عہد حاضر میں شاعرات کی نمائندہ شاعرہ صبا خان کا تعارف

تخیل کے پر ہوتے ہیں اور کوئی اس کی اڑان نہیں روک سکتا:صبا خان

اترپردیش کی زمین سے یوں تو ہزاروں شعرائے کرام نے اپنے کلام بلاغت سے اردو ادب میں وہ مقام پیدا کیا ہے کہ اردو ادب ان پر رشک کرتا ہے۔ بنارس سے قریب اردو زبان کی انتہائی بنجر زمین بھدوہی ہے جہاں سے اردو ادب کے افق پر صبا خان کے نام سے ایک تخلیق کار دنیائے ادب میں اپنے اشعار کے ذریعے اپنے وجود کا احساس بڑی شدت سے دلا رہی ہیں۔ بلکہ ان کے اشعار سن کر استاد الشعراءتک چونک پڑتے ہیں جبکہ اردو ادب کے آفتاب اور ماہتاب اس نووارد سچی شاعرہ کے کلام بلاغت سے انہیں اپنی کرنیں معدوم ہوتی نظر آرہی ہیں اور ادب میں اپنے متزلزل وجود کو برقرار رکھنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔

قوموں کے عروج و زوال میں زبان و ادب کو بڑا دخل حاصل رہا ہے۔ جو قوم اپنے زبان و ادب سے دور ہوئی وہ قصر گمنامی میں گر گئی اور زبان و ادب سے گہرا لگاو رکھنے والی پسماندہ قومیں دنیا کی تاریخ میں اپنے انمٹ نشان ثبت کر گئیں اور ترقی کی منازل طے کرتی ہوئے ہمدوش ثریا ہوگئیں۔ صبا خان بھدوہی میں ایک پرائیوٹ اسکول میں دنیا کے سب سے مقدس پیشے یعنی درس و تدریس سے منسلک ہیں۔ بچوں کو اتنے اچھے اور سیلس زبان میں تعلیم دیتی ہیں کہ بچوں کے نازک ذہن کے تاروں میں پھول جیسی ریشمی آواز کے ذریعے سیاق و سباق کے ایک ایک لفظ کو موتی اور مونگ کی طر ح ٹانک دیتی ہیں۔اسکول سے جو ہی گھر آتی ہیں اردو ادب کی دنیا میں کچھ نئی چیز تخلیق کرنے میں جٹ جاتی ہیں۔ روایتوں کی امانت دار اور جدیدیت کی بے پناہ عمدہ عکاسی کرنے والی سچی شاعرہ کے کلام بلاغت میںتمام تہذیبی رویوں میں لہو کی عالمی خوشبو گھولی ملی ہے میں نے انہیں ایک شعر سنایا مگر یہ کیا دوسرے ہی لمحے انہوں نے پوری غزل اسی شعر کی مناسبت سے سے ہمارے گوش گزار کیا۔
دنیا تو خوش ہے دیکھ کے کھلنا گلاب کا
کیاجانے کتنا زخم ہے گہرا گلاب کا
باتوں میں ترے کیسی ہے لذت مرے صنم
ہو جیسے مہکا مہکا سا لہجہ گلاب کا

صبا خان نے قالین کے شہر بھدوہی میں ایک انوکھا کارخانہ سجایا جہاں سے مشینوں کے بے ہنگم شور کی بجائے دل اور روح کو چھونے والے نغمے بلند ہورہے ہیں۔مجھے یقین ہے ایک دن شہر بھدوہی ہی نہیں بلکہ سارا ہندوستان بلکہ ساری دنیائے ادبِ اردو سجدے میں گر کر”صبا خان “ ،”صباخان“،”صباخان“ کا ورد کرنے لگے گیں۔

صبا خان مصنوعی شاعرہ نہیں بلکہ اللہ نے انہیں خداداد صلاحیتوں سے نوازہ ہے اور یہ اس امانت کو نہایت دیانت داری سے برسرکار لانے کا گر جانتی ہیں وہ کہتی ہیں۔
آبھی جاو پردیسی عمر ہے بہاروں پر
یوں نہ تیر برساو کانچ کے حصاروں پر
یوں گزاری ہے میں نے زندگی اکیلے میں
مچھلیاں تڑپتی ہوں جیسے ریگزاروں پر
نیند کی تمنا میں بانگِ مرغ سنتی ہوں
ٹوٹتی ہے انگڑائی رات کے کناروں پر

صباخان اپنی شاعری کے ذریعہ نسوانی جذبات کی بھرپور نمائندگی کرتی ہیں اور اپنی ذہنی پرداخت سے آس پاس کا ماحول، سماجی برائیاں، صنف نازک کے جذبات و احساسات کی مکمل ترجمانی کرتی ہیں، صباخان اختراعی ذہن کی مالک ہیں ۔عصری آگہی اور اقضائے عصر کو آئینہ دکھانے کا ہنر انہیں معلوم ہے وہ اپنے دکھ اوردرد کو اشعار کے پیرہن میں پرو کر انہی نئے افق دینا چاہتی ہیں اور ادب کی استحصالی فضا سے نکل کر زندگی کی ہر سطح پر نئے تجربے چاہتی ہیں اور اس میں کامیاب بھی ہیں کہ آنکھوں میں آنکھ ملا کر وقت کے تیور بدلتی دکھائی دیتی ہیں ۔صبا خان میں ایک خاص بات قابل رشک یہ بھی ہے کہ آپ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی میں بھی اپنی شاعری کا لوہا منوا رہے ہیں۔ صبا خان نے انسان کی کردار سازی پر توجہ صرف کرکے نسوانی جذبات کے اظہار اور اخلاق حسنہ کو اپنی حکیمانہ فکر کا موضوع بنا رہی ہیں۔ مگر اپنی باتوں کو کہیں بھی پندونصائج کا خشک و فرسودہ پلندہ نہیں بننے دیتی۔ اس جرات اور سادگی و پرکاری کا نتیجہ ہے کہ ان کا کلام نہ صرف سنجیدہ اہل فکر و نظر کے نزدیک قابل ستائش ہے۔ بلکہ ملک کے مختلف اخبارات و رسائل سے داد و تحسین حاصل کر رہی ہیں۔ صبا خان مختلف اصناف سخن پر مہارت رکھتی ہیں اور برجستہ شعر کہنے کی خدادا صلاحیت کی مالک ہیں۔ فکر و نظر کے ساتھ آواز میں بھی جادو ہے۔ صبا خان جس نشست میں شرکت کرتی ہیں سامعین کا دل جیت لیتی ہیں تحت اللفظ کے ساتھ ساتھ آپ کا ترنم بھی دل نشین ہے۔ پڑھنے کا انداز بھی منفرد ہے وہ شعر پڑھتی ہیں تو خود سراپا شعر ہوجاتی ہیں۔ وہ اپنی پاکیزگی کا اظہار یوں کرتی ہے۔
دل میں داخل ہوئے تم میری رضا سے پہلے
تم پہ لازم ہے سزا میری وفا سے پہلے

صبا خان کی ایک خوبی جو خصوصیت سے متوجہ کرتی ہے وہ ان کی زبان و بیان پر حاکمانہ قدرت اور لفظ کو استعارہ و علامت بنا دینے کی ماہرانہ گرفت ہے۔ پیکر انسانی کو قدرت نے رنگہائے گوناگوں سے مزین کیا ہے اس میں جو رنگ سب سے زیادہ نمایاں ہےں وہ” غم و خوشی“ ہیں ان رنگوں کا احساس انسان کے اپنے مزاج اور طبیعت پر منحصر ہے۔ بعض لوگ غموں کو اپنے اوپر اس طرح سوار کر لیتے ہیں کہ دنیا ان کیلئے جہنم بن جاتی ہیں مگر صبا خان ان تمام حالات میںبھی غم و الم کو جھٹک کر دشت زمانہ سے ذرہ ذرہ خوشیاں چن چن کر اپنے دامن کو سجاتی ہیں یہ جسم و جاں کی قیمت جانتی ہیں اور ہر حال میں ان کی حفاظت کومقدم سمجھتی ہیں اور ایسا وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کا دل محبت سے سرشار، حوصلے بلند اور ارادے مضبوط ہوتے ہیں۔ ان تمام مجموعوں کا نام ہے عہد حاضر کی نمائندہ شاعرہ جسے دنیائے ادب صبا خان کے نام سے جانتی ہیں۔
Muhammad Yousuf
About the Author: Muhammad Yousuf Read More Articles by Muhammad Yousuf: 5 Articles with 5938 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.