جماعت اسلامی بھی اقتدار کی سیاست کرتی ہے کیا؟

for Saleem Ullah Shaikh

! بالکل جماعت اسلامی بھی اقتدار کی سیاست کرتی ہے اور لیلائے اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے مروجہ بدنام سیاستدانوں سے زیادہ قلابازیاں کھاتی ہے ۔ بلکہ یہ صالحین کچھ زیادہ ہی بے ضمیراور نظریہ فروش رہے ہیں اور ابھی بھی ہیں۔اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لئے یہ دین فروشی سے باز بھی نہیں آتے۔لیکن لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور پاکستان کے عوام نے دنیا کے لئے دین کے استعمال پر جماعت اسلامی کو ہمیشہ انتخابی میدان میں سزا دی ہے۔

یاد کیجیئے جماعت اسملامی 1943 میں ایسے وقت میں معرض وجود میں لائی گئی جب کہ مسلمان تین سال پہلے سے پاکستان کا مطالبہ کر چکے تھے۔ایسے وقت میں مسلمانوں کے اس مطالبہ کی حمایت کرنے کی بجائے مولانا مودودی نے تحریک پاکستان کی سر توڑ کر مخالفت کی اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے ایجنڈے پر کاربند رہے ۔کیا ان کا فرض نہیں تھا کہ اس مرحلے پر مطالبہ پاکستان کی حمایت کر کے تحریک پاکستان کو کامیاب کرواتے؟؟؟لیکن انہوں نے حمایت تو کیا کرنی الٹا اس کی مخالفت کی اور انہوں نے یہاں تک کہا کہ مسلم لیگی لیڈر اچھے مسلمان نہیں ہیں اور ان کی جدو جہد سے جو مملکت یعنی پاکستان حاصل ہو گا وہ اسلامی مملکت نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہو گی ۔پاکستان بننے کے بعد ہندوستان میں شامل ہونے والے علاقوں سے یہاں آنے والے مسلمانوں کو عرف عام میں مہاجر کے نام سے موسوم کیا گیا۔جس پر ان کا یہ تکلیف دہ فتویٰ سامنے آیا کہ یہ لوگ مہاجر نہیں بلکہ بھگوڑے ہیں۔

پھر قیام پاکستان کے بعد مودودی صاحب نے جب دیکھا کہ مسلمان بھارتی علاقے سے پاکستان میں ہجرت کر رہے ہیں اور اگر وہ پٹھان کوٹ میں رہ گئے تو اکیلے رہ جائیں گے اور ہندوستان میں رہ کر وہ کبھی اقتدار حاصل نہیں کر سکتے تووہ پٹھان کوٹ سے ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔یہ بھی ایک بڑی قلابازی تھی جو اقتدار کے لئے لگائی گئی۔اس وقت کے محب وطن پاکستانی صحافی جماعت اسلامی سے نہیں ڈرتے تھے اس لئے انہوں نے مودودی صاحب سے پوچھا کہ جناب آپ کل تک تومہاجرین کو بھگوڑے قرار دے رہے تھے اب خود وہاں سے پاکستان منتقل ہو گئے ہیں ۔بتائیں اب آپ کو کیا بھگوڑا کہا جائے یا مہاجر؟اس پر ان سے کوئی جواب بن نہیں پڑا ۔یہ رپورٹ اس وقت کے محب وطن اور بہادر صحافیوں نے اخبارات میں لکھیں۔

۱۹۴۸ میں بھارت نے جب کشمیر میں اپنی فوج داخل کی اور کشمیریوں نے اس کی مسلح مزاحمت شروع کی اور قوم نے اس عمل کو جہاد قرار دیاتو مولانا نے اس کو جہاد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔جب کہ اب ان کی جماعت کشمیریوں کی جدوجہد کو جہاد قرار دیتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے اربوں کما کر اپنی تجوریوں میں بھر رہی ہے اور جہاد کو تجارت بنا دیا ہے۔کیا یہ قلا بازی نہیں ہے؟؟؟

پاکستان آکر مودودی صاحب کو یہ تلخ تجربہ ہوا کہ ان کے پاکستان مخالف مؤقف کو لوگ نہیں بھولے اور انہیں تندو تیز سوالات کا اکثر سامنا کرنا پڑتا تھا ۔انہوں نے اندازہ لگایا کہ اگر کثرت رائے کی بنیاد پر اور ون مین ون ووٹ کے اصول کے مطابق انہوں نے انتخابات میں حصہ لیا تو کبھی جیت نہیں سکیں گے اس لئے انہوں نے ،ہاتھ نہ پہنچے تھو کڑوا، کے مصداق فتویٰ دیا کہ انتخابات کا تصورغیر اسلامی ہے۔ اور ہم انقلاب کے ذریعے اسلام لائیں گے۔جس میں ناکامی ہوئی۔اور وقت کے گذرنے کےساتھ جب عوام الانعام کا حافظہ ذرا کمزور ہوا اور وہ مودودی صاحب کی طرف سے پاکستان کی مخالفت کو کسی قدر بھول گئے تواس بارے میں بھی قلابازی کھاتے ہوئے بعد میں انتخابات میں حصہ لینے کو جائز قرار دیا۔کیونکہ صالحین کی یہ جماعت جیسے بھی ہو سکے اقتدار کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔خواہ اس کے لئے انہیں اپنی آئیڈیالوجی سے کتنا بھی پیچھے کیوں نہ ہٹنا پڑے۔اب چونکہ اقتدار انتخابات سے ہی مل سکتا تھا اس لئے وہ انتخابات جو چند سال قبل غیر اسلامی تھے اب اسلامی ہو گئے۔اور اب ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ جماعت اسلامی ہر لحاظ سے ایک انتخابی سیاسی پارٹی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد انتخابات کو غیر اسلامی کہنے والے جب اپنی کوشش سے اقتدار سے ہمکنار نہ ہو سکے تو اقتدار کے حصول کے لیے صدارتی الیکشن میں اسی محمد علی جناح کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی سپورٹ کی جس جناح کومخالف پاکستان علماء کافر اعظم کہتے رہے تھے۔یہ اقتدار کے لئے ایک اور قلابازی تھی۔

اسی پر بس نہیں بعد میں جب بے نظیر بھٹو کو معروف سیاسی قواعد کے مطابق ہرا نہ سکے تواس کا راستہ روکنے کے لئے ایک دفعہ پھر اسلام کو استعمال کیا۔اور کیوں نہ کرتے آخر اسلام کو اپنے دنیاوی مفادات کے لئے استعمال کرنے پر اگر جماعت اسلامی کا حق نہیں تو اور کس کا ہو سکتا ہے؟فاطمہ جناح کی حمایت کرنے والے صالحین کے فتویٰ کے مطابق پچاس کی دہائی میں عورت کی حمایت درست تھی لیکن اسی اور نوے کی دہائی میں ایک عورت یعنی بے نظیر سرپراہ حکومت نہیں بن سکتی تھی۔یہ بھی ایک اور قلا بازی تھی جو جماعت اسلامی نے کھائی۔جماعت اسلامی کا اسلام ، محاورے کی زبان میں وہ موم کی ناک ہے جس کو اپنے مفادات میں حسب منشاء اور حسب ذائقہ جدھر چاہیں موڑا جا سکتا ہے۔امید ہے حاجی صاحب کو کسی قدر جواب مل گیا ہو گا۔

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مبین اور مفتیان شرع متین بیچ اس مسئلہ کے؟؟؟؟؟
Ranjha
About the Author: Ranjha Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.