تحریر : مفتی منصور احمد
زندگی میں کئی مرتبہ آدمی کو ایسی خبریں سننی پڑتی ہیں کہ وہ فیصلہ نہیں کر
پاتا کہ ان میں سے زیادہ المناک اور زیادہ افسوسناک کونسی خبر ہے۔ ایسی ہی
ایک خبرگزشتہ دنوں ہم نے اس وقت سنی، جب یہ افواہ عام ہو گئی کہ امریکہ کی
جیل میں قید امت مسلمہ کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی شہادت پا گئی ہیں۔ یہ خبر
بالکل جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور ہر حساس دل رکھنے والے، غیرت مند مسلمان
کو مغموم اور افسردہ کر گئی۔
اگلے دن قومی اخبارات نے امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے کے ذرائع سے اس
خبر کی تردید کی اور کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی زندہ اور بقید حیات ہیں مزید
یہ کہ پاکستانی قونصل خانے کے افراد مسلسل ان سے رابطے میں رہتے ہیں۔ میں
نے جب یہ خبر پڑھی تو اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے دوست کو کہا کہ افسوس ! یہ بھی
کوئی خوشخبری نہیں، صدمے اور کرب ہی کی بات ہے۔ البتہ میں یہ فیصلہ نہیں کر
سکتا کہ مجھے زیادہ صدمہ پہلی خبر سے پہنچا یا اس خبر سے؟
ہمارے قوم کے جسدِ ملّی کو اس وقت کئی گھناؤنی بیماریاں لگی ہوئی ہیں
اوراسے دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ دانشورانِ قوم ان بیماریوں کی تشخیص بھی
کرتے رہتے ہیں اور علاج بھی تجویز کرتے رہتے ہیں۔ ان بیماریوں میں سے ایک
خطرناک ترین بیماری یہ ہے کہ ہم بہت جلد ہر حادثے اور واقعے کو بھلا ڈالتے
ہیں اور ایسے واقعات اور حادثات جس سے پوری قوم کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے
ہم ان کے ساتھ بھی ’’ مٹی پاؤ ‘‘ والا معاملہ کرتے ہیں۔ یہ طرز عمل قوموں
کے لئے افسوسناک ہی نہیں تباہ کن بھی ہے۔
سانحۂ لال مسجد کو بھی ابھی صرف چند سال ہی گزرے ہیں لیکن سپریم کورٹ کی
ایک عدد پٹیشن کے علاوہ یہ تاریخی سانحہ بھی رفتہ رفتہ قوم کے ذہنوں سے محو
ہوتا جا رہا ہے۔ یہ اس قدر خوفناک ظلم تھا کہ پاکستان کی تاریخ تو کیا،
صدیوں کی تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ نئی حکومت
آتے ہی متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھا جاتا اور ان درندہ صفت اہلکاروں اور
حکمرانوں کو مثال عبرت بنا دیا جاتا، جو اس ظلم و ستم میں شریک تھے لیکن
عملًا کیا ہوا کہ آج بھی سپریم کورٹ میں حکومتی نمائندوں کی ایک ہی رٹ ہے
کہ وہ ’’دہشت گرد ‘‘ تھے۔ کوئی ثبوت نہ کوئی گواہی ، بس ساری دنیا سے یہی
چاہتے ہیں کہ ان کو ’’ دہشت گرد ‘‘ مان لیا جائے کہ ’’ مستند ہے میرا
فرمایا ہوا ‘‘
پھر جن کے پیارے جام شہادت نوش فرما گئے وہ تو اب اس دن کے منتظر ہیں کہ جب
’’ چپ رہے گی زبانِ خنجر تو لہو پکارے گا آستیں کا ‘‘ کا معاملہ ہو گا۔ جب
اصل ’’ سپریم کورٹ ‘‘ میں حاضری ہو گی اور وہاں یقینا انصاف ہو گا لیکن وہ
ماں، باپ اور عزیز و اقارب کدھر جائیں، جن کے پیاروں کا آج تک کچھ پتہ ہی
نہیں ہے کہ وہ برسر زمین ہیں یا زیر زمین؟ ان سے ملنے کی آس لگا کر جینے
والے اب مزید حوصلہ رکھیں یا اپنی امیدوں کو بھی کسی ایسی ہی گم نام قبر
میں دفن کر دیں جیسے ان کے خونی رشتے دار گم نام مقبروں میں جا سوئے ہیں۔
ادھر آج کل برما کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم نے ہلاکو خان اور چنگیز
خان کی سفاک یادیں تازہ کر دی ہیں۔ برما ﴿ میانمار ﴾ کی جمہوری خاتون
راہنما تو پوری دنیا میں وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ دورے کر رہی ہے لیکن
بڈھسٹ دہشت گردوں اور مقامی افواج کے ہاتھوں زندہ نذر آتش کئے جانے والے بے
یارومددگار اھلِ ایمان کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اپنوں کے مظالم سے ستائے ہوئے
یہ بے بس جب پناہ لینے کے لئے کسی طرح جان بچا کر بنگلہ دیش یا انڈونیشیا
جا پہنچتے ہیں تو وہاں کی فورسز ان پر اپنا غصہ نکالتی ہیں۔ ’’ اوہنگیا ‘‘
کے ان ستم رسیدہ کلمہ گو مسلمانوں کی لہو لہو داستان کوئی نئی نہیں لیکن
قتل عام کی تازہ لہر نے سب کو تڑپا کر رکھ دیا ہے۔
افسوس کہ آج امت مسلمہ کی مثال درندوں کے درمیان پڑی ہوئی اس لاش کی سی ہے
جسے وہ بھنبوڑ بھی رہے ہیں اور نوچ بھی رہے ہیں کوئی ان وحشی درندوں کو
روکنے والا نہیں، کوئی ان سے پوچھنے والانہیں۔ لیکن ایک مسلمان ہونے کے
ناطہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ امت ہمیشہ سے ایسی لاوارث نہیں تھی۔ اس کے
ایک فرد سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مشرکین مکہ کے ہاتھوں شہادت
کی افواہ پر رحمت دو عالم ö نے اپنے ہمراہ آنے والے تقریباً چودہ سو صحابہ
کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین سے موت پر بیعت لی اور یہ بیعت اللہ
تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ فوراً ہی قرآن مجید میں ان تمام شرکائ بیعت کے
لئے بارگاہ الہی سے پروانۂ رضامندی جاری ہو گیا۔ اسی لئے اس بیعت کا نام
’’ بیعت رضوان ‘‘ ہے۔
حدیبیہ کے مقام پر پیش آنے والے اس واقعہ کے ذریعے امت مسلمہ کو قیامت تک
کے لئے یہ سمجھا دیا کہ ایک ایک مسلمان کتنا قیمتی ہے اور مسلمانوں کو اپنے
ایک ایک فرد کی حفاظت کیسے کرنی چاہیے۔ جب تک مسلمان اس مسئلے پر عمل پیرا
رہے، دنیا بھر میں اہل ایمان عزت و وقار اور تحفظ کے احساس کے ساتھ زندگی
گزارتے تھے۔
غزوہ بنی قینقاع ایک مسلمان خاتون کی بے حرمتی کا انتقام لینے کے لئے پیش
آیا۔ محمد بن قاسم (رح) چند قیدی خواتین کے لئے عرب سے سندھ پر حملہ آور
ہوئے اور اسی سرزمین کو دارالاسلام بنا دیا۔ معتصم باللہ عباسی کا واقعہ تو
بہت ہی مشہور ہے کہ جب اسے شاہِ روم کے ہاں ایک قیدی مسلمان خاتون کا پتہ
چلا جو مدد کے لئے اس کو پکار رہی ہے اور’’ وامعتصماہ ‘‘ کہہ رہی ہے تو
دینی حمیت و غیرت کی بنائ پر اسے اتنا جوش آیا کہ وہ اپنے تخت سے اترآیا
اور بار بار کہتا ’’ لبیک یا بنتی ‘‘ لبیک یا بنتی ‘‘ ﴿ اے میری بیٹی ! میں
حاضر ہوں ﴾ اور پھر جب تک اسے دشمن کی قید سے رہا نہیں کر والیا، آرام سے
نہیں بیٹھا۔
یہ تو ہماری تاریخ کے جگمگاتے صفحات ہیں، جنہیں فراموش کرنے کی وجہ سے ڈر
یہ ہے کہ کہیں ہم سب علمائ ، حکام، تاجر، اور تمام طبقات قیامت کے دن ان
مظلوم مسلمانوں کے مجرم نہ اٹھائے جائیں۔ ماضی قریب کا واقعہ ہے کہ شیر شاہ
سوری کے عہد میں رائے سین کے راجہ نے بعض مسلمانوں کو گرفتار کر کے ان کے
بیوی بچوں کو غلام بنا لیا اور جو ان عورتوں کو اپنے دربار میں رقص کی خدمت
پر مامور کیا۔ شیر شاہ سوری نے اس جرم کی پاداش میں اس راجہ کو عبرتناک
شکست دے کر اس کی ریاست پر قبضہ کر لیا اور راجہ کی شاہی خواتین سے وہ ہی
خدمت لی جو اس نے مسلمان زادیوں سے لی تھی۔
ہمارے حکمران ہی نہیں دیگر ذمہ دار طبقات بھی نجانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں
ورنہ اپنے افراد کی زندگیوں کی حفاظت اور ان کی عزت و ناموس کا تحفظ صرف
مسلمان ہی نہیں، دنیا کی ہر غیرت مند قوم اپنا فرض سمجھتی ہے۔
یہ پہلی جنگ عظیم سے تھوڑا عرصہ پہلے کی بات ہے۔ ایران ان دنوں برطانیہ
اورروس کے خلاف سرگرمیوں کا بڑا مرکز تھا۔ ایرانیوں نے جب انگریزوں کے خلاف
ذرا تیزی دکھائی تو لندن کے مشہور اخبار ’’ ٹائمز ‘‘ نے انہیں خبردار کرتے
ہوئے لکھا:
’’ ایرانیوں کو ہوش و خرد سے کام لینا چاہیے۔ اگر اس جدوجہد میں کسی ایک
انگریز کا ایک بال بھی بیکا ہوا تو تمام ایران کو ختم کر دیا جائے گا۔
انگریز کے خون کا ایک قطرہ پوری ایرانی قوم کے خون سے زیادہ قیمتی ہے۔‘‘
اسی طرح 1848ئ میں فان اگینو اور اینڈرسن نامی دو انگریز ملتان کے قلعے کا
چارج لینے گئے تو وہاں کے حاکم دیوان مول راج کے سپاہیوں نے ان کو مہلک طور
پر زخمی کر دیا لیکن مرنے سے پہلے انہوں نے وہاں کے حکمران سکھوں کو خبردار
کرتے ہوئے کہا:
’’ یہ مت سمجھو کہ ہم اکیلے ہیں۔ ہماری قوم کے لوگ ہمارے قتل کا بدلہ لینے
کے لئے جلد یہاں پہنچ جائیں گے اور تمہاری سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں
گے ‘‘۔
ان مرنے والوں کا گمان غلط نہ تھا۔ ایسا ہی ہوا کہ انگریزوں نے اس قتل کے
بدلے سکھوں کے سب دم خم نکال دئیے اور پنجاب کو فتح کر کے اپنی سلطنت میں
شامل کر لیا۔
اسی سلسلے کا ایک اور دلچسپ اور چشم کشا واقعہ کتابوں میں لکھا ہے کہ 1842ئ
میں لارڈ پارسٹن برطانیہ کا وزیر خارجہ تھا۔ اسی زمانے میں ایک انگریز تاجر
یونان میں مقیم تھا۔ اس تاجر کے ساتھ حکومت یونان کا کچھ تنازعہ پیدا ہو
گیا اور حکومت اس کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آئی۔ اس کا کچھ سامان بھی بحق
سرکار ضبط کر لیا گیا۔ ادھر برطانوی وزیر خارجہ پامر سٹن کو جب یہ سب پتہ
چلا تو اس نے حکومت یونان کو وارننگ دیتے ہوئے کہا:
’’ اگر حکومت یونان انگریز تاجر کے نقصان کی فوری تلافی نہیں کرے گی تو اس
کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جائے گا‘‘۔
حکومت یونان نے فوراً اس انگریز تاجر کا تمام سامان واپس کر دیا، تب
پامرسٹن نے سرکاری بیان جاری کیا:
’’ میں تمام دنیا میں انگریز قوم کے وقار کو قائم کرنا چاہتا ہوں اور یہ
دکھانا چاہتا ہوں کہ انگریز کا بچہ خواہ وہ دنیا کے کسی حصے میں کیوں نہ
ہو، اس کی طرف کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا‘‘۔
کاش کہ آج امت مسلمہ کو بھی کوئی ایسا حکمران نصیب ہو جو ساری دنیا کو بتا
سکے کہ مسلمان لاوارث نہیں ہیں۔ کفار کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں
برداشت کرنے والی مائیں بہنیں ، آج امت مسلمہ کی غیرت و حمیت پر سوالیہ
نشان ہیں۔ نجانے وہ تنہائیوں میں کس کرب کے ساتھ محمد بن قاسم (رح)، صلاح
الدین ایوبی (رح) ، معتصم باللہ، اور شیر شاہ سوری جیسے مسلمان حکمرانوں کو
یاد کرتی ہوں گی۔ ان بلندوبالا دیواروں کے پیچھے کون جا کر انہیں بتائے کہ
اب تو پاکستان میں ان کی عزت و ناموس کی تحفظ کی بات کرنا بھی جرم ہے۔
ہمارے دانشوروں کے نزدیک تو ان بے کس خواتین کی رہائی کے لئے عملی کوششیں
کرنا بھی دہشت گردی ہے۔
ہاں ! ہم ’’ پرویزیوں ‘‘ کے دور میں جی رہے ہیں، جہاں پرویز مشرف سے پرویز
اشرف تک ہر حکمران جونک بن کر قوم کا خون چوس رہا ہے اور قومی خزانے میں
لوٹ مار کے نت نئے منصوبے بنا رہا ہے۔ کاش ! امت مسلمہ کے حکمران نہ سہی،
علمائ، تاجر، پروفیسر، صحافی اور دیگر زندگی کے عملی شعبوں سے تعلق رکھنے
والے ہی اس غم ، درد اور کڑھن کو محسوس کر لیں تو مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ
اندھیروں میں امیدوں کے چراغ روشن ہو سکتے ہیں۔ یاد رکھیں! یہ ہر مسلمان کا
فرض بھی ہے اور اس پر قرض بھی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بے حمیتی، بے غیرتی اور بے حسی کی زندگی سے بچائے۔ ﴿ آمین
ثم آمین ﴾
٭.٭.٭ |