چِٹھی ! کیا ہے؟ چِٹھی خط ہوتا
ہے اور کیا! اب آپ تمام کو یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ چِٹھی خط ہوتا ہے۔ مگر
خط کی اہمیت خط کا لکھنے والا اور اس کے بعد پڑھنے والا ہی سمجھ سکتا
ہے۔مار ڈالا یار تیری جواب طلبی نے ، اس چرخ کج رفتار چِٹھی نے ، انہوں نے
اس کا کیا بگاڑا تھا ۔ کل سے ان کو میکش بہت یاد آتا ہے، گدی نشینی بہت یاد
آتی ہے، سو صاحب اب تم ہی بتاﺅ میں تم کو کیا لکھوں۔ جب لکھنے کا وقت تھا
تب تو لکھا نہیں گیا، اور پوچھنا، لکھنا، بھیجنا، سب بیکار! یہ تو وہی مثال
ہوگئی کہ ” اب پچھتاوت کیا ہوت! جب چڑیا چُک گئی کھیت“ اب تو ایک یادِ
بیکراں ہی باقی رہ گئی ہے، وہ صحبتیں اور تقریریں جو یاد کرتا ہوں اور تو
کچھ بن نہیں پایا مجھ سے خط پہ خط لکھواتے ہو۔ بہر حال کچھ لکھتا ہوں ،
دیکھو کیسا لکھتا ہوں۔ پنشن کی رپورٹ لکھوں ، مجھے تو اس کا احوال بھی نہیں
معلوم! اب تو چِٹھی کی جگہ کتاب لکھوں گا جناب، بہرحال اب چِٹھی لکھو یا خط
عوام کو ضرور سنا دینا ۔
وہ ایک خط جو تُونے کبھی لکھا ہی نہیں
میں روز بیٹھ کہ اس کا جواب لکھتا ہوں
تجھ کو خط لکھنے کا سوئس بینک بھول گئے
آڑی، ترچھی سطریں لکھتا رہتا ہوں
یہ تفصیل میں کیوں لکھ رہا ہوں یہ تمام باتیں تو ہماری عوام سُن سُن کر پک
گئی ہے۔پھر بھی ان کا حوصلہ و ہمت ہے کہ روز روز اسی طرح کی باتیں اخبارات
میں پڑھتے رہتے ہیں۔ قابلِ رحم ہے یہ قوم جو نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سب کچھ
پڑھتے ہیں۔ ۷۷ صفحات کا فیصلہ اوراس پر سونے پہ سوہاگہ اضافی نوٹ،عدالت
برخاست ہونے تک کی سزا،جو کہ ایک منٹ سے بھی کم وقت کا تھا، سزا تو پھر سزا
ہی ہوتا ہے چاہے کچھ دیر کی ہو یا سالوں پر محیط !پھر اسپیکر کی رولنگ، پھر
عدلیہ کا ایک اور فیصلہ جو کہ نااہلی کی صورت میں آیا، اور تواور قومی
اسمبلی کی رکنیت بھی گئی، اور ان سب کا ذمہ دار صرف ایک چِٹھی ہی توہے۔ویسے
بھی بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ کوئلے کے کاروبار میں ہاتھ تو کالے ہوتے ہی
ہیں۔ غم کی بات نہیں کیونکہ اس ملک میں تو حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہی رہتی
ہیں۔ پھر الیکشن ہوگا اور پھر کوئی اس عہدے پر فائز ہوگا مگر کب تک یہ
بتانا ممکن نہیں!
میں کوشش کرتا ہوں کہ یہ اداریہ روایتی نہ ہو تاکہ پڑھنے والے بوریت کا
شکار ہو جائیں، دل میں ایک خیال سا آیا ہے کہ اس چِٹھی کی منفی پہلو کے
ساتھ ساتھ اس چِٹھی نے جو گل کھلائی ہیں اس پر بھی تبصرہ کروں! ویسے بھی یہ
باتیں کوئی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں لکھوانے والی تو ہیں نہیں کہ ایک
حاضر سروس وزیراعظم کو سزا ہوگئی، گو کہ یہ ایک انوکھا واقعہ ہے ۔
کس بات پر فخر کیا جائے، اور کس بات پر افسوس! دونوں صورتوں میں ملک کی ہی
بدنامی ہوگی۔ اس لئے یہ ارادہ بھی تخیلِ خیالات کی نظر کرنا بہتر ہے۔میرے
خیال میں اس معاملے کو بھلا کر کوئی نیا کاروبار شروع کیا جائے تو ہی یہ
قصہ تمام ہو سکے گا۔ اب تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نئے وزیراعظم راجہ
پرویز اشرف صاحب اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھا چکے ہیں۔ اور ان کی کابینہ بھی
فرق صرف اتنا ہے کہ ملتان کا گیلانی اس ساری کہانی میں موجود نہیں۔اور
پوٹھوہار کے نئے وزیراعظم صاحب اپنے اتحادیوں کے مرکزی دفتروں کے دورے بھی
کر رہے ہیں۔ اچھی بات ہے مگر ساتھ ہی ساتھ عوامی مسائل حل ہوئے تو شاید نئے
وزیراعظم صاحب اپنا وقت پورا کر لیں ورنہ ان کیلئے بھی وقت گزارنا مشکل ہو
جائے گا۔ اور پھر چِٹھی کی کہانی بھی تو ان کے سَر پر منڈلارہی ہے۔ وہ کسی
بھی وقت ان کیلئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ ابھی تو شروعات کے دن ہیںنئی نئی
گاڑیاں، نیا اسکواڈ، وزیراعظم ہاﺅس، اور نہ جانے کیا کیا مگر ہوشیار راجہ
صاحب آپ کے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ بہت سخت!سب سے اہم مسئلہ بجلی کی لوڈ
شیڈنگ اور امن و امان کا درپیش ہے اگر اس پر قابو پا لیا تو وارے نیارے!
ورنہ آپ سمجھدار ہیں ۔۔۔۔
بجلی کا تو یہ حال ہے کہ رات کو دورکبھی کبھی اگر بلب روشن دکھائی دے تو
عوام ان کو جگنو سمجھ لیتے ہیں، اندھیری راتوں میں تو چوروں کی بن آئی ہے
کوئی دن ایسا نہیں کہ آٹھ دس چوری، ڈاکہ کا حال نہ سنا جائے ۔دیکھئے میں
پھر کہہ رہا ہوں کہ آپ کی صحت و سلامتی اور عزت و وقار کی دعا کر رہا ہوں
مگر ہوشیار رہیئے گا اور” چِٹھی“کو مت بھولیئے گا کیونکہ آپ بھول گئے تو
ہمارے ملک میں یاد دلانے والے بہت لوگ ہیں۔ اور اگر کوئی نہیں کہتا تو
عدلیہ آزاد ہے میرے بھائی!بس اب تو یہ دل چاہ رہا ہے کہ چِٹھی کوآپ بھول
جائیں اور پیٹ بھر کر آم کھائیں کیونکہ آموں کا سیزن بھی چل رہا ہے ۔ طاقت
پائیں گے تو کچھ کام سکیں گے آپ؟ مگر یہ یاد رہے کہ رغبت ہو نہ ہو ، معدے
میں زیادہ آموں کی گنجائش ہو نہ ہو، نہار منہ آم مت کھایئے گا ۔ بے تکلف
عرض کرتا ہوں اتنے ہی آم کھایئے گا جتنا پیٹ میں سما سکے۔ کیونکہ ابھی آپ
کو بہت سارے کام کرنے ہیں۔ اور ان سب کے ساتھ تلوار کی طرح لٹک رہی ہے آپ
کے سر پر چِٹھی جناب!
ویسے مشاہدے کے طور پر چند مفید مشورے شاملِ مضمون کرتے ہیں کہ سوئس بینک
والے آج تک آپ کے خط کا انتظار کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ خط کا جواب تو اس
وقت لکھا جائے گا جب خط آئے گا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ اسی انتظار میں رہوں گا
۔ لہٰذا راجہ صاحب بالغ اور عاقل ہیں اور صدر صاحب کو احوالِ خط کی رپورٹ
سنا سکتے ہیں۔ کیا عجب ہوگا کہ راجہ کا راج ، راجہ کے پاس ہی رہے اور خط
بھی نہ لکھنا پڑے۔ اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ خط لکھنے میں فساد کا احتمال
ہے۔ ویسے یہ بھی کر سکتے ہیں کہ خط لکھ دیں اور جنرل پوسٹ آفس والے اس خط
کو مخصوص ٹھکانے تک نہ پہنچائیں جیسا کہ آج کل ہماری جی،پی،او کا حال
ہے۔تردد عبث آپ سمجھئے کہ آپ کا مکان ڈاک گھر کے قریب اور ڈاک منشی آپ کا
دوست ہے نہ عرف لکھنے کی حاجت نہ محلہ کی حاجت ، بے وسواس خط بھیج دیا جائے
۔ پہنچ گیا تو جواب مل ہی جائے گاورنہ اللہ اللہ خیر سلّہ۔
آج پوری قوم کی عجیب کیفیت ہے ۔ ہر کوئی ذہنی انتشار میں مبتلا ہے اس ایک
ادنیٰ سے خط کو لیکر۔ مقصد کسی کے پیش نظر خدمت نہیں بلکہ سب کچھ حاصل کر
لینا ہے جبکہ ملک کو ضرورت ہے بے لوث محبان وطن کی۔ جو ملک کے مفاد میں
اپنا سب کچھ لٹا کر ہر مصیبت کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوں ایسے لوگوں کی
ہر جگہ کمی ہے اسی لئے بے مقصد بحث چھڑی ہوئی ہے اور اسی لئے ہمارے
سیاستدان کسی ایک ایجنڈے پر متفق نہیں ہو پا رہے ہیں جو کہ خود کو بڑا
پابند اصول و ضوابط ثابت کرتے رہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ خط (چِٹھی) کا
معاملہ اتفاق سے حل نہ سکے گا کیونکہ اندیشہ ہے کہ اس سے پارٹیوں کا اتحاد
ٹوٹے گا اور انتشار اور اضطراب بڑھے گا جناب!
عدلیہ اور حکومتِ پاکستان کے درمیان 30ماہ سے جاری شدید قانونی لڑائی ختم
ہو گئی ہے کیونکہ گیلانی صاحب کو عدلیہ نے گھر بھیج دیا ہے۔ مگر اس فیصلے
کے بعد سیاسی اُتھل پتھل اور بحران میں شدت پیدا ہونے کا اندیشہ پیدا ہو
گیا ہے۔ پاکستان کی جمہوری ، سیاسی اور قومی صورتحال پر نظر رکھنا صدرِ
محترم جناب آصف علی زرداری صاحب کی ذمہ داری ہے کیونکہ کہ اپوزیشن نے موقع
سے فائدہ اٹھا کر اپنا سیاسی وزن بڑھانے کی مہم شروع کر دی ہے۔ ایک
وزیراعظم کو تو آپ نے ایوانِ صدر میں رہائیش عطا کر دی ہے مگر کتنوں کو
ایوانِ صدر میں جگہ عنایت کریں گے یہ بھی سوچنا آپ ہی کے ذمہ ہے اور چِٹھی
کا معاملہ بھی آپ ہی سے جُڑا ہوا ہے نا! اس لئے محتاط رہیئے گا جناب۔
ہم تو جناب صرف دعا ہی کر سکتے ہیں اور قلم کی طاقت کو لفظوں میں پرو کر آپ
تک اور باشعور پاکستانی عوام تک پہنچانے کی جسارت ہی کر سکتے ہیں جو کر
دیا۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہ خدا ئے بزرگ و برتر ہمارے ملک پر رحم
فرمائے۔ ہمارے ملک کے حالات پر اور نیم مردہ جمہوریت پر رحم فرمائے۔ آمین |