مصر کے صدارتی انتخاب میں ڈاکٹر
محمد مورسی کی تاریخی فتح اور اس کےخلاف فوجی کونسل کی گھناؤنی سازشیں
فرعون و کلیم کا معرکہ یاد دلاتی ہیں ۔ مصرکی قدیم تاریخ کے اس پہلو کا
بیان قرآنِ عظیم میں کئی مقامات پر ہے۔ سورۂ اعراف کی آیات موجودہ حالات
و واقعات پر اس طرح منطبق ہوتی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ۔ حسنی مبارک ہنوز بستر
مرگ پر ایڑیاں رگڑ رہا ہے جنرل طنطاوی اور اس کے حواری ان مناظر کو اپنی
آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن اس سے عبرت نہیں پکڑتے ارشاد ربانی ہے :
کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے
خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہل زمین
کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اِس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر
ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں؟ اور ہم ان کے دلوں پر مہر
لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے (۹۹۔۱۰۰)
اس تمہید کے بعد قصۂ فرعون و کلیم بیان ہوتا ہے ۔ ان آیات کو پڑھتے وقت
گزشتہ سال رونما ہونے والے واقعات کو اپنی نظروں کے سامنے رکھیے ۔ کس عزم و
استقلال کا مظاہرہ مصر کی عوام نے کیا تھا۔ کس طرح وہ ظالم قوتوں کے آگے
سینہ سپر ہو گئے تھے۔ ان کی جانب سے کئے جانے والےکسی اکساوے میں نہ آتے
تھے ۔ دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوتے تھے ۔ مبارک کی قومی جماعت کے غنڈوں سے
نہ ڈرتے۔پولس کی لاٹھیوں کا مقابلہ کرتے ۔ گولیوں کو اپنے سینے پر سہتے اور
ٹینکوں کے آگے سرنگوں نہیں ہوتے یہاں تک کہ ظالم و جابرکے نامبارک قدم
اکھاڑ انہوں نے دم لیا ۔ ساری دنیا نے اپنے ٹیلی ویژن کے پردے پر ان حیرت
انگیز مناظرکو چشم ِ زدن سے دیکھا ۔ یہ در اصل اللہ کی نشانیاں تھیں جو
سارے عالم کے سامنے حجت بن گئیں اسی طرح کی نشانیاں جیسی کی حضرتِ موسیٰ ؑ
کوہِ طور سے لے کر آئے تھے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
پھر اُن قوموں کے بعد ہم نے موسیٰؑ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس
کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا مگر انہوں نے بھی ہماری نشانیوں کے ساتھ
ظلم کیا، پس دیکھو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔موسیٰؑ نے کہا ‘‘اے
فرعون، میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہو ں۔میرا منصب یہی ہے
کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں، میں تم لوگوں کے پاس
تمہارے رب کی طرف سے صریح دلیل ماموریت لے کر آیا ہوں، لہٰذا تو بنی
اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے’’ فرعون نے کہا ‘‘اگر تو کوئی نشانی لایا ہے
اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر’’موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا اور
یکا یک وہ ایک جیتا جاگتا اژدہا تھا ۔اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب
دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا (۱۰۳ ۔۱۰۸)
نشا نیوں کا مطالبہ خود فرعون نے کیا تھا اور حضرتِ موسی ٰ ؑ نے عقل کو
عاجز کردینے والے معجزات پیش فرمائے ۔ اس کانتیجہ تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ
فرعون ان کو بسرو چشم قبول کر لیتا ۔اپنی خدائی کے دعویٰ سے دستبردار ہو
جاتا اورکائنات کے مالک کے آگے جھک جاتا ۔ اللہ رب العزت کی جانب سے مامور
نبی کا ہمنوا بن جاتا یا کم از کم بنی اسرائیل کو حرتتِ موسیٰ ؑ کے ساتھ
جانے کی اجازت دے دیتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیوں نہیں ہوا اسکی وجہ قرآنِ
مجید میں خود فرعون کی زبانی بیان ہوئی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ جس چیز نے فرعون
اور اس کے سرداروں کو حق قبول کرنے سے روکا تھا وہی شہ مصر کے فوجی
حکمرانوں کے پیروں کی زنجیر بنی ہوئی ہے :
ا س پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ ‘‘یقیناً یہ شخص بڑا
ماہر جادو گر ہے ۔تمہیں تمہاری زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے، اب کہو کیا
کہتے ہو؟’’(۱۰۹ ۔۱۱۰)
اقتدار کے اپنے ہاتھوں سے نکل جانے کا خوف رکاوٹ بن گیا۔برسوں سے عوام کا
استحصال کرتے ہوئے عیش و عشرت کی زندگی کے خاتمہ کا خوف ۔ عوام پر من مانے
مظالم کرنے کے جو چھوٹ حاصل ہے اس سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خطرہ ۔دشمنوں کی
پناہ میں شتربے مہار کی سی زندگی اور اپنے ہی بھائیوں کا ناحق خون بہانے کے
جو جرائم سرزد ہو چکے تھے اس لہو کے قصاص کا ڈر ۔کل کو عوام اگر احتساب
مانگنے کے لئے کھڑی ہو جائے تو ان کے سامنے جوابدہی کا کھٹکا ۔ یہی چیزیں
ہیں جو حکمرانوں سے یہ کہلواتی ہیں کہ تمہیں تمہاری زمین سے بے دخل کر دے
گا ۔ اقتدار سے محروم کر کے آسمان سے زمین پر لے آئیگا ۔
تحریر چوک پر گزشتہ سال جو مظاہرے ہوئے تھے وہ محض ایک فرد کے خلاف نہیں
بلکہ اس پورے فوجی ٹولے کے خلاف تھے جو عرصۂ دراز سے مصر کے اقتدار پر
غاصبانہ قبضہ کئے بیٹھا تھا ۔ حسنی مبارک تو بس ان کا سرغنہ اور ایک علامت
تھا لیکن مسلح افواج کے سربراہ اور ملک کی مقتدر عسکری کونسل کے چیف فیلڈ
مارشل جنرل محمد حسین طنطاوی نے جب یہ دیکھا کہ اب عوام کسی صورت ماننے
والی نہیں ہے تو موقع غنیمت جان کر اپنے ہی محسن و کرم فرماکے مخالف ہو گئے
، بیس سال تک حسنی مبارک کی وزیر دفاع کی حیثیت سے چاکری کرنے والے اور اس
ہر ظلم میں اس کے شانہ بشانہ شریک رہنے والا اچانک عوام کا ہمدرد بن گیا ۔
جنرل طنطاوی کو پتہ تھا کہ حسنی مبارک اپنے بیٹے جمال مبارک اقتدار سونپنے
کے چکر میں ہے اور اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اقتدار کی باگ ڈور
کبھی بھی انکے ہاتھ میں نہیں آئیگی ۔ اس لئے انہوں نے مگر مچھ کے آنسو
بہانہ شروع کردئیے۔ عوام کے خلاف طاقت کے استعمال سے انکار کردیا اور
انتخاب کروا کرعوام کے نمائندوں کو اقتدار سونپ دینے کا وعدہ کر دیا
۔بیچارے بھولے بھالے مظاہرین اس جعلساز کےجھانسے میں آ گئے ۔
محمد حسین طنطاوی اور ان کے حواریوں کو پتہ تھا عرصہ ٔ دراز کے بعد جب عوام
کو اظہارِ رائے کی آزادی ملے گی تو بیسیوں جماعتیں اور افراد انتخابی
میدان میں کود پڑیں گے ۔ عوام اتحاد پارہ پارہ ہو جائیگا ۔ پچاس فیصد
نمائندوں کا تعلق کسی جماعت سے نہیں ہوگا اور انہیں آسانی سے خریدا جاسکے
گا ۔ اس انتشار کا فائدہ اٹھا کر وہ اقتدار پر اپنی پکڑ مضبوط کرلینگے ۔
اپنے کسی پٹھو کو وزیر اعظم بنوا دیں گے جو ان کے اشارے پر اچھلتا کودتا
رہیگا عوام بہل جائیں گے پر مراعات کی بوچھار کرکے خواص کو ہمنوا بنا لیا
جائیگا ۔انقلاب کے سحر کو توڑنے کیلئے انتخاب کے جادو کو استعمال کرنے کا
فرعونی منصوبہ فوجی حکمرانوں خود بنایا جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
پھر اُن سب نے فرعون کو مشورہ دیا کہ اسے اور اس کے بھائی کو انتظار میں
رکھیے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیے۔کہ ہر ماہر فن جادوگر کو آپ کے
پاس لے آئیں ۔چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آ گئے اُنہوں نے کہا‘‘اگر ہم غالب
رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا؟’’فرعون نے جواب دیا ‘‘ہاں، اور تم
مقرب بارگاہ ہو گے’’۔(۱۱۱ ۔ ۱۱۲)
عوام کے نمائندوں کو اپنا مقرب بنا کر ان کی آڑ میں اپنا اقتدار محفوظ
کرنے کا یہ ناپاک منصوبہ تھا لیکن جب کھیل ختم ہوا تو بازی الٹ گئی اور وہ
نتائج سامنے آگئے جو فرعون کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھے ۔جس عوام کی
مدد سے فوجی حکمراں انقلاب کی ہوا نکال دینا چاہتے تھے اسی عوام نے فوجیوں
کی ہوا اکھاڑ دی ۔ عوام نے ایسے لوگوں کا انتخاب کے بھیج دیا کہ جو نہ بک
سکتے تھے اور جھک سکتے تھے ۔پارلیمانی انتخاب کے بعد فوجی ٹولہ جس بد حواسی
کا شکار ہوا وہ فرعون کو لاحق پریشانی جیسی ہی تھی :
پھر اُنہوں نے موسیٰؑ سے کہا ‘‘تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں؟’’ موسیٰؑ نے
جواب دیا ‘‘تم ہی پھینکو’’ انہوں نے جو اپنے آنچھر پھینکے تو نگاہوں کو
مسحور اور دلوں کو خوف زدہ کر دیا اور بڑا ہی زبردست جادو بنا لائے۔ہم نے
موسیٰؑ کو اشارہ کیا کہ پھینک اپنا عصا اس کا پھینکنا تھا کہ آن کی آن میں
وہ ان کے اس جھوٹے طلسم کو نگلتا چلا گیا۔اس طرح جو حق تھا وہ حق ثابت ہوا
اور جو کچھ اُنہوں نے بنا رکھا تھا وہ باطل ہو کر رہ گیا۔فرعون اور اس کے
ساتھی میدان مقابلہ میں مغلوب ہوئے اور (فتح مند ہونے کے بجائے) الٹے ذلیل
ہو گئے ۔اور جادوگروں کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے انہیں سجدے
میں گرا دیا۔کہنے لگے ‘‘ہم نے مان لیا رب العالمین کواُس رب کو جسے موسیٰؑ
اور ہارونؑ مانتے ہیں’’(۱۱۵ ۔ ۱۲۲)
جادو کےمقابلہ کومنعقد کرنے کا فیصلہ کسی اور نے نہیں خود فرعون نے کیا تھا
۔جادوگر فرعون کی ایماء پر بلائے گئے تھے ۔ کامیابی کی صورت میں انہیں اپنا
مقرب بنانے کا وعدہ فرعون کا تھا ۔ اب اسے چاہئے تھا کہ اس کا جو بھی نتیجہ
سامنے آتا اسے خندہ پیشانی سے قبول کر لیتا لیکن خود سر حکمراں آج سے چار
ہزار سال پرانے ہوں یا چار سو دن پرانے انہوں نے کب اپنے عہد کی پاسدار ی
کی ہے ۔ اقتدار کی باگ ڈور اس کے حقداروں کو سونپنےکیلئے وہ نہ صدیوں پہلے
آسانی سے راضی ہوتےتھے اور نہ اب ہوتے ہیں ۔وہی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی جس کا
مظاہرہ کسی زمانے فرعون نے کیا تھا آج مصری حکمران کررہے ہیں یقین نہ آتا
ہو تو آیات قرآنی دیکھئے :
فرعون نے کہا ‘‘تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں؟
یقیناً یہ کوئی خفیہ ساز ش تھی جو تم لوگوں نے اس دارالسلطنت میں کی تاکہ
اس کے مالکوں کو اقتدار سے بے دخل کر دو اچھا توا س کا نتیجہ اب تمہیں
معلوم ہوا جاتا ہے ۔میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا اور
اس کے بعد تم سب کو سولی پر چڑھاؤں گا’’ (۱۲۳ ۔ ۱۲۴)
اس مرحلے میں فرعون اقتدار سے بے دخلی کا صاف اندیشہ ظاہر کرتا ہے اور
دھونس دھمکی پر اتر آتا ہے ۔مصری فوجی ٹولے کو بھی گزشتہ سال کے پارلیمانی
انتخابات سے قبل ہی اندیشہ لاحق ہو گیا تو انہوں نے دستوری تر میمات کے
ذریعہ بننے والی پارلیمان کے ہاتھ پیر دونوں سمتوں سے کاٹنے شروع کر دئیے ۔
پچھلے سال جون میں جو دستوری ترمیمات ہوئیں اور جن کے خلاف عوام کو دوبارہ
تحریر چوک آنا پڑا ۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اس دراندازی کے خلاف صدائے
احتجاج بلند کیا ۔ غیر سرکاری ادارے میدان عمل میں کود پڑے ۔عوام پھر ایک
بار اپنے حقوق کیلئے سینہ سپر ہوگئے اورجنرل سالم کی پیش کردہ ترمیمات کوجن
میں سارے اختیارات عوامی نمائندوں سے چھین کر فوجی کونسل کے حوالے کر دئیے
گئے تھے مسترد کر دیا گیا ۔ جادوگروں کا پائے استقلال اور سرفروش مصری عوام
کے صبر استقامت میں بلا کی مشابہت نظر آتی ہے کلام ربانی ہے :
انہوں نے جواب دیا ‘‘بہر حال ہمیں پلٹنا اپنے رب ہی کی طرف ہے۔تو جس بات پر
ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں
جب ہمارے سامنے آ گئیں تو ہم نے انہیں مان لیا اے رب، ہم پر صبر کا فیضان
کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اِس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں’’(۱۲۵
۔ ۱۲۶)
پارلیمانی انتخاب کے بعد صدارتی انتخاب کا مرحلہ تھا ۔ اخوان چونکہ اعلان
کرچکی تھی کہ اسے اس عہدے میں دلچسپی نہیں ہے ۔ اس لئے فوجیوں نے چین کا
سانس لیا تھا ۔انہیں توقع تھی کہ جو بھی نرم چارہ صدر بنے گا وہ اسے کٹھ
پتلی بنا کروہ اپنی راس لیلا رچائیں گے لیکن جب اخوان کی سمجھ میں یہ چال
آگئی تو انہوں نے اپنے امیدوار کا اعلان کر دیا ۔ اب کیا تھا جو لوگ
اقتدار کو دانتوں سے پکڑے ہوئے تھے انہوں نے اخوان کو اقتدار کا حریص قرار
دینا شروع کر دیا جن کی بد عہدیاں تمام حدود و قیود سے تجاوزکررہی تھیں
انہوں نے تحریک اسلامی پر بد عہدی کا الزام جڑ دیا ۔ڈاکٹرمحمد مورسی باطل
کی آنکھ کا کانٹا بن گئے
دفعتہً جس سے بدل جاتی ہے تقدیر امم
ہے وہ قوت کہ حریف اس کی نہیں عقل حکیم
ہر زمانے میں دگر گوں ہے طبیعت اس کی
کبھی شمشیر محمد ہے ، کبھی چوب کلیم!
کیا خود اپنے بارے میں کئے گئے فیصلہ پر نظر ِ ثانی کوئی جرم یا وعدہ خلافی
ہے لیکن خیر صدارتی انتخاب کے پہلے مر حلے میں سب سے زیادہ رائے اخوانی
رہنما محمد مورسی کے حق میں آگئیں اور اس بات کا امکان بڑھ گیا کہ وہ
سیدھے مقابلے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے تو فوجی کونسل نے وہ کیا جو شاید
فرعون بھی نہ کرتا ۔ اس نے خود اپنے اجازت نامہ کے خلاف عدالت سے رجوع کر
دیا اور زر خرید عدالت نے ایوانِ زیریں کو تحلیل کر نے کا فیصلہ سنادیا ۔
عدالت کا یہ فیصلہ فرعون کے سرداروں کے مندرجہ ذیل اعلان کی مانند تھا جس
میں کہا گیا تھا :
فرعون سے اُس کی قوم کے سرداروں نے کہا ‘‘کیا تو موسیٰؑ اور اُس کی قوم کو
یونہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں
کی بندگی چھوڑ بیٹھے؟‘‘ فرعون نے جواب دیا ‘‘میں اُن کے بیٹوں کو قتل کراؤں
گا اور اُن کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر
مضبوط ہے’’(۱۲۷)
عدالت کے فیصلے نے پارلیمان کو تحلیل کر کے دستوری ترمیم کے سارے حقوق فوجی
کونسل کو سونپ دئے اور جس نے منتخب ہونے والے صدر کے اختیارات پر اس طر ح
شب خون مارا کہ انتخابی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔صدر افواج کا
مشترکہ سربراہ نہیں ہوگا ، وزیر دفاع اس کی نہیں بلکہ فوج کی مرضی سے
آئیگا ۔ وہ فوجی کونسل کی توثیق کے بغیر کوئی فوجی کارروائی نہیں کرے گا ۔
وہ عوامی مزاحمت کی خاطر فوج سے رجوع کرے گا ۔دستور سازی کا اختیار فوجی
کونسل کو حاصل ہوگا ، ججوں کا تقرر فوجی کونسل کریگی تاکہ جج صاحبان ان کی
مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ نہ دیں اور تو اور بجٹ بھی فوجی کونسل بنائے گی۔
جب یہ سب کام فوج کرے گی تو آخرعوام اور اس کا منتخبہ صدرکیا کرے گا ؟ اس
نازک صورتحال میں ڈاکٹر محمد مورسی کے کندھوں پر یہ عظیم ذمہ داری آن پڑی
ہے اور حضرت موسیٰ ؑ کی مندرجہ ذیل نصیحت میں ان کیلئے بشارت بھی ہے و
رہنمائی بھی ۔
موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا ‘‘اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی
ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری
کامیابی متقیوں کیلئے ہے‘‘(اعراف ۱۲۸)
نو منتخبہ صدر کو عصائے موسیٰ سے محروم کرنے کے سارے حربے آزمائے جاچکے
ہیں لیکن ایسا کرنے والے نہیں جاتے کہ یہ معجزہ جس ہستی کی جانب سے عطا
ہوتا ہے اس کے آگے دنیا کی ساری طاقتیں عاجز و مجبور ہیں ۔ مصر کی مسندِ
صدارت پرڈاکٹر محمد مورسی کی پر وقار آمد کا منظر علامہ اقبال کے اس بند
میں ملا حظہ فرمائیے
فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے
ضرب کاری ہے، اگر سینے میں ہے قلب سلیم
اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے
تازہ ہر عہد میں ہے قصۂ فرعون و کلیم |