افغانستان سے اچھی خبر

افغانستان سے ایک اچھی خبر یہ آئی ہے کہ طالبان نے ہندستان کے ساتھ جذبہ خیرسگالی کا اظہار کیا ہے جس پر ہندستان کا کوئی رد عمل ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔ہر چند کہ ہندستانی میڈیا اور افسر شاہی امریکا اور اسرائیل کی پیروی میں طالبان کو مہذب دنیا کےلئے سب سے بڑا داغ اور” سیکولر “ہندستان کےلئے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت اپنے انتہائی طاقتور حلیفوں کے ساتھ مل کر بھی ان کو شکست قبول کرنے پر مجبور نہیں کرسکی اور اب خود افغانستان سے فرار کی تیاری میںہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی چلارہی ہے۔

بیشک یہ ایک تکلیف دہ امر ہے کہ مذہبی امور میں طالبان کی شدت پسندی اور اسلام کی تعبیر و تشریح میں تنگ نظری نے دنیا کی نظروں میںدین رحمت کے تصور کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ اپنے مختصر دوراقتدار میں انہوں نے اسلام کے نام پر جس طرح بعض حدود و قیود کومسلط کرنے کی کوشش کی، اس کی تائید نہیں کی جاسکتی ۔اسلام نہ تو دیگر مذاہب کی مقدس علامتوں کو برباد کرنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ فرد کی آزادی کو سلب کرنے کو روا رکھتا ہے۔رہا شریعت کا نفاذ تو اس کے لئے جبر و قہر کو نہیں بلکہ تذکیر و نصیحت اور اچھی مثال کو ذریعہ بنایا جانا چاہئے۔اختلافی امور میں کسی ایک نظریہ کو جبراً نافذ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن سچ یہ بھی ہے کہ امریکا کی افغانستان پر یلغار نہ تو اس لئے تھی کو طالبان نے اسلام کی جو شبیہ مسخ کر دی تھی اس کی کچھ اصلاح مقصود تھی اور نہ اس لئے کہ اسے وہاں کے عوام سے کچھ ہمدردی تھی، بلکہ اقوام مغرب کی فطرت میں مضمرازلی اسلام دشمنی اور ساری دنیا میں اپنا سکہ چلانے کی دیوانگی نے یہ جنگ مسلط کرنے کی راہ دکھائی ۔

خود امریکا عراق اور افغانستان کے خلاف ’صلیبی جنگ‘ میں مصروف ہے اور اپنی فوجی بیرکوں میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ناگا ساکی اور ہیروشیما کی تاریخ دوہرانے کی عملی تیاری کررہا ہے۔ وہ اپنے اس قابل نفریں مقصد کےلئے طالبان کو دہشت گردباور کراتاہے ، تاکہ اس بہانے جہاں چاہے دخل اندازی کرے ۔ اس کی پیروی میں باقی ساری دنیا بھی طالبان کو دہشت گرد ہی سمجھتی ہے۔ طالبان سے منسوب کچھ ایسی انسانیت سوز حرکتیں بھی منظر عام پر آئیں جن کی وجہ سے ان کی شدت پسندی اور دہشت گردی میں تمیز کرنا مشکل ہے۔ لیکن جہاںتک افغانستان پر مسلط ناٹو اور امریکی سپاہ کے خلاف ان کے معرکہ کا معاملہ ہے، ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ دراصل اپنے وطن کی آزادی کی جدو جہد ہے جس کو دہشت گردی غلط ہے۔ بہرحال آج پوری دنیا، جس میں ہندستانی افسر شاہی، میڈیا اور عوام شامل ہیں ،امریکا کے زیر اثریہی سبق دوہراتے رہتے ہیں کہ قومی وقار کی بحالی اور امریکا کو سرزمین افغانستان سے بے دخل کرنے کی یہ جدو جہدوطن کی آزادی کی جنگ نہیں بلکہ دہشت گردی ہے۔ایسی صورت میںیہ یقین دلانے کی کافی گنجائش ہے کہ طالبان ’سیکولر ‘ ہندستان کے لئے بھی خطرہ ہیں۔اس خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہندتووا کی طاقتوں کےلئے غذا کا کام دیتا ہے۔اس نظریہ کا ایک نتیجہ یہ ہے پاکستان کے ساتھ ہندستان کے تعلقات اور افغانستان کی صورت حال کا جب بھی ذکر آتا ہے یہ اندیشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اگر افغانستان سے امریکیوں کے چلے جانے کے بعد طالبان کہیں ہندستان کا رخ نہ کرلیں؟

اس پس منظر میں طالبان کی سرکاری ویب سائٹ ’وائس آف جہاد‘ پر ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں شائع ایک بیان توجہ کا مرکز بنا ہے، جس میں طالبان نے ہندستان کی تعریف کی ہے اور اس کو اس خطے کا ایک اہم ملک قرار دیتے ہوئے اس عندیہ کو دوہرایا ہے کہ سرزمین افغانستان کو ہند کے خلاف جارحیت کےلئے استعمال نہیںہونے دیا جائیگا۔اصولاً طالبان کے اس بیان کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے ، لیکن تادم تحریرنئی دہلی میں خاموشی ہے۔البتہ ہندستانی خفیہ ایجنسی’ را‘ کے سابق سربراہ مسٹر وکرم سود نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے اس میں ہندستان کےلئے ایک انتباہ پوشیدہ ہے۔ رائٹر نے ان سے یہ بات نقل کی ہے:” یہ تو ایک مہذب انتباہ ہے کہ امریکیوں کے چلے جانے کے بعد ہندستان افغان معاملات میں مداخلت نہ کرے۔“ مسٹر سودکے اس تجزیہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہندستانی افسر شاہی کا انداز فکرکس حد تک منفی ہوسکتا ہے؟ وہ زمانہ چلا گیا جب کوئی قوم اپنے معاملات میں مداخلت کرنے والی بیرونی طاقت کا خیر مقدم کیا کرتی تھی۔ آج کوئی ملک یہ گوارا نہیں کرتا کہ کوئی طاقت اس کے معاملات میں مداخلت کا ارادہ کرے اور اگر کوئی کرتا ہے اس کو انتباہ کےلئے کسی’ مہذب پیرایہ‘ کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔مسٹر سود کا یہ اندیشہ اس لئے بھی عبث ہے کہ افغانستان پر یلغار کے بعد سے ہی امریکا ہندستانی فوج کی افغانستان میںموجودگی کے لئے دباﺅ ڈالتا رہا ہے جس کو ہندستان نے بجا طور پر قبول نہیں کیا اور اس پالیسی پر نظر ثانی کا بھی کوئی قرینہ نظر نہیں آتا۔افغانستان میں خود امیرکیوں کے حشر اور راجیو گاندھی کے دور میں سری لنکا میں فوج بھیجنے کی غلطی کے نتائج کو نظرانداز کرکے محض امریکا کے کہنے پر افغانستان میں فوج نہیں بھیجی جاسکتی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان کے اس بیان کو دھمکی سمجھنے کے بجائے یوں سمجھنا چاہئے کہ ہند کے تئیں خیر سگالی کے جذبہ کا اظہار ان کی سوچ میں ایک مثبت اور حقیقت پسندانہ تبدیلی کی علامت ہے، جس کو نظر انداز کرنے کے بجائے ہمیں بھر پورفائدہ اٹھانا چاہئے۔ اب تک ہم یہی سمجھتے رہے کہ طالبان ہمارے دشمن ہیں۔ اب اگر وہ دشمنی کو ترک کرنے پر آمادہ ہیں تو پس و پیش میں پڑنے ، یا یہ سوچے بغیر کہ امریکا کیا کہے گا، ایک قدم ہمیں بھی آگے بڑھانا چاہئے ۔ہندستان کے افغانستان کے ساتھ قدیم رشتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ مخاضمت کے بجائے مفاہمت کی فضا ہمیں اس خطے میں اس مشن کو پورا کرنے میں معاون ہوگی جس کےلئے ہندستان وہاں سرگرم عمل ہے۔دسمبر 1979میں روس نے فغانستان میںجب اپنی افواج داخل کی تھیں تب وزیراعظم ہند چودھری چرن سنگھ نے ایک اصولی موقف اختیار کرتے ہوئے اس پر اظہار ناپسندیدگی کیا تھا۔ لیکن ان کا دور حکومت چند روزہ تھا۔ محترمہ اندرا گاندھی کے دور اقتدار میں ہم سے یہ غلطی ہوئی کہ روسی استعمار کی تائید کی گئی اور اس کے خلاف جو طاقتیں نبردآزما تھیں ان کو کیونکہ صدر پاکستان ضیاءالحق کی تائید حاصل تھی،اس لئے ان کی مخالفت کی گئی۔ یہ صحیح ہے کہ جب بنگلہ دیش کی جنگ چھڑی تب روس نے ہندستانی موقف کی تائید کی تھی ،لیکن اس کے بعدجو منظر نامہ کشمیر میں پیش آیا وہ ہمارے لئے کچھ کم تکلیف دہ نہیں۔

روس کے انخلا کے بعد ہم سے ایک دوسری غلطی یہ ہوئی کہ اقتدار کےلئے افغانستان میں جو خانہ جنگی چھڑی اس میں ہم غیر جانب دار نہیں رہے ۔ چنانچہ جب کابل پر طالبان قابض ہوگئے تو ہندستان کے مفادات پر اس کی زد پڑی۔ سیاست میں ناتجربہ کار طالبان نے جذباتی انداز میں حکومت چلائی اور قوم کے وسیع تر مفادات کو نظر انداز کرکے ان فلاحی اور تعمیری پروجیکٹوں کو بند کردیا جو ہند وہاںچلا رہا تھا۔ اس کا نقصان افغانیوں کو ہی پہنچا۔ 5نومبر 1994کو کابل پر قبضہ کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان نے ہند کے بارے میں بڑے پرجوش انداز میں خیرسگالی کا اظہار کیا ہے جس پر پوری دنیا ششدر ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا قومی مفاد کس چیز میں ہے؟ اب اگر امریکا بھی طالبان سے مذاکرات پر آمادہ ہے تو ہندستان کےلئے کیا قباحت ہے کہ وہ ان کے ساتھ راہ و رسم قائم کرے؟ پہلے سے بنے بنائے چند تصورات پر قائم رہنے کے بجائے رشتوں کی استواری میں وسیع تر قومی مفادات کو سامنے رکھنا ہوگا۔

طالبان کا یہ بیان امریکی وزیر دفاع لیون پنیتا کے حالیہ دورہ ہند کے پس منظر میں آیا ہے۔ طالبان نے اس امر پر مسرت کا اظہار کیا ہے کہ ہندستان نے ایک مرتبہ پھر امریکا کا یہ اصرار مسترد کردیا ہے کہ وہ افغانستان میں سیکیورٹی سے متعلق معاملات میں سرگرم رول ادا کرے۔ بیان میںکہا گیا ہے کہ” پنیتا نے تین دن دہلی میں گزارے اور یہ چاہا کہ اپنے کندھوں کا بوجھ ہندستان پر ڈالدے مگر ہندستان نے ان کو خالی ہاتھ لوٹا دیا۔ اس میںشک نہیں کہ ہندستان اس خطے کا ایک ہم ملک ہے ۔ وہ افغان عوام کی امنگوں، اصولوں، نظریوں اور اپنی آزادی سے پیار کے جذبہ کو بخوبی جانتا ہے۔ یہ بات قطعی غیر منطقی ہے کہ وہ امریکا کی خوشی کےلئے جو ہمیشہ صرف اپنے ہی مفادات کے پیچھے دوڑتا ہے خود کو کسی مصیبت میں ڈالے گا۔‘ اس کے ساتھ زور دیکر یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اسلامی امارات ‘ اس بات کو بار بار دوہراتی رہی ہے کہ وہ خود مختاری، مساوات اور ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت اور ایک دوسرے کے احترام کے اصول پر خوشگوار رشتوں کی خواہاں ہے۔“ اور یہ کہ ” ہم یہ بات بار بار واضح کرچکے ہیں کہ کسی کو افغان کی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی“۔طالبان کی یہ یقین دہانی اس لئے اہم ہے کہ بار بار یہ اندیشہ ظاہر کیا جاتا ہے وہ ہمارے ملک میں ، خصوصا کشمیر میںکہیں مداخلت کی کوشش نہ کریں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہندستان کے عوام اور وہاں کے حکام بارہ سال سے افغان عوام کے خلاف امریکا کی اس بیجا لڑائی کا مشاہدہ کررہے ہیں اور افغان عوام اور ان کے مطالبات سے آگاہ ہیں۔ افغان مسئلہ کا حل یہ ہے کہ بیرونی طاقتیں افغانستان سے نکل جائیں اور افغانستان کی خود مختاری افغانیوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیں۔“

طالبان کے اس بیان کی امریکا نے تو اعلا ترین سطح پر تردید کی ہے۔ پنیتا نے خود کہا کہ مذاکرات کے دوران انہوں نے جو طویل فہرست پیش کی اس پر کہیں بھی ہند کی طرف سے ’نا‘ نہیں سنا گیا۔ مگر ہندستان کی خاموشی کچھ کہتی ہے۔ طالبان کے اس عندیہ کے بعد کہ وہ ہندستان کے ساتھ دوستی کا خواہاں ہیں۔ ہندستان ایک مفردپوزیشن میں آگیاہے۔ کابل کے موجودہ حکمرانوں اور شمالی اتحاد کے باقی ماندہ عناصر سے اس کے تعلقات پہلے ہی پراعتماد ہیں۔ اب اگر طالبان بھی ہندستان پر اعتماد کرنےکے لئے آمادہ ہیں اوردیگر فریقوںکی طرح اب وہ یہ بھی تسلیم کررہے ہیں کہ ہندستان اس خطے کا ایک اہم ملک ہے توہندستان کو امریکا کے سائے سے باہر نکل کرجملہ افغان فریقوں کے درمیان افغان مسئلہ کے حل کےلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔خطے کے تمام ممالک ناٹو اور امریکا کی بیدخلی کے خواہاں ہے۔ ان حالات میں ہند کو ایران اور ترکی سے بھی مدد مل سکتی ہے۔پاکستان اور چین کو بھی اعتماد میںلیا جاسکتا ہے۔ افغانستان کا جغرافیائی محل وقوع بڑا اہم ہے۔ اگر اس خطے میں امن قائم ہوتا ہے اور سارک ممالک اور ان کے پڑوسی ممالک کے درمیان اعتماد کے رشتے قائم ہوتے ہیں تو یہ خطہ ایک مرتبہ پھر سونے کی چڑیا بن سکتا ہے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163234 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.