معروف نوجوان تحقیقاتی صحافی سید
بدر سعید کاایٹمی سائنس دان محسن وطن ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب سے خصوصی
انٹرویو:
معاون: اسعد نقوی
عبد القدیر خان کا نام پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں کسی تعارف کا
محتاج نہیں ہے۔ پاکستان کو اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی طاقت کا حامل ملک
بنانے والے ڈاکٹرعبد القدیر خان کو محسنِ وطن کا لقب دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب
کو 65سے زائد گولڈ میڈل مل چکے ہیں اسی طرح ان کے 200 سے زیادہ تحقیقی
مقالے دینا بھر کے بہترین تحقیقی رسالوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب
پاکستان کے واحد شہری ہیں جنہیں ملک کا اعلیٰ ترین سول اعزاز نشان امتیاز
دو مرتبہ دیا گیا۔ اسی طرح انہیں ملک کا دوسرا بڑا اعزاز ہلال امتیاز بھی
دیا گیاجبکہ ان کی خدمات کے اعتراف میں کئی یونیورسٹیوں نے انہیں ڈاکٹریٹ
کی اعزازی ڈگری عطا کی ان میں کراچی یونیورسٹی، بقائی میڈیکل یونیورسٹی،
ہمدرد یونیورسٹی ، گومل یونیورسٹی، لاہور یونیورسٹی آف انجینئرنگ ، سر سید
یونیورسٹی آف انجینئرنگ ،محمد علی جناح یونی ورسٹی اور بلوچستان یونیورسٹی
قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹرعبد القدیر خان صاحب نے عالمی سطح پر شہرت اور اپنوں کے
مظالم اور پابندیاں ایک ساتھ دیکھیں ۔ ہم نے اپنے قارئین کے لیے پاکستان کا
دفاع ناقابل تسخیر بنانے والے اس ہیرو کا انٹرویو کیا جو پیش خدمت ہے۔ ہم
ڈاکٹرعبد القدیر خان صاحب کے بھی شکر گزار ہیں کہ انہوں نے علالت اور
مصروفیات کے باوجود ہمارے سوالات کے جوابات دیئے اور آپ تک ان کی زندگی کے
مختلف پہلو اور نظریات پہنچانے میں ہماری مدد کی۔
سید بدر سعید: سر! آپ قومی ہیرو ہیں اور ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ عوام
اپنے ہیرو کا فیملی بیک گراﺅنڈ اور بچپن کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں ۔ اس
حوالے سے کچھ بتایئے؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: جہاں تک فیملی بیک گراﺅنڈ کی بات ہے تو مجھے اس بات
پر فخر ہے کہ میرا تعلق درس و تدریس سے منسلک دیندار گھرانے سے ہے۔ میرے
والد صاحب کا نام عبد الغفور خان ہے جو اپنی تعلیم مکمل کرتے ہی تدریسی
شعبے سے منسلک ہو گئے۔ کچھ عرصہ انہوں نے سکولوں کے انسپکٹر اور سپر نٹنڈنٹ
کے طور پر بھی کام کیا لیکن جلد ہی انہوں نے استعفیٰ دے دیا کیونکہ انہوں
نے مستقل طور پر بحیثیت ہیڈ ماسٹر کام کرنے کو ترجیح دی دوسری وجہ یہ تھی
کہ سپر نٹنڈنٹ کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے وقت
نہیںنکال پارہے تھے۔1935ءمیں وہ ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے تو مستقل طور پر
بھوپال میں مقیم ہو گئے ۔ اسی طرح میری والدہ محترمہ زلیخا بیگم بہت نیک
خاتون تھیں۔ وہ محلے کی چھوٹی لڑکیوں کو قرآن پاک پڑھایا کرتی تھیں اور ختم
قرآن کے موقع پر وہ لڑکیوں کو پیسے اور کپڑے دیا کرتی تھیں علاوہ ازیں وہ
غریب لڑکیوں کی امداد کیا کرتی تھیں۔ میں وہیں بھوپال میں 27اپریل1936ءکو
پیدا ہو لیکن میری اسنادپر یکم اپریل1936ءہے اس کی وجہ یہ تھی کہ عمر کے کم
ہونے کی وجہ سے میں میٹرک کا امتحان نہیں دے سکتا تھا لہٰذا میرے استاد
محترم نے میری تاریخ پیدائش چند دن کا فرق رکھ کر لکھ دی میں نے میٹرک حمید
یہ ہائی سکول سے کیا۔
سید بدر سعید: تعلیمی حوالے سے تھوڑی تفصیل بتائیے کہ آپ نے کن اداروں میں
علم حاصل کیا؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: میں نے کلاس چہارم تک گنوری پرائمری سکول سے تعلیم
حاصل کی اس کے بعد جہانگیر یہ مڈل سکول میں چھٹی جماعت تک پڑھا اور امتیازی
نمبر حاصل کیے۔ اس کے بعد میں الیگزینڈریا ہائی سکول میں چلا گیا بعد میں
اس کا نام حمید یہ ہائی سکول رکھ دیا گیا۔ یہاں میں نے میٹرک تک تعلیم حاصل
کی یہ سکول بہت معروف تھا اور بہت سے ادیب، شاعر ، سکالرز اور استاد یہیں
سے پڑھے۔ اس کے بعد ہم پاکستان آگئے یہاں میں ے ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس
کالج میں داخلہ لیا اور یہیں بی ایس سی کی اس ادارے میں، میں 1953ءسے
1957ءتک زیر تعلیم رہا اس کے بعد میں نے مقابلے کا امتحان پاس کیا جس میں
125افراد شامل تھے جن میں صرف دو کامیاب ہوئے ان میں سے ایک میں تھا اور
میں نے کراچی میں ہی نوکری کا آغاز کیا لیکن انسپکٹر اوزان و پیمانہ جات کی
یہ نوکری مجھے پسند نہ تھی لہٰذا تین سال بعد میں نے استعفیٰ دے دیا اور
پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے مغربی برلن چلا گیا۔ اس کے بعد میں نے ہالینڈ کی
معروف یونیورسٹی ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی آف ڈیلنٹ سے ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ اس
کے بعد میں تقریباً چھ سال یورپ میں رہا اور پھر میں نے کراچی اسٹیل مل میں
نوکری کے لیے درخواست بھیجی جو نامنظور کر دی گئی ۔میں ہالینڈ چلا گیا اور
وہاں یونیورسٹی میں اپنے استاد ڈاکٹر برجرز کے ریسرچ اسسٹنٹ کے طور پر کام
کرتا رہااور اسی دوران میں نے یونیورسٹی آف لیوون(leuven ) سے پی ایچ ڈی
کرلی۔
سید بدر سعید: ایک سائنس دان کالم نگار کب اور کیسے بنا اور پھر کالم بھی
ایسے کہ جن میں ادب کی چاشنی پائی جاتی ہے؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: میں نے ایس ایم ظفر صاحب کی ہدایت پر کالم لکھنے شروع
کیے۔ رہی بات ادب کی چاشنی والی تو اس حوالے سے یہی کہوں گا کہ اردو میری
مادری زبان ہے اور بھوپال میں اردو کا اعلیٰ معیار تھا۔جو کچھ میں نے سیکھا
وہ میٹرک تک کی تعلیم سے سیکھا تھا۔
سید بدر سعید: آپ کی نظر بندی کے دوران نوائے وقت نے آپ کے حق میں کمپین
چلائی، لیکن جب آپ نے کالم نگاری کے لیے جنگ کا انتخاب کیا تو نوائے وقت کی
طرف سے شدید احتجاج بھی ہوا ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کمپین کی وجہ سے
انہیں مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اصولی طور پر آپ
کو اس اخبار کی طرف جانا چاہئے تھا جو مشکل حالات میں آپ کا دفاع کر رہا
تھا؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: یہ کام انہوں نے ایک چھوٹے سے اشتہار سے کیا تھا۔ ان
کا کیا نقصان ہوا؟ رہی کالم لکھنے کی بات تو اگر نوائے وقت والے ہمدرد تھے
تو جنگ نے بھی مجھے بین الاقوامی سطح پر پلیٹ فارم دیا۔ اس حوالے میں یہ
ضرور کہوں گا کہ کسی کے ساتھ احسان کر کے جتانا ٹھیک بات نہیں ہے۔میں مجید
نظامی صاحب کی بے حد عزت کرتا ہوں ۔ان کی ملکی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا
جا سکتا۔
سید بدر سعید: پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا ارادہ کب اور کیسے ہوا اور
اس دوران کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: بے انتہا مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب
16دسمبر1971ءکو پاکستان افواج سے شرمناک طور پر ہتھیار ڈالوئے گئے اور
پاکستانی قیدی ہندوستان لے جائے گئے توم مجھے بہت دکھ ہوا اور میں کئی دن
تک کھانا نہ کھا سکا نوالہ حلق میں اٹک جاتا تھا۔ تب میں مجبور تھا کہ کچھ
نہیں کر سکتا تھا لیکن میں پاکستان کے بارے میں فکر مند تھا پھر جب
ہندوستان نے دنیا کو دھوکہ دے کر 18مئی 1974ءکو دھماکہ کر دیا تو میری
پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا مجھے اس دھماکے کے بعد احساس ہو گیا تھا کہ
پاکستان دس سال سے زیادہ قائم نہ رہ سکے گا اور ہندوستان نہ صرف کشمیر بلکہ
لاہور پر قبضے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ میں اس صورتِ حال سے بہت پریشان
تھا لہٰذا میں نے بھٹو صاحب کو خط لکھا اور انہوں نے مجھے فوراً پاکستان
آنے کی دعوت دی اور میں کرسمس کی چھٹیوں میں بیگم اور بچیوں کو لے کر کراچی
آگیا۔
پاکستان آ کر میں بھٹو صاحب سے ملا اور انہیں اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔
میںنے انہیں بتایا کہ میں دنیا کی حساس ترین ٹیکنالوجی برائے افزودگی
یورینیم پر کام کر رہا ہوں۔ اس ٹیکنالوجی پر جرمنی، ہالینڈ اور انگلینڈ نے
20سال ریسرچ کر کے ہالینڈ میں ”المیلو“ کے مقام پر ایک پائلٹ پلانٹ لگایا
جو کامیابی سے چل رہا ہے اور اس ری ایکٹر میں ایندھن کے طور پر استعمال
ہونے والا چار فیصد افزودہ یورینیم تیار کر رہا ہے لیکن میرے اندازے کے
مطابق اس ٹیکنیک سے ایٹم بم بنانے کے لیے90فیصد سے زیادہ افزودہ یورینیم
تیار ہو سکتا ہے۔ میں نے زبانی طور پر اس ٹیکنیک کی موشگافیوں سے آگاہ کر
دیا اور مشورہ دیا کہ فوراً اس موضوع پر تمام لٹریچر جمع کر کے 10-8اچھے
سائنس دانوں کی ٹیم بنا کر یہ کام جلد از جلد کرا دیں اور اس کے بارے میں
ورکشاپس قائم کرنے اور مشینری و آلات لگانے کے بارے میں بتا دیا اور واپس
چلا آیا۔ ایک سال بعد یعنی 1975ءمیں کرسمس کی چھٹیوں میں پھر پاکستان آیا
اور بھٹو صاحب کی درخواست پر میں کراچی سے اسلام آباد آیا تو یہ دیکھ کر
حیران وپریشان ہو گیا کہ ائیرپورٹ کے قریب نہایت خستہ حال گیراجوں میں
بشیرالدین محمود دس بارہ لڑکوں کے ساتھ اس پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے بلکہ
کام کیا یہ سمجھیں محض مذا ق کر رہے تھے۔ انہوں نے صرف ایم ایس سی مانچسٹر
سے کی تھی اور وہ بھی بجلی کی موٹروں کے کنٹرول پر۔
میں یہ صورتِ حال دیکھ کر پریشان ہو گیا اور میں نے بھٹو صاحب کو آغاشاہی
صاحب اور جنرل امتیاز کی موجودگی میں صاف صاف بتا دیا کہ یہ لوگ متعلقہ کام
کرنے میں سنجیدہ نہیں تھے کیونکہ محض گیراجوں میں ایسے حساس کام کو آگے
نہیں بڑھایا جا سکتاتھا۔ بھٹو صاحب کا چہرہ سرخ ہو گیا اور انہوں نے
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئر مین منیر احمد خان کو سخت سُست کہتے
ہوئے آغاشاہی صاحب اور جنرل امتیاز سے کہا کہ وہ کوئی اہل آدمی تلاش کریں
تاکہ وہ اٹامک انرجی کا چارج سنبھال لے۔ دوسرے روز بھٹو صاحب نے مجھے بلایا
اور کچھ رسمی باتیں کر کے یکدم درخواست کر دی کہ ملک کا مستقبل بہت خطرے
میں ہے لہٰذا آپ واپس نہ جائیں اور یہ کام سنبھال لیں۔ میں نے کہا میں اپنی
بیگم سے مشاورت کر کے جواب دوں گا کیونکہ وہ غیر ملکی ہیں۔ لہٰذا واپس سلور
گرل ہوٹل راولپنڈی آ کر میں نے اپنی بیگم کو یہ بات بتائی تو وہ حیران و
پریشان ہو گئیں اور کہا تمہارے پاس اعلیٰ ملازمت ہے اب تم پروفیسر بننے
والے ہو، میرے والدین ضعیف ہیں اور ہماری دونوں بچیاں بھی وہاں اچھی تعلیم
حاصل کر رہی ہیں۔ ہم یہ نہیں کر سکتے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ہم پروگرام کے
مطابق 15جنوری 1976ءکو واپس چلے جائیں گے لیکن سچ یہ ہے کہ میں پاکستان کے
لیے فکر مند تھا اور بہت پریشان بھی ۔ مجھے پریشان دیکھ کر میری بیگم نے
کہاکیا تم واقعی اپنے ملک کے لیے اہم خدمات انجام دے سکتے ہو؟ میں نے کہا
میرے علاوہ کوئی اور پاکستانی قیامت تک یہ کام نہیں کر سکتا۔ یہ سن کر
انہوں نے کہا کہ اگر تمہاری خواہش ہے تو پھر ہم رک جاتے ہیں واپس جا کر
اپنے والدین کو سمجھادوں گی اور بچیوں کے سکول جا کر بتادوں گی اور کچھ
ضرورت کا سامان لے کر واپس آجاﺅں گی۔ میں نے واپس جاکر بھٹو صاحب کو اپنے
فیصلے سے آگاہ کیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔
میں اور بھٹو صاحب پاکستان کو ایٹمی ملک بنانا چاہتے تھے تاکہ پاکستان کا
دفاع مضبوط ہو لیکن عالمی دنیا کو یہ منظور نہ تھا۔ لہٰذا پہلے دن سے ہی
میرے لیے مشکلات کا دور شروع ہو گیا۔ منیر احمد نے ہمیں سلورگرل ہوٹل
ٹھہرایا تھا۔ میرے آنے سے قبل میرے پاس اعلیٰ ملازمت اور سہولتیں تھیں۔
یہاں مجھے چھ ماہ تک تنخواہ نہ دی گئی اور پھر دی تو صرف تین ہزار روپیہ
ماہانہ جبکہ بھٹو صاحب نے مجھے کمیشن کا ایڈوائزر لگایا تھا لیکن منیر احمد
خان اور اس کے چیلے میرے پاکستان میں رک کر کام کرنے کے سخت خلاف تھے۔ ہمیں
نہ ہی کار دی گئی اور نہ ڈرائیور اور نہ ہی مناسب گھر دیا گیا۔ منیر احمد
خان خود ایف سکس میں بڑے بنگلے میں رہتے تھے جبکہ ایف ایٹ جو کہ اس وقت زیر
تعمیر پسماندہ علاقہ تھا میں ایک گھر1500روپے ماہوا رکرایہ پر لے لیا۔ یہاں
ٹیلیفون ، پانی وغیرہ ہر قسم کی تکالیف تھیں۔
منیر احمد خان یہ سمجھتے تھے کہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی شاید پراٹھا بنانے کا
طریقہ ہے جو وہ چند گھنٹوں میں سیکھ لیں گے اور پھر میری چھٹی کرا دیں گے۔
چھ ماہ میں نے اسی حالت میں کام کیا اور جب صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو
بھٹو صاحب کو لکھ دیا کہ اس طرح یہ کام قیامت تک مکمل نہ ہو گا اور میں
واپس ہالینڈ جارہا ہوں۔ جس پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی اور دو دن میں مجھے اس
پروگرام کا سربراہ بنا کر ایک خود مختار ادارہ انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری کے
نام سے قائم ہو گیا اور پھر ہم نے مڑ کر نہیں دیکھا اور اتنی تیزی سے کام
کیا کہ دنیا حیران رہ گئی۔
|
|
سید بدر سعید: عالمی طاقتوں کے اشارے پر آپ پر مقدمات بھی چلائے گئے ان کی
تفصیلات کیا ہیں؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: جی ہاں! جب تک میں یورپ میں بیرونی جوہری پروجیکٹ کے
لیے کام کر رہا تھا تب تک فرشتہ تھا مگر جونہی انہیں یہ معلوم ہوا کہ میں
وہی کام پاکستان میں کر رہا ہوں تو مجھے چور اور جاسوس بنا دیا گیا۔ میری
غیر موجودگی اور لاعلمی میں ہالینڈ کی حکومت پر یہودی لابی نے سیاسی دباﺅ
ڈالا اور ڈچ ریاستی حکام نے ہالینڈ میں متعلقہ ادارے کے کہنے پر مجھ پر
جھوٹا مقدمہ بنا دیا کہ میں نے غیر قانونی طور پر کچھ معلومات حاصل کرنے کی
کوشش کی تھی۔ اس کی وکالت یہودی وکیل کر رہا تھامجھے چار سال کی قید بھی
سنا دی گئی۔ اس وقت تک پاکستان میں ہمارا مشن کامیابی سے ہمکنارہو چکا تھا۔
لہٰذا پاکستانی حکام نے مجھے کہا کہ میں قومی ہیرو ہوں اور پاکستان میں اس
مقدمے اور سزا کی نوعیت سے میری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لہٰذا اس
معاملے پر پریشان نہ ہوں لیکن میری سوچ یہ تھی کہ چونکہ میری اہلیہ کا تعلق
ہالینڈ سے ہے لہٰذا وہ اور بچے اپنے آپ کو ایک مجرم خاندان کا حصہ کہلوانا
پسند نہیں کریں گے۔ چنانچہ میں نے ہالینڈ کی عدالت میں اپیل کی اور ہالینڈ
کے مقامی دوڈچ وکیلوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے سابق وزیر قانون ایس ایم
ظفر صاحب کو کیس کی پیروی کے لیے ہالینڈ بھیج دیا۔ انہوں نے اس کیس میں
انتہائی دلچسپی لی اور مخالف وکیلوں کی دھجیاں اڑا دیں اور یہ ثابت کر دیا
کہ جو معلومات میں نے منگوائیں وہ لٹریچر کا حصہ ہے اور 20سال قبل شائع ہو
چکا ہے۔ یہاں تک کہ خود پبلک پر اسکیوٹرنے لکھ کر دیا کہ انہیں کبھی بھی شک
نہ تھا کہ میں نے کوئی جا سوسی کی ہے مگر چھوٹی عدالت نے جلد بازی میں
فیصلہ سنا دیا تھا۔
سید بدر سعید: آپ نے درمیان میں کام چھوڑ دیا تھا اس کی کیا وجہ تھی؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: مشرف نے مجھ پر پر پہرہ لگایا دیا تھا اور کسی سے بات
کرنے پر بھی پابندی لگا دی تھی اس لیے مجھے کام چھوڑنا پڑا۔
سید بدر سعید: کیا آپ کی ٹیم میں کوئی ایسا شخص بھی جس کی خواہش تھی
پاکستان ایٹم بم نہ بنا سکے؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: میری ٹیم میں تو نہیں تھا لیکن منیر احمد خان اور اس
کے حواریوں نے بہت کوشش کی اور سازشیں کیں۔ وہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن
کے چیئرمین تھے انہوں نے لاہور سے بی ایس سی انجینئرنگ کی ڈگری لی ہوئی تھی
مگر اپنے آپ کو ڈاکٹر بنایا ہوا تھا بعد میں بھگوڑے کے طور پر امریکہ جا کر
ایک نہایت تھرڈ ریٹ کی نارتھ کیرولائٹ اسٹیٹ پولی ٹیکنیک سے 9ماہ میں ایم
ایس سی الیکٹرک انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور آغاشاہی صاحب کی مہربانی سے
نئی نئی IAEAمیں چھوٹی ملازمت پر بھرتی ہو گئے۔ بھٹو صاحب نے 1971ءکی
شرمناک شکست کے بعد ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی کو ہٹا کر منیر احمد کے بھائی
شیخ خورشید احمد کے کہنے پر منیر احمد خان کو PAECکا چیئر مین بنا دیا تھا
جو مسلسل بھٹو صاحب کو دھوکہ دے رہا تھا کہ وہ تین سال میں پاکستان کو
ایٹمی قوت بنا دے گا۔ یہ لوگ قطعی نااہل تھے انہوں نے بھٹو صاحب کو اس
دھوکہ میں رکھا ہوا تھا کہ وہ کنوپ ری ایکٹر سے استعمال شدہ قبول ”چوری“ سے
نکال لے گا اور فرانس سے لیے گئے ری پروسینگ پلانٹ میں پلوٹونیم پیدا کرکے
بم بنالے گا۔ آپ اس شخص کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ کنوپ اور فرانس کا پلانٹ
IAEAکی نگرانی میں تھے اور وہاں کیمرے نصب تھے۔ فرانس کے پلانٹ میں 24گھنٹے
فرانسیسی انجینئر موجود ہوناتھے۔ دراصل منیر احمد خان کا خیال تھا کہ وہ
تین چار سال ایسے ہی نکال لے گا۔ نئی حکومت آئے گی تو بات ختم ہو جائے گی۔
یہ لوگ ایٹم بم بنانے میں مخلص نہ تھے اور جب میںنے کام کیا تو انہوں نے
میرے راستے میں بھی مشکلات کھڑی کرنا شروع کر دیں جس پر تنگ آ کر مجھے بھٹو
صاحب کو لکھنا پڑا کہ میں واپس جارہا ہوں۔
سید بدر سعید: اس بات میں کتنی سچائی ہے کہ نواز شریف ایٹمی دھماکہ کرنے کے
خلاف تھے اور انہوں نے ایٹمی دھماکے کے بعد بطور وزیر اعظم آپ کو مبارک باد
کا جو خط لکھنا تھا وہ بھی دو ماہ بعد لکھا؟ اسی طرح انہوں نے 1999ءمیں
ایٹمی پروگرام کے فنڈ بھی روک لیے تھے؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: دراصل ان پر بھی دباﺅ تھا اور وہ اس حوالے سے ٹھنڈے
پڑ گئے تھے جس پر میں نے انہیں سخت خط لکھا کر یہ کام کرایا تھا۔
سید بدر سعید: آخر ایسا کیا ہوا کہ ملک کا ایٹمی سائنس دان میڈیا پر آ
کرعام عافی مانگنے پر مجبور ہوا اور آپ نے کس کے کہنے پر معافی مانگی تھی؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: میں کسی قسم کا بیان دینے پر تیار نہیں تھا چودھری
شجاعت اور ظفر صاحب نے ملک کو بچانے کی خاطر کہا تھا کہ یہ الزام اپنے سر
لے کر معاملہ ختم کر دوں۔ بعد میں چودھری شجاعت نے خود کہا تھا کہ میں نے
پاکستان کو دوبارہ بچا لیا ہے۔ میں نے پاکستان کو بچانے اور اپنے وطن کی
سلامتی کے لیے خود پر الزام لیا اور جو بیان مجھے دیا گیا وہ پڑھ دیا تھا۔
سید بدر سعید: اگر آپ نے کسی وجہ سے معافی مانگی اور اعتراف جرم بھی کیا تو
پھر بعد میں اس کی تردید کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: میں تردید کرنے پر اس لیے مجبور ہوا کہ مشرف مسلسل
بکواس کرنے لگاتھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے نہ ہی NPTاور نہ ہی NSGپر
دستخط کیے تھے اور ہم کسی کو کسی قسم کی معلومات دینے یا کسی کے خلاف
کارروائی کرنے کے پابند نہیں تھے۔
سید بدر سعید: آپ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی طرح کھڑے کیوں نہ ہو سکے
حالانکہ95%لوگ آپ کے ساتھ تھے؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: دیکھیں یہ دونوں معلومات بالکل الگ ہیں۔ چودھری
افتخار صاحب کے معاملے کا ملکی سلامتی اور بین الاقوامی پابندیوں کے خطرہ
سے کوئی تعلق نہ تھا جبکہ میرا معاملہ پاکستان کی سلامتی سے تھا ۔ میرے اس
اقدام نے ملک کو سکیورٹی کونسل کے ریزولوشن اور ملک کو ایٹمیہتھیارون سے
پاک کرنے سے بچالیا ۔ اس لیے میں نے ان کی طرح کھڑا ہونے کی بجائے وطن
بچانے کے لیے الزام اپنے اوپر لے لیا تھا البتہ میں نے اس لکھے ہوئے کاغذ
میں ایک ترمیم اٹارنی جنرل مخدوم علی خان سے ضرور کرائی تھی کہ میں نے جو
کچھ بھی کیا وہ نیک نیتی سے کیا ہے۔ یہ ایک بہت بری قربانی تھی مگر میں نے
قبول کی اور خدا کا شکر ہے کہ عوام کے دل میں پہلے سے بھی زیادہ ہر دل؛
عزیز ہوں ۔
سید بدر سعید: یہ بتائیں کہ کیا واقعی ایٹمی فارمولا کس ملک کو نہیں دیا
گیا؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: نہیں! ہم نے کسی ملک کو یہ ٹیکنالوجی نہیں دی۔
سید بدر سعید: پھر ایران کو ٹیکنالوجی کس نے دی؟ اس حوالے سے بعض حلقے آج
بھی آپ کا اور پاکستان کا نام لیتے ہیں؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: انہیں مغربی تاجروں نے ٹیکنالوجی دی تھی۔ مجھ پر جو
الزام لگا اس کے بارے میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ چونکہ یورپ کے چند
سپلائرز وہی تھے جنہوں نے ہمیں سامان مہیا کیا اور وہی لوگ ایران اور لیبیا
کو سامان بیچ رہے تھے چنانچہ امریکیوں نے بجائے ان کے مجھے قربانی کا بکرا
بنانا آسان سمجھا کیونکہ یہاں ان کے احکامات کی تابعداری کے لیے انہیں ایک
ڈکٹیٹر مل گیا تھا۔
سید بدر سعید: مشرف سے آپ کے جھگڑے کی اصل وجہ کیا تھی؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: مشرف کمین نسل سے تھا اور مجھ پر رعب ڈالنا چاہتا تھا
زانی اور شرابی تھا۔ یہ شخص میری گاڑی کا دروازہ کھولا کرتا تھا اس لیے
احساسِ کمتری کا شکار تھا۔
سید بدر سعید: اگر آپ واقعی کسی کو ایٹمی ٹیکنالوجی دے دیتے تو آپ کے خیال
میں یہ درست ہوتا یا غلط؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: سب سے پہلی بات تو یہ کہ میں نے ایٹمی ٹیکنالوجی وطنِ
عزیز پاکستان کو دی ہے۔ جو یقینا پاکستان کے دشمنوں کے نزدیک سنگین جرم ہے
اور میرے خلاف سازشیں بھی کی گئیں مشرف نے ان کا ساتھ دیا۔ وہ شاہ سے زیادہ
شاہ کا وفادار تھا۔ امریکن اور برٹش تو میرے خون کے پیاسے تھے۔ دوسری بات
یہ کہ یہ جو جوہری ٹیکنالوجی ہے وہ کسی کے باپ کی ملکیت نہیں تھی۔ میں نے
اپنی زندگی کے بہترین سال کی محنت و مشقت سے یہ ٹیکنالوجی حاصل کی تھی اور
یہ بھی بتا دوں کہ میں نے یہ ٹیکنالوجی کسی کو بھی بیچی نہیں تھی بلکہ اپنے
وطن کو بغیر کوئی معاوضہ لیے دی تھی۔ اس سے کسی کو سروکار نہیں ہونا چاہئے
کہ میں یہ ٹیکنالوجی کسی کو دوں یا نہ دوں۔ میں نے اپنے خاندان کی زندگی
اپنی زندگی اور مستقبل کو داﺅ پر لگا کر وہ چیز پاکستان کو بلا معاوضہ دی
تھی جس کی قیمت بین اقوامی مارکیٹ میں دو ارب ڈالر تھی اور پاکستان کو یہ
چیز اتنی قیمت میں بھی کوئی نہ دیتا۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اپنے
وطن کی مٹی سے وفا کی ہے۔
سید بدر سعید: مسلم لیگ( ن)کی طرف یہ نعرہ بھی لگایا گیا کہ وہ الیکشن
جیتنے کے بعد آپ کو صدر بنائیں گے لیکن جب وہ اسمبلی میں پہنچے تو خاموش ہو
گئے۔ اس کی کیا وجہ تھی؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: اس بارے میں صرف اتنا کہوں گا کہ ”امریکہ کی خوشنودی“۔
سید بدر سعید: کیاکوئی سیاسی جماعت آپ کو صدر بنانے کے لیے دل سے رضا مند
ہے؟ اور کیا آپ مستقبل میں سیاست کی طرف آئیں گے؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: جہاں تک صدر بنانے کی بات ہے تو مجھے علم ہے کہ فی
الحال یہ محض ایک نعرہ ہے۔ الیکشن میں کامیابی کے لیے یہ دعوے کیے جاتے ہیں۔
مستقبل کے بارے میں صرف اﷲ کو علم ہے۔
سید بدر سعید: سر! کہانیوں میں سے کہانی یہ بھی ہے کہ بے نظیر بھٹو نے
وزیراعظم بنتے ہی ایٹمی پلانٹ کا معائنہ کیا۔ خفیہ ایجنسی ISIکی طرف سے
انہیں غلط بریفنگ دینے کا کہا گیا اور اگلے دن وہ معلومات جو بے نظیر بھٹو
کو دی گئی تھیں ، امریکہ کے اعلیٰ عہدے داروں کے پاس تھیں؟ یہ کیا واقعہ
تھا؟اس میں کتنی حقیقت ہے؟ آپ اس وقت پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے جارہے تھے
لہٰذا آپ کو تو اصل بات معلوم ہونی چاہئے؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: یہ غلط ہے۔ ان کے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا تھا۔ اس نے
کبھی ایسی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا۔
سید بدر سعید: تحریک انصاف میں آپ کی شمولیت کے حوالے سے خبریں سامنے آئیں
اور کچھ باتیں تو بے حد عجیب بھی تھیں ایک کالم نگارنے یہ بھی کہا کہ آپ
شامل ہونا چاہتے تھے لیکن وہاں سے کچھ مخالفت بھی تھی؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: اگر لوگ ایسی باتیں کر رہے ہیں تو میں صرف اتنا کہوں
گا کہ کوئی جاہل ہی ایسی بات سوچ سکتا ہے۔
سید بدر سعید: اچھا یہ بتائیں کہ آپ کا کیا خیال ہے ۔عمران خان پاکستان میں
کوئی مثبت تبدیلی لاسکیں گے جس سے پاکستانی عوام کو براہ راست فائدہ پہنچے؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: یہ تقریباً ناممکن ہے۔ باتیں کرنا آسان ہے لیکن عملی
طور پر ناممکن ہے۔
سید بدر سعید: آج کل مختلف تنظیموں اور لوگوں کی طرف سے اس قسم کے اشتہارات
اخبارات میں شائع ہو رہے ہیں جن میں آپ نے ان کے لیے ”چندہ“ کی اپیل کی
ہوتی ہے ساتھ میں آپ کی تصویر بھی لگی ہوتی ہے۔ کیا آپ کو کبھی یہ خیال آیا
کہ کہیں لوگ اپنے مقاصد کے لیے آپ کا نام استعمال تو نہیں کر رہے؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: بدرمیاں! میں نے نیک نیتی اور نیک کام کے لیے اجازت
دی تھی اور اپیل کی تھی اگر وہ خیانت کریں گے تو جہنم میں جائیں گے اور ان
کاحساب ہو گا۔
سید بدر سعید: 1999ءسے اب تک کن کن پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا؟ زندگی کے
یہ اہم سال کیسے بسر کیے؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: کچھ پابندیوں کا ذکر تو میں پہلے ہی کر چکا ہوں باقی
یہ کہ جب مجھ سے اعترافی بیان لیا گیا تو مشرف نے اسی روز پریس کانفرنس کی
تھی کہ ڈاکٹر خان ایک آزاد شہری کی حیثیت سے باعزت زندگی گزار سکتے ہیں ان
پر کسی قسم کی پابندی نہ ہو گی صرف ملک سے باہر جانے کے لیے حکومت سے این
او سی لینا ہو گا۔ اس نے مجھ سے خود بھی وعدہ کیا کہ آپ بہت جلد پوری طرح
بحال کر دیے جائیں گے لیکن اس کے برعکس ہوا اور دوسرے ہی دن مجھے نظر بند
کر دیا گیا۔ میری بچی کا کمپیوٹر اٹھا کر لے گئے۔ ٹیلیفون لائن کاٹ دی اور
ہمارے موبائل فون چھین لیے گئے۔ ان حالات میں میری غیر ملکی اہلیہ یہی
سوچتی تھی کہ کیا بے لوث خدمت کا یہی صلہ ہے۔ اس کے بعد جنرل قدوائی اور ان
کی بیگم ہم ملنے آئے اور وعدہ کیا کہ دو تین ماہ میں تمام پابندیاں ختم کر
دی جائیں گی لیکن اس بات کو بھی سالوں گزر گئے اور عدالتی حکم کے باوجود
مجھ پر پابندیاں عائد کی جاتی رہیں۔
اسی طرح ایک روز مجھے اور میری اہلیہ کو زبردستی بنی گالہ لے جایا گیا اور
آٹھ سفید پوشوں نے ہمارے پورے گھر کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ بستر،الماری میں
کپڑے، چند آلات ، بنک کی فائلیں اور بندوقیں تک لے گئے۔ ہم پراس قدر سختیاں
تھیں کہ بہن بھائی تک کو آکر ملنے کے لیے صرف دو دن دیے جاتے تھے۔ اسی طرح
میری بیٹی جو لندن میں رہ رہی تھی اسے ایک سال تک واپس نہیں آنے دیا گیا۔
اخبارات میں میری کردارکشی کی مہم چلائی گئی ہر قسم کے جاہلانہ الزامات
لگائے گئے۔ یہاں تکہ ہمارے گھر میں ہمارے بیڈروم میں ، ڈرائنگ روم، ڈائننگ
روم، بیٹی کے کمرے میں نواسی کے کمرے میں ہر جگہ سننے والے آلات نصب کر دے
گئے۔ یہاں تک کہ بیڈروم میں بستر کے ساتھ یہ آلات نصب کیے گئے۔ مشرف کا
خیال تھا کہ ہمیں کسی بات کا علم نہ ہو گا لیکن میں نے چند دن میں ہی تمام
آلات کو تلاش کر لیا تھا اور ہمیں اگر کوئی ذاتی بات کرنی ہوتی تھی تو باہر
لان میں جاکرکرلیتے تھے۔
سید بدر سعید: کیا پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی محفوظ ہاتھوں میں ہے یا پھر
شدت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتی ہے؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کی ایٹمی
ٹیکنالوجی محفوظ ہاتھوں میں ہے اسے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔ جنرل قدوائی
قابل اور اہل آفیسر ہیں۔
سید بدر سعید: ڈاکٹر صاحب! آپ کے مخالف حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ ایٹم بم کے
سلسلے میں آپ نے ڈاکٹر ثمر مبارک اور دیگر سائنس دانوں کے کام کو بھی اپنے
نام سے کیش کرایا ہے؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: ان مخالف حلقوں سے عرض ہے کہ غلام اسحاق خان صاحب اس
ایٹمی پروگرام کے سربراہ تھے آپ ان کا خط پڑھ لیں جو انہوں نے مجھے لکھا
تھا۔
سید بدر سعید: یہ بتائیں کہ آپ ہی کیوں پابندیوں کی زد میں آئے؟ آپ کے ساتھ
کام کرنے والے دیگر سائنس دان ان پابندیوں کی زد میں کیوں نہیں آئے؟ اس کی
کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: ایسا نہیں کہ صرف مجھ پر ہی پابندیاں لگیں۔ میرے کئی
ساتھیوں کو بہت پریشان کیا گیا۔
سید بدر سعید: بطور ایٹمی سائنس دان آپ حکومت پاکستان سے کتنی تنخواہ لیتے
تھے اور اس سے قبل آپ کی کتنی تنخواہ تھی جسے ٹھکرا کرآپ پاکستان آئے؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: پاکستان میں مجھے تین ہزار دیے گئے یہاں آنے سے پہلے
تیس ہزار ، گھر گاڑی، انشورنس، پینشن اور دیگر سہولیات حاصل تھیں۔ میں نے
یہ سب چھوڑ دیا تھا۔
سید بدر سعید: آپ کو جب ایٹمی پراجیکٹ سے الگ کیا گیا تو کتنی پینشن دی گئی؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: 25برس تک ملک کی بے لوث خدمت کرنے کے بعد مجھے جو
پینشن دی گئی وہ صرف 4467روپے تھی یہ صلہ دو ارب ڈالر کی ٹیکنالوجی مفت
فراہم کرنے اور اپنی خاندانی زندگی اور مغرب میں اعلیٰ پیمانے کی زندگی کو
تباہ کرنے کی پاداش میں ملا تھا۔ حالات ایسے تھے کہ کراچی سے میرے بڑے
بھائی اور بہن ہر ماہ کچھ رقم میری اہلیہ کو دے جاتے تھے تو ہمارا گزارا
ہوتا تھا اب کچھ شرم آنے پر سپیشل پینشن مقرر کی گئی ہے۔
سید بدر سعید: آپ پر یہ بھی الزام ہے کہ آپ کی بیرون ممالک میں پراپرٹی اور
ہوٹل ہے؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: میرے ساتھیوں اور میں نے ٹمبکٹو میں غربا کے لیے گیسٹ
ہاﺅس بنوا دیا تھا۔ وہ آپ لے لیں میں دستخط کر دیتا ہوں۔
یہ قصہ یوں ہے کہ 1998ءمیں اپنے پہلے دورہ ٹمبکٹو کے دوران ہم نے وہاں صرف
ایک خستہ پرانا ہوٹل دیکھا تھا۔ اپنے دوسرے دورے کے دوران ہم نے دیکھا کہ
وہاں ایک اچھا اور صاف ستھرا درمیانے درجہ کا ہوٹل بن گیا تھا اس کا مالک
مراکش کا ایک تاجر تھا۔ اس دورے کے دوران ہماری ملاقات عبدالرحمن سے ہوئی
جو ہوٹل کی لابی میں بیٹھا سیاحوں کی آمد کا منتظر تھا۔ اس کے صاف ستھرے
چہرے، اچھے خدوخال اور نہایت دوستانہ رویے نے ہمیں اس کی طرف متوجہ کر دیا
اور ہم نے پورے دورے کے لیے اسے اپنا گائیڈ مقرر کر لیا ۔گفتگو کے دوران
علم ہوا کہ اس کا خاندان بڑا ہے اور گائیڈ کی حیثیت سے صرف تین چار ماہ کی
آمدنی سے بہت مشکل سے گزارا ہوتا تھا کیونکہ وہ ایک معمولی سا ہوٹل تھا
جہاں سیاح ایک دو دن سے زیادہ قیام نہیں کرتے تھے۔ وہیں معلومات کی خاطر ہم
نے اس سے زندگی کے مصارف، زمین کی قیمت اور تعمیرات کی قیمتوں کے بارے میں
دریافت کیا اس نے بتایا کہ ایک چھوٹا ہوٹل تعمیر کرنے کے لیے زمین کی قیمت
تقریباً دو ہزار ڈالر تھی اور اگر دو پلاٹ خرید لیے جائیں تو ایک بڑا ہوٹل
بن سکتا تھا۔ ہمارے ڈچ دوست نے اسی وقت چار ہزار ڈالر نکال کر دے دیے اور
کہا زمین خرید لو باقی دیکھا جائے گا۔ ہم نے جا کر زمین دیکھی۔ ائیر پورٹ
روڈ پر تقریباً50گز پیچھے تھی اس طرح گاڑیوں کے شور سے محفوظ تھی۔ اس کی
قسمت اچھی تھی اور رب العزت نے ہمیں وسیلہ بنا دیا تھا۔ واپس آ کر ہم نے
اپنے عزیز دوست جناب قمر علوی اور خضرحیات آرکیٹکٹس سے نقشہ بنانے کی
درخواست کی جو انہوں بلا معاوضہ بنا دیا۔ اس میں آٹھ کمرے، ایک کچن، ڈائننگ
روم اور لابی کی گنجائش تھی کمروں میں ملحقہ باتھ روم رکھے گئے اور انفرادی
ائیرکنڈیشنر رکھے گئے۔ ہم نے عبداﷲ سے کہا کہ وہ مٹی کی اینٹوں کی تعمیر
شروع کر دے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اس نیک بندے کی مدد ضرور کریں گے اور اس کی
معروفت وہاں کے کئی خاندانوں کے گزر بسر کا ذریعہ بن جائیں گے۔ واپس آ کر
ہم نے رقم جمع کرنی شروع کر دی اور پاکستان، لندن، دوبئی، سعودی عرب بحرین
وغیرہ کے مخیر پاکستانیوں نے تقریباً 30ہزار ڈالر جمع کر دیے۔ ایک پاکستانی
تاجر جن کا اے۔ سی کا پلانٹ ہے ، نے دوبئی سے دس اسپلٹ اے سی بھیج دیے۔ ایک
اور نرم دل پاکستانی نے ایک فریج، ایک ڈیپ فریزر، دو ڈنرسیٹ، کٹلری کے دو
سیٹ اور کوکنگ رینج بھیج دے۔ جب مٹی کی اینٹوں سے بنا یہ آٹھ کمروں کا
”ہوٹل“ تیار ہو گیا تو نہایت شکر گزار اور احسان مند عبدالرحمن نے اس کا
نام میری بیگم کے نام پر ہوٹل ہینڈرینہ خان رکھ دیا کیونکہ اس منصوبے کا
مشورہ میں نے دیا تھا اور اس کی تکمیل میں بہت مدد دی تھی۔ ہمارے آخری دورے
کے دوران میری بیگم بھی ہمراہ تھیں۔ عبداﷲ نے ان کے ہاتھوں اس ہوٹل کا
افتتاح کرایا۔ یہی وہ ہوٹل ہے جس کے بارے کہا گیا کہ میں نے ایک کروڑ ڈالر
یعنی تقریباً اسّی کروڑ روپے سے ایک ہوٹل چوری کے پیسوں سے بنایا۔ میرے
خلاف پراپیگنڈا کرنے والوں کو اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ اتنا ہی دیکھ
لیں یہ کوئی عالی شان ہوٹل ہے یا مٹی کا گھرانا؟
عبدالرحمن تمام سال ہر جمعہ کو غریبوں کو کھانا کھلاتا ہے اور ماہ رمضان
میں لاتعداد لوگوں کو افطارو کھانا دیتا ہے۔ غریبوں کے لیے بنے اس گیسٹ ہاﺅس
پر اگر کسی کی نظر ہے تو میں دستخط کر دیتا ہوں وہ آپ رکھ لیں۔
سید بدر سعید: نوازش شریف ، پرویز مشرف اور آصف علی زرداری.... کون سا
حکمران آپ کے لیے آسانیوں کا باعث بنا؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: ان میں سے کوئی بھی آسانیوں کا باعث نہیں بنا یہ بھی
وضاحت کر دوں کہ اصل کام بھٹو صاحب اور جنرل ضیاءاور غلام اسحاق صاحب نے
کرا دیا تھا۔
سید بدر سعید: آپ کی سکیورٹی کے حوالے سے حکومتی مو ¿قف یہ ہے کہ آپ کی جان
کو خطرہ ہے اس لیے ایسی سکیورٹی رکھنی پڑی۔ آپ کا کیا موقف ہے؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: یہ سب بکواس ہے۔ امریکیوں کی خواہش پر یہ بدمعاشی کی
جارہی ہے اور سب اس میں شامل ہیں۔
سید بدر سعید: پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے پر فخر تو ہوتا ہو گا۔ ذہن میں
کیا آتا ہے جب اس حوالے سے سوچتے ہیں؟
ڈاکٹرعبد القدیر خان: میرے ساتھیوں اور میں نے ملک کو تباہی سے بچا لیا۔
یہی بہت بڑے سکون اور فخر کی بات ہے۔
قارئین! اس مختصر سے انٹرویو سے آپ نے محترم ڈاکٹر صاحب کے کردار اور شخصیت
کا اندازہ لگالیا ہو گا۔ انہوں نے پاکستان کی بقا کے لیے اپنا خاندان، اپنی
باعزت نوکری، پُرکشش تنخواہ،گھر، گاڑی اور دیگر مراعات کو ٹھکرا دیا۔ زندہ
قومیں اپنے ہیروز کو فراموش نہیں کرتیں ورنہ تاریخ انہیں فراموش کر دیتی ہے۔
پاکستانی قوم اپنے ہیرو اور ان کے تمام ساتھیوں کو سلام پیش کرتی ہے۔ ہماری
صاحب اقتدار اور زیر اقتدار تمام لیڈروں سے گزارش ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی
پریشانیوں اور مشکلات کو کم کر کے وہ مقام دیا جائے جس کے وہ حق دار ہیں۔ |