دم ہے تو سوشل میڈیا کا مقابلہ کرو

ارے یہ کیاہواجب مصرمیں حسنی مبارک کا اورتیونس میں زین العابدین بن علی کا تختہ الٹاتو سارامغرب بتارہاتھاکہ یہ سوشل میڈیاکاکمال ہے۔فیس بک کے پیغامات کی بھرمار تھی جس نے تختہ الٹ دیا۔ فیس بک نے تحریراسکوائرکو انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندرسے بھردیا۔ لیکن اب کہا جارہا ہے کہ سوشل میڈیا کا گند صاف کرنے کے لیے عالمی اورملکی سطح پر کوششیں شروع کردی گئیں۔ عالمی سطح پر بحث چھڑگئی ہے کہ نامور خاندانوں اورکاروباری اداروں پرمنفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ پاکستانی میڈیا کے نمائندوں کو اسی مغربی میڈیا کے ایک غیرملکی صحافی نے جواب دیا کہ آپ نے سوشل میڈیاکی گندی بکواس کو اہمیت دے کر ملک کو بدنام کیا۔ ہے نامزے کی بات۔ جب تک مصرمیں لوگ جمہوریت جمہوریت کھیل رہے تھے توسارا مغربی میڈیا سوشل میڈیا کی تعریف کررہاتھا کہ یہ سب سوشل میڈیا کی وجہ سے ہے ۔سی این اینبی بی سی اسکائی اورالجزیرہ وغیرہ سب ہی بتارہے تھے کہ عوام جمہوریت چاہتے ہیں لیکن جب انتخابات کے دومراحل گزرگئے ساری چھلنیاں چھانی جاچکیں تو پتا چلا کہ عوام اسلام چاہتے تھے۔ جمہوریت کے راستے سے بھی اسلام کے حق میں ووٹ آیا اب جبکہ محمدمرسی کی کامیابی کو آفیشل اوران ایتھیکل میڈیا نے دبانے کی کوشش کی لیکن روکے نہ رکے گا یہ طوفان بلاخیزکے مصداق عوام پھرتحریراسکوائر پر جمع ہوگئے اور انتخابات پر اثرانداز ہونے کی ایجنٹوں کی ہرکوشش کوناکام بنادیامجبورا سرکارکو بھی اعلان کرنا پڑا۔ الیکشن کمیشن نے صدارتی امیدواروں کی اپیلیں سننے کے بعد یہ اعلان کیا۔ اب بھی طاقت کے نشے میں دھت لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ اگرالیکشن کمیشن چاہتاتونتائج روک لیتا۔ لیکن التحریرچوک ایک ایسا مقام ہے جہاں لوگ جب جمع ہوجائیں اوردورتک سرہی سرنظرآئیں توایوان اقتدارمیں لرزہ طاری ہوجاتاہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا کچھ اورکہہ رہاہوتاہے اور تحریراسکوائرکی دہشت مصری حکام سے کچھ اورفیصلے کروارہی ہوتی ہے۔ اب جبکہ پاکستان میں سوشل میڈیا نے سامراج کے پٹھو میڈیا اور اس کے بکاﺅ مال کا چہرہ عوام کے سامنے پیش کردیا تو اس سوشل میڈیاکو گندکہاجارہاہے۔ مگرسوال یہ ہے کہ اس سوشل میڈیا نے یہ گند حاصل کہاں سے کیاہے۔ ہم ملک ریاض کی جانب سے صحافیوں اوراینکرزکو دیے جانے والے پیسوں کی فہرست کی بات نہیں کررہے یہ فہرست غلط بھی ہوسکتی ہے اور درست بھی۔ اس کو غلط ثابت کرنا اینکرز اور درست ثابت کرنا اس کو جاری کرنے والوں کی ذمہ داری ہے۔ لیکن معاملہ تو مشتبہ ہوگیاہے ناں۔ ہم تو بات کررہے ہیں اس گندکی جو سوشل میڈیا نے اس آفیشلنان ایتھیکل اور سامراجی ایجنٹ میڈیا سے حاصل کیا ہے ۔ جو کچھ ہورہا تھا جو گفتگو ہوئی تھی وہ سب کی سب اسی صاف ستھرے میڈیاکے پر وگرام میں آن دی ریکارڈ تو ہورہی تھی۔ بہرحال اب سوشل میڈیا اورنام نہاد آزاد میڈیا میں ایک کھلی جنگ چھڑگئی ہے۔ آزاد میڈیا میں سوشل میڈیا کوگٹربھی کہاجارہاہے لیکن سوشل میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں وہ اسے بکاﺅ میڈیا قراردے رہاہے۔ سوشل میڈیا پرایک گفتگونام نہاد اسکالر اور اینکرعامرلیاقت کی بھی نشرکردی گئی تھی لیکن اس کا زیادہ اثرنہیں ہواکیونکہ واضح ہوگیاتھا کہ وہ عامرلیاقت کو دبانے کے لیے ان کے سابقہ ادارے نے ہی ڈلوائی ہے جواب پھر موجودہ ہوگیاہے۔ یہ حربہ پہلی مرتبہ آزادمیڈیا نے ہی اختیار کیاکسی اورکو دبانے کے لیے لیکن اب تو اکثرہوتاہے کہ لوآپ ہی اپنے دام میں صیاد آگیاکے مصداق ایک بارپھرآزادمیڈیا سوشل میڈیاکے ہتھے چڑھ گیا۔ اب جو خبرجاری کی گئی ہے وہ بھی یہی ہے کہ میڈیاوالے ہوشیارہوجائیں خطرہ جس چیزکا ظاہرکیاجارہاہے ایسالگتاہے کہ ایسی کوئی چیز تیارہے یا لیک ہوچکی ہے۔ اس خبرمیں یہ بتایاگیا ہے کہ آوازکے ذریعہ بعض میڈیا والوں کی گفتگوکو سوشل میڈیا پر استعمال کیاجائے گا میڈیا والوں کی بعض بااثرلوگوں سے گفتگوکو توڑمروڑ کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیاجائے گا۔ جعلی ٹیپ یا آواز آنے کا خوف پہلے سے کیوں ہے۔ اگر آواز توڑمروڑ کر یا جعلی پیش کی جائے گی تو تحقیقات کے نتیجے میں جعلی ثابت ہوجائے گی۔ اس خدشے کے اظہارکا مطلب تو یہی ہے کہ کچھ بڑے لوگوں سے کچھ بڑے میڈیا والوں اورمالکان کی گفتگوکا ٹیپ بھی حاصل کرلیاگیاہے۔ اس لیے پہلے ہی سے کہاجارہاہے کہ اب تو یہ بھی ہوگا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کوئی پولیس والا پولیس کے ہتھے چڑھ جائے تو جانتاہے کہ اب تفتیش ہوگی۔ ڈرائنگ روم کی سیرہوگی۔ جھوٹا مقدمہ بنے گا۔ لہذا پہلے ہی سے شورمچادو۔ ارے ساری طاقت ہے تمہارے پاس۔ دم ہے توسوشل میڈیاکا مقابلہ کرو۔ اسی میڈیاکا ایک جملہ اگرکھلا نہیں سکتے تو پیداکیوں کیاکاجواب ہے مقابلہ نہیں کرسکتے تو پنگاکیوں لیا۔
Rana Bilal
About the Author: Rana Bilal Read More Articles by Rana Bilal: 19 Articles with 12897 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.