کاتب وحی حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ

آپ کا یوم وصال 22رجب المرجب ہے ۔ملت اسلامیہ ان کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی ضرور کرے

حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اموی خلافت کے پہلے خلیفہ بنے ۔آپ ابو سفیان بن حرب کے بیٹے تھے ۔ہجرت سے سترہ سال پہلے پیدا ہوئے ۔آپ کا شجرہ نسب پانچویں پشت میں نبی اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے ۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کیا اور وفات نبوی تک حضور اکرم ﷺ کے ساتھ رہے ۔ آپ جنگ حنین اور محاصرہ طائف میں شریک تھے ۔آپ کاتب وحی مقرر ہوئے ۔کتابت وحی کے علاوہ باہر سے آئے ہوئے وفود کی مدارت اور ان کے قیام و طعام کا اہتمام بھی حضور اکرم ﷺ کی طرف سے آپ کے سپرد تھا ۔

حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی دست برداری کے بعد 41ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سارے عالم اسلام کے خلیفہ ہو گئے ۔انہوں نے اپنے زمانے میں تمام اندرونی و بیرونی مخالفتوں کا قلع قمع کیا اور اسلامی حکومت کے رقبے کو بڑھا کر اسے مختلف حیثیتوں سے ترقی دی ۔

بغاوتیں اور اہم واقعات:حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے تخت نشین ہوتے ہی خوارج نے کوفہ اور بصرہ میں بغاوت کر دی ۔خوارج کا ظہور جنگ صفین میں ہوا تھا جب حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ کو حکم مان لیا تھا ۔ خوارج یہ کہہ کر علیحدہ ہو گئے تھے کہ حکم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جبکہ کسی اور کو حکم ماننا کفر ہے ۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں مغیرہ بن شعبہ اور بصرہ میں زیاد بن ابیہ کو ان کی سرکوبی پر مامور کیا جنہوں نے سخت مقابلے کے بعد خوارج کی طاقت توڑ دی ۔

فتوحات:حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بڑے تجربہ کار سپہ سالار تھے ۔حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں انہوں نے بحری بیڑہ تیار کر کے رومیوں کو کئی معرکوں میں شکست دی اور اپنے عہد میں کئی نئے مقامات اور ممالک فتح کئے ۔ آپ کے زمانے میں ہندوستان پر دو اطراف سے فوج کشی ہوئی ۔ایک فوج کابل کو فتح کرتے ہوئے درہ خیبر کے راستے سر زمین ہند میں داخل ہوئی جبکہ دوسری فوج مکران کے راستے سندھ پر حملہ آور ہوئی اور ہندوستان میں کئی مقامات فتح ہوئے ۔

ترکستان کے کئی علاقے اسلامی سلطنت کا حصہ بنے جن میں بخارا ،سمرقند اور ترمذ کے علاقے خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔شمالی افریقہ میں اسلامی فوجوں نے طرابلس ،تیونس، الجزائر کے علاقوں کو فتح کیا ۔سوڈان کا ایک بڑا حصہ بھی آپ کے دور میں فتح کر لیا گیا ۔

حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمان افواج نے رومی فوجوں کو کئی معرکوں میں شکست دی ۔ روڈ وس کا مشہور جزیرہ بھی ان سے چھین لیا گیا ۔آپ کے دور میں پہلی مرتبہ اسلامی فوجوں نے مشرقی رومی سلطنت کے پایہ تخت قسطنطنیہ کو فتح کرنے کی کوشش کی ۔اسلامی بحری بیڑہ بحیرہ روم سے گزر کر آبنائے فاسفورس میں داخل ہو گیا ۔ مسلمان سپاہیوں نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا ۔کافی مدت تک مسلمان مجاہدین نے یہ محاصرہ جاری رکھا مگر موسم کی شدت اور ناموافق حالات کے باعث اسلامی لشکر کو محاصرہ اُٹھاکو لوٹنا پڑا۔

تاریخ الخلفاءمیں حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ :
خلافت کے ڈھانچے میں تبدیلی:حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسلامی طرزِ حکومت میں چند ایسی بنیادی تبدیلیاں کیں جن کی وجہ سے ملوکیت کا آغاز ہوا اور انکی حکومت خلافتِ راشدہ کے نہج سے ہٹ گئی ۔

خلفائے راشدین کے طریقِ انتخاب پر نظر ڈالیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان کے انتخابات میں عوام کی رائے کا بڑا دخل تھا اور کسی بھی خلیفہ نے اپنے بعد اپنی اولاد میں سے کسی کو خلیفہ نامزد نہ کیا ۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس طریقہ کار کو چھوڑ کر اپنے بیٹے یزید کو نامز د کیا اور اس کے لئے بیعت بھی لے لی۔

خلافت راشدہ شورائیت اور جمہوریت پر مبنی تھی اور ان کی رہنمائی کے لئے مجلس شوریٰ موجود تھی ۔اس مجلس کے ارکان میں ایسے اکابر صحابہ تھے جو پوری آزادی سے ملکی معاملات میں خلیفہ کو مشورہ دیتے تھے ۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مجلس شوریٰ کو ختم کر دیا ۔ آپ کے دور میں خلیفہ مرکزی حکومت کا سربراہ تھا جو کسی کے سامنے جواب دہ نہ تھا اور جس کی ذات میں تمام فوجی اور انتظامی اختیارات جمع تھے ۔ مرکزی حکومت کا کام مختلف محکموں کو تفویض تھا ۔پورے ملک کو صوبوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور ہر صوبے کے لئے الگ گورنر تھا جسے خلیفہ مقرر کرتا تھا ۔

فوجی نظام:حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بری اور بحری افواج کی تنظیم نو کی اور فوجیوں کی تنخواہیں دگنی کر دیں ۔ آپ سے پہلے فو ج دو حصوں میں تقسیم تھی ۔تنخواہ دار جوج اور رضا کار فوج ، لیکن آپ نے رضا کار فوج کو بھی باقاعدہ تنخواہ دار فوج بنا دیا ۔آپ کے عہد میں باقاعدہ فوج کی تعداد 2لاکھ بیس ہزار تھی ۔ موسموں اور ملکوں کے اختلاف کی وجہ سے آپ نے فوج کے دو حصے کر دیئے ۔شتائیہ (سرمائی فوج) اور صائفہ(گرمائی فوج) تاکہ فوجی مہموں میں کوئی دشواری پیش نہ آئے ۔

بحری فوج کی تشکیل حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں آپ نے ہی کی تھی مگر اپنے دور میں اس میں بہت اضافہ کیا۔ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں پانچ سو جہازوں کا بیڑا تھا ۔جبکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہدِ حکومت میں بحری بیڑا 1700جنگی جہازوں پر مشتمل تھا ۔اسلامی بحریہ کی مزید ترقی کے پیشِ نظر ملک کے ساحلی علاقوں میں متعدد جہاز سازی کے کارخانے قائم کئے گئے ،منجنیق کا استعمال پہلی مرتبہ انہیں کے عہد میں ہوا اور کابل کے محاصرہ میں سنگ باری کر کے شہر کی فصیل توڑی گئی ۔

قلعوں کی تعمیر:دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے بہت سے قلعے تعمیر کرائے گئے ،ساحل کے علاقہ کو جسے باز نطینی حکومت کا ہر وقت خطرہ رہتا تھا ،وہاں قلعوں کو مضبوط کیا ۔کئی پرانے اور ویران قلعوں کو از سرنو آباد کیا گیا ،رومیوں کے پرانے قلعے ”جبلہ“ کو جو فتح شام کے وقت ٹوٹ گیا تھا ،دوبارہ تعمیر کیا گیا روڈس میں ایک قلعہ بنایا گیا جو تقریبا سات سال تک فوجی مرکز رہا ،مدینہ طیبہ میں ”قصر خل“ کے نام سے ایک قلعہ تعمیر کروایا گیا ،نیز انطر طوس ،مرقیہ اور بلینسارس میں کئی نئے قلعے تعمیر کئے گئے ۔

پولیس کا نظام:ملک میں داخلی امن کے قیام کے لئے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پولیس کے محکمے کو بہت ترقی دی ۔یہ محکمہ عدلیہ کے ما تحت تھا جس کا کام قاضیوں کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانا تھا ۔جرائم کی روک تھام ، سماج ،دشمن عناصر کی سرکوبی ،حکومتی احکام کے نفاذ میں تعاون اور حدود الہٰیہ کا قیام بھی پولیس کے فرائض میں داخل تھا ۔

محکمہ ڈاک:حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور سے قبل پیغام رسانی کے لئے کوئی باقاعدہ محکمہ نہ تھا ۔ آپ نے برید(ڈاک) کے نام سے ایک محکمہ قائم کیا جس کا نظام یہ تھا کہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر تیز رفتار گھوڑے ہر وقت تیار رہتے تھے ۔ سرکاری ہر کارے اور گھوڑے منزل بہ منزل بدلتے رہتے تھے اس طرح کم سے کم وقت میں ڈاک ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی تھی ۔

دیوان خاتم:دیوان خاتم کے نام سے آپ نے ایک محکمہ قائم کیا جو سرکاری فرمان جاری کرتا تھا ،اس کی
نقل اس محکمہ میں محفوظ رکھی جاتی تھی اور فرمان کو لفافہ میں بند کر کے اس پر سرکاری مہر ثبت کی جاتی تھی ۔اس طرح فرامیں ر دوبدل کا امکان نہ رہا ۔

رفاہِ عامہ :حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں رفاہِ عامہ کے کاموں میں خاصی ترقی ہوئی جس سے رعایا کو بہت فائد ہ پہنچا۔زراعت کی ترقی کے لئے ملک بھر میں نہریں کھودی گئیں ،مدینہ کے قرب و جوار میں نہر کظامہ ،نہر ارزق،نہر شہداءوغیرہ متعدد نہریں کھدوائی گئیں ۔نہر معقل جو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے عہد میں بنائی گئی تھی اسے دوبارہ کھدوا کر صاف کر وایا ۔

آپ کے عہد میں بہت سے پرانے تباہ شہر آباد ہوئے اور کئی شہر نئے بھی بسائے گئے چنانچہ شام کا شہر مرعش دوبارہ آباد کیا گیا ۔ افریقہ میں بر برقوم کو قابو میں رکھنے کے لئے قیروان شہر کی بنیاد عقبہ کے ہاتھوں رکھی گئی جس سے رفتہ رفتہ یہ شہر ترقی کر کے شمالی افریقہ کا مرکز بن گیا ۔

آپ نے نئی مساجد تعمیر کروائیں اور بہت سی پرانی مساجد کو منہدم کر کے انہیں از سر نو تعمیر کروایا ۔ چنانچہ زیاد بن ابی سفیان نے بصرہ کی جامع مسجد گروا کر اسے از سر نواینٹ اور چونے سے نہایت وسیع اور خوبصورت شکل میں بنوایا ۔اشاعت اسلام کی طرف بھی خصوصی توجہ دی گئی یہ وجہ ہے کہ رومیوں کی ایک بڑی تعداد اس عہد میں حلقہ بگوشِ اسلام ہوئی ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیس برس کی خلافت کے بعد 60ھ میں وفات پائی ۔
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 616019 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.