بجٹ سے پہلے” مک مکا“ ہو گیا
(Syed Badar Saeed, Lahore)
پنجاب اسمبلی کی سیڑھیاں چڑھتے
ہوئے میں نے اپنے ”سورس “کی طرف دیکھا اور پوچھا ”کیا صورت حال ہے “۔ میرے
ساتھ چلتے چلتے ہی اس نے جواب دیا ”شاہ جی مک مکا ہو گیا ہے“ ۔ اس ایک جملے
نے ساری صورت حال واضح کر دی ۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ جس طرح قومی اسمبلی
میں بجٹ اجلاس کے موقع پر اپوزیشن پارٹی نے ہلہ بولا اور لڑائی جھگڑے کے جو
مناظر پوری قوم نے دیکھے وہ سب پنجاب اسمبلی میں نہیں دہرایا جائے گا ۔ اس
سے قبل اپوزیشن خاص طور پر پیپلز پارٹی کے ارکان، قومی اسمبلی کا بدلہ لینے
کے لیے تیار ہو چکے تھے اور ”ڈرائنگ رومز“ میں اس حوالے سے پلاننگ اور
باتوں کا سلسلہ بھی جاری تھا ۔ پنجاب کے بجٹ اجلاس میں آنے والے اکثر صحافی
یہ سوچ کر آئے تھے کہ یہاں قومی اسمبلی سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہو گا
اور راجا ریاض اپنے ساتھیوں سمیت ”انی“ ڈال دیں گے لیکن جیسے ہی میرے” سورس“
نے مجھے بتایا کہ” مک مکا“ ہو گیا ہے، میں سمجھ گیا کہ قومی اسمبلی اور
پنجاب اسمبلی کا بجٹ کسی بڑی تبدیلی کے بغیر منظور کر لیا جائے گا ۔ مجھے
”مک مکا“ کی خبر دینے والا اندرونی حوالے سے باخبر شخص ہے او رعموما اس کی
اطلاع غلط ثابت نہیں ہوتی لیکن پھر بھی میں نے کبھی بھی اپنے کسی ”سور س“
پر مکمل یقین نہیں کیا بلکہ ان کی دی گئی اطلاعات کی روشنی میں اپنے طور پر
تحقیق کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی شروع ہو
چکی تھی اور فوری طور پر ”مک مکا“ والی بات کی تصدیق ممکن نہ تھی لیکن
اسمبلی کا اجلاس مجھ سمیت کئی صحافیوں کو بتا رہا تھا کہ کہیں نہ کہیں دال
میں کچھ کالا ضرور ہے ۔میں نے ”مک مکا“ کے حوالے سے لکھنے سے قبل کچھ دن
خود جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ۔آج کل بجٹ اجلاس کی جو صورت حال چل رہی ہے
اسے دیکھ کر یقین ہوتا جا رہا ہے کہ میرے ”سورس“ کی اطلاع درست تھی ۔
اپوزیشن اسمبلی میں احتجاج تو کر رہی ہے لیکن اگر غور کریں تو یہ احتجاج
بجٹ پر نہیں بلکہ ماضی پر ہو رہا ہے ۔ پنجاب اسمبلی میں انہی موضوعات پر
تقریریں ہو رہی ہیں جو اس سے قبل میڈیا پر مختلف بیانات کی شکل میں سامنے آ
چکے ہیں ۔ اپوزیشن کی تقاریر عموما آشیانہ، سستی روٹی سکیم ، دانش سکول،
لیب ٹاپ ، تھانہ کلچر جیسے موضوعات پر گھوم رہی ہیں لیکن ان دنوں ضرورت بجٹ
میں بتائے گئے منصوبوں اور ان کے لیے مختص کی گئی رقم کے حوالے سے بحث کی
ہے ۔” مک مکا“ کا یقین اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں بجٹ پر
ہونے والی بحث کے سیشن میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی عدم دلچسپی اور عدم
توجہ کا اعلی ترین مظاہر ہ کر رہے ہیں۔ارکان اسمبلی کی اس بجٹ میں دلچسپی
اتنی ہی ہے کہ اس ہفتے ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب میں نے پریس گیلری میں
کھڑے ہو کر گنتی کی تو حکومتی بنچوں پر صرف نو ارکان تشریف فرماں تھے جبکہ
اپوزیشن کے دو تین ارکان ان سے زیادہ تھے ۔سوال یہ ہے کہ قوم کے مستقبل کے
لیے بجٹ تیار کیا گیا اور اب اس کی منظوری کے لیے بحث جاری ہے لیکن قومی
نمائندے اس بحث میں آنا وقت کا ضیاع سمجھ رہے ہیں ۔ ایک سال کے لیے قوم کے
مستقبل کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے لیکن ارکان اسمبلی کے پاس اتنا بھی وقت
نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کرنے آئیں کہ عوام کی حق حلال اور خون پسینے کی کمائی
سے حاصل کیے گئے ٹیکس کو کہاں استعمال کرنا ہے؟ لاکھوں کروڑوں اپنی عیاشیوں
پر لگانے والوں کے پاس قوم کے لیے صرف اتنا ہی وقت ہے کہ وہ” مک مکا “کر
لیں کیونکہ قومی خزانہ کا جائز استعمال کے لیے بات کرنے اور اپنی رائے دینے
کے لیے ان کے پاس آج کل مزید وقت نہیں ۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہی ارکان
اسمبلی میڈیا پر کئی کئی گھنٹے قوم پر ہونے والے مظالم کے خلاف بحث کرنے کو
ہر وقت تیار رہتے ہیں لیکن اپنے اصل فرض کے لیے ان پاس وقت ہی نہیں۔اس بجٹ
کے اجلاس میں یہ بھی ہوا کہ کورم کی نشاندہی کی گئی اور جب سپیکر نے
گھنٹیاں بجائیں تو بجائے ارکان ہال میں تشریف لاتے الٹا اپوزیشن بھی واک
آﺅٹ کر گئی اور اجلاس چند منٹوں بعد ہی اگلے دن پر ملتوی کرنا پڑا ۔ اسی
ہفتے کی بات ہے کہ میں اور وزیر قانون رانا ثنا اللہ اکھٹے اسمبلی ہال میں
داخل ہوئے ۔ جب وزیر قانون ہال میں اپنی نشست پر بیٹھ رہے تھے ٹھیک اسی وقت
میں پریس گیلری میں پہنچا تھا ۔ اس وقت اپوزیشن کی جانب سے ایک خاتون چلا
رہی تھیں اور سپیکر اسمبلی بار بار انہیں ڈانٹ کر خاموش ہونے کا کہہ رہے
تھے ۔ ان خاتون کے بعد جب حکومتی رکن اسمبلی نے اپنی تقریر کا ّآغاز کیا تو
رانا ثنا اللہ صاحب ہال سے باہر نکل گئے ۔ وہ بمشکل دس منٹ اسمبلی کی
کارروائی میں شریک ہوئے جبکہ اس سے قبل اسمبلی کی سیڑھیوں کے پاس وہ تقریبا
ایک گھنٹہ کے قریب ایک نجی ٹی وی چینل اور اس کے اینکر کے خلاف اپنے غصے کا
اطہار کرتے رہے اور مجھ سمیت چند اور صحافی جووہاں ان کے پاس کھڑے تھے یہی
سوچتے رہے کہ شاید وزیر موصوف کسی عوامی مسئلے پر بھی بات کر لیں۔ سوال یہ
ہے کہ آخر کیوں عوامی بجٹ پر بات کرنے اور اسے بہتر بنانے کے لیے ارکان
اسمبلی کے پاس وقت نہیں ؟ آخر کیوں عوام کے کروڑوں روپے اپنی عیاشیوں پر
خرچ کرنے والے ایک سال کے لیے عوامی فلاح و بہبود پر رقم خرچ کرنے کے
منصوبوں پر بات کرنا تو دور اسے سننے کے لیے بھی نہیں آ رہے؟ کیا ارکان
اسمبلی کا کام صرف یہ ہے کہ وہ میڈیا پر بیانات دیتے رہیں اور جب عوام کے
مستقبل اور بہتری کی بات آئے تو اسمبلی تک آنابھی گوارا نہ کریں ؟ میں دعوے
سے کہتا ہوں کہ اگر آج ارکان اسمبلی کے اختیارات کم کرنے اور ان کو حاصل
مراعات واپس لینے کا کوئی بل اسمبلی میں پیش کر دیا جائے تو اسے نامنظور
کرنے کے لیے اسی وقت تمام ارکان اسمبلی میں بھاگے چلے آئیں گے۔ تب نہ کوئی
بیمار ہو گا ، نہ بیرون ممالک کوئی دورہ انہیں روک پائے گا اور نہ ہی کسی
کو اپنی مصروفیات یاد ہوں گی لیکن جب عوام کے لیے بجٹ پر بحث کا وقت آیا تو
اسمبلی آنے والے اکثر ارکان بھی بحث میں شرکت کرنے کی بجائے اپنے کمروں میں
”آرام“ فرماتے نظر آرہے ہیں ۔
جو صورت حال ان دنوں نظر آ رہی ہے اس کے بعد مجھے اپنے ”سورس“ کی اس بات پر
یقین آ چکا ہے کہ بجٹ سے قبل ہی ” مک مکا “ کر لیا گیا ہے ۔ اس ”مک مکا“ کا
اندازہ آپ کو بہت جلد ہو جائے گا ۔ میری یہ بات نوٹ کر لیں کہ قومی اسمبلی
میں حکومت کی طرف سے پیش کیا گیا بل بغیر کسی خاص ترمیم یا اضافے کے جوں کا
توں پاس کر لیا جائے گا اسی طرح پنجاب اسمبلی میں حکومت پنجاب کی طرف سے
پیش کیا گیا بجٹ بھی بغیر کسی خاص ترمیم یا اضافہ کے منظور کر لیا جائے گا
۔ یاد رہے کہ پنجاب حکومت وفاق میں اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے اسی طرح
وفاقی حکومت پنجاب میں اپوزیشن بنچوں پر تشریف فرماں ہے ۔ ”مک مکا “کن کن
باتوں پر کیا جاتا رہا وہ عوام کے سامنے ہے لیکن کن کن باتوں پر کر لیا گیا
اس کی مکمل تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں البتہ موجودہ بجٹ کے حوالے سے یہی
لگ رہا ہے کہ ”مک مکا“ کر لیا گیا ہے ۔ بجٹ منظور ہونے کے بعد یہ بات کھل
کر سامنے آ جائے گی ۔ اقتدار اور مفادات کی راہداریوں میں یونہی” مک مکا“
ہوتاہے ر ہی عوام تو اس کے لیے محض ایک” چھنکنا “رکھا ہوا جسے ہر چینل پر
یہ لوگ بجاتے رہتے ہیں ۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو (آمین) |
|