ڈاکٹر قدیرخان کے قتل کی سازش

امریکہ ‘ برطانیہ ‘ فرانس ‘ اسرائیل اور بھارت کا مشترکہ منصوبہ
ڈاکٹر قدیر کی رہائی کے ساتھ ہی سامراجی قوتیں حرکت میں آگئیں
”موساد“ اور ” را “ کے ایجنٹ ڈاکٹر قدیر خان کے گرد شکنجہ کسنے کے لئے تیار
آزادانہ نقل و حمل ڈاکٹر قدیر کی زندگی کے لئے خطرات پیدا کرسکتی ہے

پاکستان کے مفاد میں ڈاکٹر قدیر کو سیاسی فتنہ گری سے دور رہنا ہوگا ‘ سیاسی مفادات کےلئے ڈاکٹر قدیر کو سیاست میں گھسیٹنے اور لانگ مارچ میں شریک کرانے کی کوششیں کی جاسکتی ہیں 12مارچ کے وکلاءلانگ مارچ میں تخریب کاری کے خدشات کو رَد نہیں کیا جاسکتا ‘ ڈاکٹر قدیر اس لانگ مارچ میں کسی طور شرکت نہ کریں

امریکی ”سی آئی اے “ برطانوی ”M-16 “ اسرائیلی ”موساد “ اور بھارتی انٹیلی جنس ”را“ وکلا لانگ مارچ میں بڑے پیمانے پر تخریب کاری کا منصوبہ رکھتی ہیں

پاکستان کو ایٹمی مملکت بنا کر اس کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والے جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی حیثیت ان قوتوں کے نزدیک ”دشمن اعظم“ کی سی ہے جنہوں نے نہ تو پاکستان کے قیام کو برداشت کیا اور نہ ہی اس کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ وہ ہمہ وقت اسلام کے نام پر قائم ہونے والی دنیا کی اس آزاد و خود مختار جمہوری مملکت کے خلاف سازشوں کے ذریعے اس کے استحکام و سالمیت کو نقصان پہنچانے کی سازشوں میں مصروف بھی رہتی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں ہزیمت اٹھانے کے بعد ایک سازش کے ذریعے 1971ء میں پاکستان کو دولخت کردینے والی یہ سازشی قوتیں پاکستان کے خلاف اپنے مذموم مقاصد اور مکروہ عزائم کو کامیاب بناکر اس کی سالمیت و خود مختاری کو نقصان پہنچانے میں یقینی طور پر کامیاب بھی ہوجاتیں مگر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان کو ناقابل تسخیر اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے عزم کے تحت جاری ان کی کوششوں کے طفیل پاکستان میں لگائے جانے والے ایٹمی ری ایکٹر کو فعال کر کے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایٹمی مملکت بناکر اس کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کے ایٹمی مملکت ہونے کے اعلان کے ذریعے پاکستان مخالف قوتوں کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ پاکستان پر سامراجیت کی یلغار کی شکل میں دنیا ایٹمی جنگ سے بھی دوچار ہوسکتی ہے اس لئے پاکستان کو برباد کرنے کی سازشوں میں مصروف عمل سامراجی قوتوں کو محتاط رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا مگر جس طرح ”بند ر کبھی گلاٹھی کھانا نہیں بھولتا “ اسی طرح یہود وہنود بھی کبھی مسلم دشمنی چھوڑ سکتے ہیں نہ پاکستان دشمن‘ پاکستان کے خلاف سازشیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی قوت بن جانے کے بعد پاکستان دشمن قوتوں نے سازشیں تو نہ چھوڑیں البتہ اپنی سازشوں کا طریق کار تبدیل کردیا اور عالمی سطح پر پاکستان اور اس کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر قدیر خان کے خلاف ایک مہم کے ذریعے انہیں ”ایٹمی پھیلاؤ “(جوہری اسمگلنگ) کا ذمہ دار بناکر ان کی کردار کشی کے ساتھ ساتھ پاکستان پر بھی ان کی ”حوالگی “کے لئے دباؤ ڈالا جانے لگا ‘ ساتھ ہی ڈاکٹر قدیر کو اغوا کرنے کے لئے ”اسرائیل “ اور ”را“ کے کمانڈوز بھی متحرک کردیئے گئے تاکہ کسی بھی طرح پاکستان کی ایٹمی قوت کے خالق کو اغوا کر کے سامراجی قوتوں کا تابعدار بنایا جاسکے ۔ اس وقت کی حکومت پاکستان نے عالمی دباؤ کے تحت ڈاکٹر قدیر کو ’‘ایٹمی پھیلاؤ“ میں ملوث ہونے کا مجرم قرار دے کر انہیں اس لئے نظر بند کردیا کہ سامراجی قوتیں انہیں اغوا کر کے میں کامیاب نہ ہوسکیں ‘ ان کی نظر بندی سابقہ حکومت کے مطابق ان کی سیکورٹی کےلئے انتہائی ضروری تھی مگر اس حوالے سے ڈاکٹر قدیر خان کا کہنا تھا کہ انہیں سیکورٹی کے نام پر جس طرح سے نظر بند کیا گیا وہ ان کے انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی تھی اور یہی نہیں بلکہ سابقہ حکومت نے ان کی کردار کشی کے ذریعے انہییں غدار وطن ثابت کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا ایٹمی پھیلاؤ (جوہری اسمگلنگ) کے حوالے سے کوئی کردار نہیں تھا رہی بات اس اعتراف جرم کی جس کا تذکرہ سابق حکومت کرتی رہی ہے تو اس کے حوالے سے ڈاکٹر قدیر خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا واسطہ دے دے کر مجھے اعتراف جرم پر مجبور کیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی نظر بندی کے خلاف ڈاکٹر قدیر نے عدالت سے رجوع کیا اور ایک طویل عرصہ قانونی جنگ لڑنے کے بعد موجودہ صدر پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کی کوششوں سے قومی اُمنگوں کا وہ وقت بھی آگیا جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر قدیر کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے ان کی نظر بندی کے خاتمے اور ان کے تحفظ کےلئے وی آئی پی سیکورٹی کی فراہمی کے احکامات جاری کرتے ہوئے ڈاکٹر قدیر پر لگائے جانے والے تمام الزامات کو جھوٹ قرار دیا ہے ۔ اپنی رہائی کے بعد جہاں ڈاکٹر قدیر نے رب کا شکر اور قوم کا شکریہ ادا کیا وہیں انہوں نے اپنی رہائی کے لئے صدر زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کوششوں کو بھی سراہا ہے ۔

ڈاکٹر قدیر خان عالم شباب میں اس وقت پاکستان کی خدمت کرنے کے لئے اپنے وطن تشریف لائے تھے جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں ملک واپس آکر ایٹمی پروگرام شروع کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ وہ ایک بھیانک وقت تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ سے پوری قوم پر مایوسی کی کیفیت چھائی ہوئی تھی اور رہی سہی کسر بھارت کے ایٹمی دھماکے نے پوری کر دی تھی۔ ہر پاکستانی غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا تھا جبکہ دوسری جانب بھارت میں خوشی کے شادیانے بج رہے تھے۔قوم کو اس بے یقینی سے باہر نکالنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو نے جہاں اور بہت سے اہم فیصلے کیے وہیں یہ بھی طے کرلیا کہ ''گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔'' دلچسپ بات یہ ہے کہ اس زمانے میں پاکستان جیسے پسماندہ ' غریب اور حالات کے جبر تلے دبے ہوئے ملک کے لئے ایٹم بم کے حصول کا تصور بھی محال تھا لیکن ذوالفقارعلی بھٹو میں یہ خوبی تھی کہ وہ جو ارادہ کرلیتے تھے اس پر عمل کرنے میں دیر نہیں لگایا کرتے تھے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس زمانے میں پاکستان کے اندر کوئی ایک سائنس دان بھی ایسا نہ تھا جو ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھ سکتا۔ واحد آپشن ڈاکٹر قدیر خان تھے جو ہالینڈ میں ایک پرتعیش زندگی بسر کر رہے تھے۔ انہیں یقینی طور پر اس امر کا بھی احساس رہا ہوگا کہ پاکستان میں انہیں ان گنت مشکلات برداشت کرنا پڑیں گی لیکن یہ بھٹو کی جادوئی شخصیت کا اعجاز تھا یا ڈاکٹر قدیر خان کی ملک اور قوم کے ساتھ بے لوث محبت کا عملی ثبوت کہ جب انہیں ملک واپس آکر ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے لئے کہا گیا تو انہوںنے یہ درخواست فوراً قبول کرلی اور نہایت محدود وسائل کے ساتھ اپنا کام شروع کر دیا۔ بعد ازاں بھٹو نے انہیں وسائل فراہم کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ رکھا اور محسن پاکستان کو وہ عزت ' مقام اور اعتبار دیا جس کے وہ حقیقی معنوں میں مستحق تھے۔ بڑی خاموشی مگر سرعت کے ساتھ ایٹمی پروگرام پر کام شرو ع ہوا اور بھٹو کے بعد جتنے بھی حکمران آئے سبھی نے اس پروگرام کو آگے بڑھانے میں ڈاکٹر قدیر خان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ایٹمی پروگرام کو فریز کرنے کے لئے عالمی طاقتوں نے سخت دباﺅ بھی ڈالا۔ ڈرایا دھمکایا بھی لیکن پاک فوج اور حکومتوں نے مل کر اس دباﺅ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کام کو نہ رکنے دیا۔ایٹم بم بنانے کے لئے ڈاکٹر قدیر خان اور ان کے ساتھیوں کو کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑے ' کتنے کشٹ کاٹنے پڑے اور کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ' یہ ایک طویل داستان ہے جو وقت کے کسی مرحلے پر سامنے آئی تو پاکستان کی آنے والی نسلیں نہ صرف ڈاکٹر قدیر خان بلکہ ان کی باوفا شریک حیات کو بھی سیلوٹ کریں گی۔ یہ وہ عظیم خاتون ہیں جن کا خمیر اس مٹی سے نہیں اٹھا تھا لیکن غیر ملکی ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے شوہر کے ہم وطنوں کے لئے ایسی ایسی بیمثال و لازوال قربانیاں دیں کہ جو سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔ پوری قوم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ڈاکٹر قدیر خان کے ساتھ ساتھ اس عظیم خاتون کو بھی خراج تحسین پیش کرے جس نے اپنے شوہر کو قوم کی خدمت کے لئے وقف کر دیا اور وفا شعاری کی انتہا کر دی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر جتنا عرصہ اسیر رہے قو م کے بچے ' بوڑھے‘ جوان اور خواتین تک ہر نماز کے بعد ان کی رہائی کی دعائیں کرتے رہے۔ ان گنت لوگوں نے صلوٰة حاجات پڑھ پڑھ کر اللہ سے اپنے لئے کچھ مانگنے کی بجائے خدائے بزرگ و برتر سے محسن پاکستان کی صحت اور سلامتی مانگی۔ لوگ ان سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ اللہ سے ان کے لئے خیرو عافیت طلب کرتے ہیں۔ وہ سیاسی رہنما نہیں لیکن کسی بھی سیاستدان سے زیادہ مقبول ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی جوانی ' اپنا سکھ چین غارت کر کے قوم کو وہ تحفہ دیا کہ جس کی نظیر پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔

یہی وجہ ہے کہ عدالتی فیصلے کے تحت جہاں ایک جانب ڈاکٹر قدیر کی نظربندی کے خاتمے اور ان کی رہائی نے پوری قوم کو مسرت و انبساط سے سرشار کردیا وہیں ان کی رہائی کے ساتھ ہی عالمی سطح پر شروع ہونے والی سازشوںنے ڈاکٹر قدیر خان کی سیکورٹی کے حوالے سے خدشات کو بھی جنم دیا ہے کیونکہ ایک جانب جہاں امریکہ نے ڈاکٹر قدیر کی رہائی کے عدالتی فیصلے کو بدقسمتی قرار دیا ہے ‘ وہیں ایک امریکی رکن کانگریس نے ڈاکٹر قدیر کی رہائی کو خطرے کی گھنٹی قرار دیتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اس فیصلے سے پاک امریکہ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیںجبکہ میونخ کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ عالمی برادری کو ڈاکٹر قدیر خان تک رسائی دی جائے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئی اے ای اے کو بھی ڈاکٹر خان تک رسائی دی جائے جبکہ پاکستان کی امداد کے حوالے سے بھی نظرِ ثانی کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔

اس قسم کے مطالبات اور اعلانات ڈاکٹر قدیر خان کے مستقبل کے حوالے سے خطرات کا واضح اظہار ہیں جبکہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را“ اور اسرائیلی ایجنسی ”موساد “ کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جن کے ایجنڈے پر ڈاکٹر قدیر خان کا اغوا یا ان کا قتل سرِ فہرست ہے جبکہ کچھ حلقے ان خدشات کا اظہار بھی کررہے ہیں کہ ڈاکٹر قدیر خان کی رہائی کے بعد اسرائیل ‘ بھارت ‘ امریکہ اور برطانیہ و فرانس سمیت دیگر سامراجی ممالک ایک بار پھر ان سازشوں پر عمل پیرا ہوجائیں گے جن پر عملدرآمد ان کی نظربندی کے باعث سخت ترین سیکورٹی کی وجہ سے نا ممکن ہوگیا تھا اسلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ایک بار پھر پاکستانی لیڈرشپ ذوالفقار علی بھٹو کے وژن سے رہنمائی لے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ آج کی لیڈر شپ کا نعرہ یہ ہونا چاہئے کہ ہم گھاس کھالیں گے لیکن محسن پاکستان پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے جبکہ ڈاکٹر قدیر خان کی سیکورٹی میں کوئی رخنہ نہ چھوڑا جائے کیونکہ ان کے دشمن ان پر وار کرنے کے لئے ہر لمحہ تاک میں رہیں گے۔

دوسری جانب ڈاکٹر قدیر خان کو بھی اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ ان کی آزادانہ نقل و حمل ان کے لئے نقصان کا سبب بن سکتی ہے اور ایٹمی سائنسدان ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹر قدیر کو پہنچنے والا کسی بھی قسم کا نقصان براہ راست پاکستان کا نقصان ہوگا اسلئے ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کو نقصان سے بچانے کے لئے ڈاکٹر قدیر خان خود کو ہر قسم کی سیاسی بازیگری سے محفوظ رکھتے ہوئے مفادِ پاکستان میں خود کو ”محدود “رکھیں گے تاکہ دشمنان وطن کی کوئی سازش کامیاب نہ ہونے پائے جبکہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کی رہائی کے بعد مبارکباد دینے والوں میں کچھ ایسے بنیاد پرست سیاسی چہرے بھی میڈیا پر دکھائی دیئے جو اپنے سیاسی مفاد کےلئے ڈاکٹر قدیر کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش لازماً کریں گے مگر اپنی سیکورٹی اور بیرونی سازشوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر قدیر کو ہر حال میں سیاست سے دور رہنا ہوگا ۔

بالخصوص 12مارچ کو ہونے والے وکلا لانگ مارچ میں شرکت سے مکمل اجتناب ہی ڈاکٹر قدیر کی زندگی کی ضمانت بن سکتا ہے کیونکہ مذکورہ لانگ مارچ میں بڑے پیمانے پر تخریب کاری کا خدشہ ہے اور اسرائیلی و بھارتی ایجنٹ اس لانگ مارچ کو نشانہ بناکر پاکستان میں خانہ جنگی پیدا کرنے کی تمام تر تیاریاں مکمل کرچکے ہیں اسلئے مفادِ پاکستان میں ڈاکٹر قدیر خان کو وکلا تحریک سمیت ہر قسم کے اجتماع اور سیاسی حلقوں سے دوررہنا ہوگا تب ہی سامراجیت کی ان سازشوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے جن کے تحت پاکستان دشمن قوتیں ڈاکٹر قدیر خان کو نشانہ بنانے کی پلاننگ کر رہی ہیں ۔ 
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 63 Articles with 62563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.