدنا
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ جہاد وفتوحات میں مصروف رہے اور آپ نے
رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس ،شام،عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطاکیہ،
طرطوس، ارواڑ ، روڑس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت
میں داخل کردئیے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ان علاقوں کی فتوحات
کے بعد اب یہ چاہتے تھے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے اس کو اب
سمندر پار یورپ میں داخل ہونا چاہیے،اسی بناپرفتح قبرص کی خواہش آپ کے دل
میں مچل رہی تھی،جس کے لیے بحری بیڑے کی اشد ضرورت تھی۔بحرروم میں رومی
حکومت کا ایک بہت بڑا بحری مرکز تھا جو کہ شام کے ساحل کے قریب ہونے کے
باعث شام کے مسلمانوں کیلئے بہت بڑا خطرہ تھا اسے فتح کیے بغیر شام ومصر کی
حفاظت ممکن نہ تھی اس کے علاوہ سرحدی رومی اکثر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے
ہوئے مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی
طرف سے بحری بیڑے کو تیار کرنے کی اجازت ملنے کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی
اللہ تعالی عنہ نے بڑے جوش خروش کے ساتھ بحری بیڑے کی تیاری شروع کردی اور
اپنی اس بحری مہم کا اعلان کردیا جس کے نتیجے میںجذبہ جہاد سے سرشار
مجاہدین اسلام شام کا رخ کرنے لگے۔
واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث میں دو اسلامی لشکروں کے
بارے میں مغفرت اور جنت کی بشارت وخوشخبری فرمائی ان میں سے ایک وہ لشکر جو
سب سے پہلے اسلامی بحری جنگ لڑے گا اور دوسرا وہ لشکر جو قیصر کے شہر میں
جنگ کریگا۔پہلی بشارت سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور
خلافت میں پوری ہوئی۔اس لشکر کے امیروقائد خود امیر معاویہ رضی اللہ تعالی
عنہ تھے ۔آپ کی قیادت میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کیلئے بڑے بڑے
جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیم اجمعین جن میں حضرت ابو ایوب
انصاری ، حضرت ابوذرغفاری، حضرت ابودردا، حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت شداد
بن اوس، سمیت دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین شریک ہوئے۔اس
جنگ کی تفصیل یہ ہے کہ28ہجری میں آپ پوری شان وشوکت تیاری وطاقت اور اسلامی
تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ بحر روم میں اترے،ابتدامیں وہاں کے
باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلی لیکن بعد میں مسلمانوں کو تنگ کرنے
اور بدعہدی کرنے پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پوری بحری طاقت
اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ قبرص کی طرف روانہ ہوئے اور بڑی بہادری
سے لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کرلیا۔اس لڑائی میں رومیوں نے بڑے جوش وخروش سے
حصہ لیا، تجربہ کاراور بحری لڑائی کا ماہر ہونے کے باوجود اس لڑائی میں
رومیوںکو بد ترین شکست اور مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔
زبان رسالت ۖ سے جنت کی بشارت کامصداق بننے کے بعداگرحضرت معاویہ رضی اللہ
عنہ کچھ نہ کرتے توبھی ان کے لیے کافی تھا،مگراسلام کے اس شیردلیرنے
جہادموقوف کرناتودرکناراس سلسلے کوموقوف کرنابھی گوارانہ کیا اوریہاں سے
فارغ ہوکر قسطنطنیہ کے قریبی علاقوں میں جہاد جاری رکھا۔ 35ھ میں آپ کی
قیادت میں غزوہ ذی خشب پیش آیا۔اسی سال خلیفہ راشد حضرت سیدناعثمان غنی رضی
اللہ عنہ کی شہادت کادل دوزواقعہ پیش آیا۔جس سے آپ خلیفہ مظلوم کے قریب
ترین رشتے دارہونے کی وجہ سے بہت زیادہ متاثرہوئے،قصاص عثمان کے مطالبے کی
وجہ سے جنگ جمل وصفین کے واقعات بھی پیش آئے،جن میں انہی منافقین
کاکردارنمایاںتھا،جوقتل عثمان کے ذریعے اسلامی وحدت کوپارہ پارہ کرنے میں
ناکامی کابدلہ اب مسلمانوں کوآپس میں لڑاکرلیناچاہتے تھے۔جس کاثبوت یہ قول
بھی ہے:امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ فرما تے ہیں:سیدنا معاویہ رضی
اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ میں ابتدانہیں کی۔(المنتقی
)
بایں ہمہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کوان تمام عہدوں اورمناصب پرنہ صرف
برقراررکھا،جن پرآپ عہدعثمانی میںفائزتھے،بلکہ یہ فرماکرہرقسم کے شکوک
وشبہات کوبھی دورفرمادیا:ہم بھی مسلمان ہیں اوروہ بھی ہمارے مسلمان بھائی
ہیں،ہمارااوران کااختلاف صرف دم عثمان کے مسئلے میں ہے۔(نہج البلاغہ)
صفین سے واپسی پرجب آپ نے سناکہ بعض اہل لشکرحضرت سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ
کے خلاف بے احتیاطی سے کلام کررہے ہیںتولوگوں سے ارشادفرمایا:
اے لوگو!تم معاویہ کی گورنری اور امارت کو نا پسند مت کرو، کیونکہ اگر تم
نے انہیںگم کر دیا تو دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں
گے، جس طرح اندرائن کا پھل اپنے درخت سے ٹو ٹ کر گر تا ہے۔(البدایہ
والنہایہ حافظ ابن کثیر )
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعدمحض چھے ماہ خلافت کے منصب
پرفائزرہنے کے بعد41ھ میںحضرت سیدناحسن رضی اللہ عنہ نے برضاورغبت خلافت آپ
کوسونپ دی اورحضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہمانے آپ کوخلیفہ برحق مانتے
ہوئے بیعت کرکے منافقین کے تمام عزائم کویک سرناکام بنادیا۔
خلیفہ بنتے ہی آپ نے عارضی طورپراسلامی فتوحات میں آنے والے تعطل کاخاتمہ
کردیا اوراسلامی لشکرکی باگ دورسنبھال لی،چنانچہ 42ھ میں غزوہ سجستان پیش
آیا اور آپ رضی اللہ عنہ ہی کی قیادت میں سندھ کا کچھ حصہ بھی مسلمانوں کے
زیرنگیں آیا۔ 42ھ میں کابل فتح ہوا اور مسلمان ہندوستان میں قدابیل کے مقام
تک پہنچ گئے۔ 43ھ میں ملک سوڈان فتح ہوا ۔ 45ھ میں افریقہ پر لشکر کشی کی
گئی اور ایک بڑا حصہ مسلمانوں کے زیرنگیں آیا۔ 46ھ میں صقلیہ(سسلی) پر پہلی
بار حملہ کیا گیا اور کثیر تعداد میں مال غنیمت مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔
47ھ میں افریقہ کے مزید علاقوں میں جہادجاری رکھا۔ 49ھ میں آپ رضی اللہ عنہ
نے قسطنطنیہ کی طرف زبردست اسلامی لشکر روانہ فرمایا، جو مسلمانوں کا
قسطنطنیہ پر پہلا حملہ تھا۔ 50ھ میں قبستان جنگ کے بعد قبضہ میں آیا۔ 54ھ
میں آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مسلمان دریائے جیجون کو عبور کرتے
ہوئے بخارا تک جا پہنچے۔ 56ھ میں غزوہ سمر قند پیش آیا۔سیدنا معاویہ بن ابی
سفیان رضی اللہ عنہ نے رومیوں کے خلاف سولہ جنگیں لڑی حتی کہ آخری وصیت بھی
یہی تھی کہ روم کا گلا گھونٹ دو۔خلاصہ یہ کہ حضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ ایک عظیم جرنیل،سپہ سالاراورمیدان حرب کے نڈرشہسوارتھے،یہی وجہ
ہے کہ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا دور حکومت فتوحات اور
غلبہ اسلام کے حوالہ سے شاندار دور حکومت ہے ایک طرف بحر اوقیانوس اور اور
دوسری طرف سندھ اور افغانستان تک میں اسلام کی فتح کے جھنڈے گاڑ دیئے۔
دورخلافت اوراصلاحات:
اس کے ساتھ ساتھ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے خلفائے راشد
ین کے تر قیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل نئے امور واصلاحات کی
داغ بیل ڈال کر اس کو فروغ دیا:
1 ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سب سے
پہلاا قامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔
2 ۔سب سے پہلے اسلامی بحریہ قائم کیا، جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور دنیا
کی زبردست رومن بحریہ کو شکست دی۔
3 ۔آبپاشی اور آبنوشی کیلئے پہلی نہر کھدوائی۔
4 ۔ ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔
5۔ احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد
کیا۔
6۔ آپ سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے، آپ نے
پرانے غلافوں کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔
7 ۔پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آیا اور انتظامیہ کو بلند تر بنایا اور
انتظامیہ کو عدلیہ میں مداخلت سے روک دیا۔
8۔ بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت
وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے فرمائے۔
9 ۔ سرحدوں کی حفاظت کیلئے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے
تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔
10۔بڑے بڑے اخلاقی مجرموں کے لئے خصوصی پولیس(سی ۔آئی۔ اے سٹاف)کی
بنیادڈالی۔
مرویات:حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی 163احادیث مروی ہیں۔جن میں سے کئی حدیثیں بخاری ومسلم میں بھی
موجودہیں۔آنحضرت ۖ کی اس قدرقربت کے باوجودآپ کی روایات کم اس لیے ہیں کہ
آپ حدیث نقل کرنے میں حددرجہ محتاط تھے۔
وفات حسرت آیات:22رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فاتح شام و قبرص اور 19سال تک 64 لاکھ مربع میل پر
حکمرانی کرنے والے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 78 سال کی عمر میں
وفات پاگئے۔ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کی نماز جنازہ
پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں مدفون ہوئے۔اللہ کی ان پربے شماررحمتیں
نازل ہوں(آمین) |