آج جس موضوع کو چھیڑ رہا ہوں وہ ایک لحاظ سے حساس ہونے کے ساتھ پرخطر بھی ہے
کیونکہ جیسا کہ عنوان سے قارئین کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ آج کی تحریر میں کچھ
تاریخ اور کچھ حالات حاضرہ پہ قلم کو تکلیف دے رہا ہوں۔
اسامہ بن لادن جو کہ پوری دنیا کے لیے ایک رومانوی کردار بن چکا ہے اس کا
موازنہ اگر بیسویں صدی کے اوائل میں خلافت عثمانیہ (ترکی) کو توڑنے کے لیے عرب
نیشنلزم کا شوشہ چھوڑنے والے برطانوی سیکرٹ ایجنٹ Thomas Edward Lawrence سے
کیا جائے تو امت مسلمہ کو درپیش تمام مسائل کی جڑ سمجھ آ جائے گی۔ موخرالزکر
١٨٨٨ میں پیدا ہوئے اور برطانوی فوج میں سیکنڈ لیفٹننٹ کی حیثیت سے اپنی خدمات
سرانجام دیں۔ موصوف نے عراق، شام، مصر اور جزیرہ عرب میں برطانوی سامراجی
مفادات کے تحفظ کی خاطر عربوں کو جغرافیائی لحاظ سے تقسیم کر کے ترکوں اور
مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ لارنس آف عریبیہ مسلمانوں کے لیے ایک
عرب قوم پرست کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ عربی زبان پر عبور ہونے کے علاوہ اس
کو قرآن پاک اور احادیث بھی ازبر یاد تھیں۔ اسکے مشن مکمل ہونے سے پیشتر دنیا
کو اسکی اصل شناخت سے آگاہی نہیں تھی۔ لارنس آف عریبیہ کا کردار رہتی دنیا تک
ایک کامیاب سیکرٹ ایجنٹ کے طور پہ یاد رکھا جائے گا۔ آج فلسطین یا مڈل ایسٹ میں
جو کچھ ہو رہا ہے اس کی بنیاد موصوف نے رکھی تھی جو آج تک امن عالم کے لیے درد
سر بنا ہوا ہے۔ اب آتے ہیں حضرت اسامہ بن لادن کی طرف جو ایک طرف دنیا بھر کے
لیے آسمانی عذاب سے کم نہیں ہیں، تو دوسری طرف مسلمانوں کے ایک خاص فرقے کے لیے
ایک ہیرو سے کم نہیں ہیں۔اور انکو دیوتا کی طرح پوجا جاتا ہے۔ اسامہ بن لادن کا
تعلق سعودی عرب کے مخیر ترین خاندان سے ہے۔ اسامہ نے ١٩٨٢ میں پہلی دفعہ
پاکستان میں قدم رنجا فرمایا اور اگلے چند سالوں میں افغان جہاد سے متاثر ہو کے
پشاور میں ایک کیمپ قائم کیا جہاں شام اور مصر سے سابق فوجیوں کی زیر سرپرستی
عرب، افغان اور پاکستانی جہادیوں کو ٹریننگ دی جاتی تھی۔ یہ سب کچھ ریکارڈ پر
ہے کہ افغان جہاد جو کہ سوویت یونین کے خلاف مغربی مفادات کے تحفظ کی خاطر
امریکی CIA کی آشیرباد اور مالی امداد سے ١٩٨٨ تک جاری رہا۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے |