تاریخ اسلام کا قافلہ صدیوں سے
رواں دواں ہے۔ جب اس کاروانِ بلاخیزکی رفتار میں کمی آنے لگتی ہے توقدرت
ایسے فرزندان اسلام کو سامنے لاتی ہے جن کے افکار کے جوش اورجذبات کے خروش
سے اسلامی تعلیمات کے قافلے کوحیات نوعطا ہوجاتی ہے اوراس کی رفتار میں
حیرت انگیز تیزی، اسلامی افکار کے اہل شوق حضرات کے دلوں میں اتر جانے
کااہتمام کرنے لگتی ہے خطیب العصر حضرت علامہ ابوالبیان پیر محمد سعید احمد
مجددی رحمةاللہ علیہ بھی قافلہ ملت اسلامیہ کے ایسے حدی خوان تھے کہ جن کی
سخن دلنوزاعاشقوں کے قلوب میں اترتی ہوئی، قدموں کومنزل شوق کی جانب پروانہ
وارآگے بڑھتے رہنے کا عزم عطاکرتی رہی۔
علامہ محمد سعیداحمدمجددی کثیر الجہات شخصیت تھے ۔قدرت کا اٹل اصول ہے کہ
جب وہ کسی انسان سے بڑے کام کی انجام دہی کی تمنائی ہوتی ہے تواسے ایسی
صفات سے نوازتی ہے جواس کی شخصیت کا جزو لازم بن جاتی ہیں اور پھر جوں جوں
وقت کی آزمائش گاہ میں اترنے اور تاریخ کی میزان پرفیصلہ کن کردار ادا کرنے
کاوقت آتا ہے توپہلی صفات، اس شخصیت کا پرتو عمل بن کر اپنی ہمہ گیری
ناممکنات زمانہ کو ممکنات کا ملبوس عطا کرنے لگتی ہیں ۔ حضرت ابوالبیان کے
سینے میں حساس اور درسے لبریز ددل تھا جواپنوں کے لئے ہی نہیں بلکہ غیروں
کے لئے بھی تڑپتا تھا ۔ یہی دل ِدرد مند محبت رسول ﷺ کے نظریاتی اورعملی
تقاضوں سے آباد تھا ۔
حضرت مولانا لال دین رحمةاللہ علیہ ،سراج العارفین حضرت ابوالبیان رحمةاللہ
علیہ کے والد گرامی تھے ۔نہایت ہی سادہ، رقیق القلب، صاحب حال صوفی ، اور
درویش صفت انسان تھے خدمت دین کاجذبہ آپ کی سرشت میں رچا ہواتھا مقبوضہ
وادی کشمیر کے ایک چھوٹے سے گاﺅں میں بلامعاوضہ تعلیم قرآن دیاکرتے تھے
۔1947ءمیں جب حضورابوالبیانؒ کی عمر تقریباً چاربرس تھی آپ وادی کشمیر سے
ہجرت کرکے سرزمین پاکستان پرتشریف لائے ۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے یہ
ہجرت فقط حضور سرورکائنات ﷺ اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے حکم سے
کی ہے ۔
حضرت ابو البیان ؒ کے والد گرامی حضرت مولانا لال دین ؒ فرمایا کرتے تھے کہ
اس کاسبب یہ معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ میرے ان بچوں میں سے کسی ایک کے
ذریعے (اشارہ حضور ابوالبیان کی جانب ہوتا) پاکستان کی سرزمین پردین کا کام
لینا چاہتاہے ۔
حضرت ابوالبیان ؒ وادی کشمیر علاقہ جموں کے ایک گاﺅں میں 1943ءبروز جمعة
المبارک بوقت طلوع فجرمتولد ہوئے ۔آپ کاخاندان وادی کشمیر کاایک خوشحال اور
متمول خاندان تھا آپ کے والد گرامی حضرت مولانا لال دین رحمةاللہ علیہ ایک
عالم باعمل بزرگ تھے۔ والدہ مرحومہ درد دل رکھنے والی نیک سیرت خاتون تھیں
۔ دردوسوز اور تصوف کی طرف میلان ورثہ میں پایا ۔ بہن بھائیوں میں چونکہ سب
سے چھوٹے تھے اس لئے والدین کی خصوصی شفقتوں کے حصہ دار ٹھہرے ۔گھر کاماحول
مذہبی تھا لہذا والدین نے بچپن میں ہی حصول علم کے لئے وقف کردیا چنانچہ آپ
نے سکول کی تعلیم کے بعد مختلف دینی مدارس میںممتاز اورجیدعلماءسے علوم
دینیہ حاصل کیے۔
o.... جامعہ نظامیہ لاہور سے تنظیم المدارس کاامتحان پاس کرکے الشہادة
العالمیہ (ایم ۔اے عربی واسلامیات) کی سند حاصل کی ۔
o.... جامعہ غوثیہ نظامیہ (وزیرآباد ) میں شیخ القرآن حضرت علامہ محمد
عبدالغفور ہزاروی رحمةاللہ علیہ سے دورہ تفسیر القرآن پڑھا ۔
o.... جامعہ انوار العلوم (ملتان) میں غزالی زماں،امام اہل سنت حضرت علامہ
سیدا حمد سعید شاہ کاظمی رحمةاللہ علیہ سے سند حدیث حاصل کی
حضرت ابو البیان ؒ کی طبیعت ابتداءہی سے تصوف وطریقت کی طرف مائل تھی، جن
دنوں آپ لاہور میں زیر تعلیم تھے اکثر حضور داتا گنج بخش رحمةاللہ علیہ کے
مزاراقدس پر حاضری دیاکرتے تھے ۔ یہیں پر آپ کی ملاقات زبدة الفقرآءحضرت
خواجہ صوفی محمد علی نقشبندی مجددی قدس سرہ (خلیفہ خاص آلومہا رشریف
سیالکوٹ) سے ہوئی جو ایک مادر زاد ولی اوربلندپایہ صاحب حال صوفی تھے جن کی
نگاہ ولایت نے پہلی ہی نظر میں جوہر قابل اور گوہر نایاب کو پہچان لیااور
سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت فرمالیا ۔ شیخ کامل کی روحانی تو
جہات نے سونے پر سہاگہ کاکام کیاچنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں آپ کو منازل سلوک
طے کرواکر خرقہ خلافت سے نوازاگیا،خرقہ خلافت عطا ہونے کے بعد حضرت
ابوالبیان علیہ الرحمة نے خلوت نشینی پرپیغام رسالت نگرنگر پہنچانے کو
ترجیح دی تاکہ سرکش ذہن، طاغوت سے رشتہ ناطہ توڑ کر پھر سے حلاوتِ ایمان کے
مزے لےں ۔اس اہم مشن کی ترویج وترقی کی خاطر آپ نے شب وروز سفر کیا ،تین
تین چارچار مقامات پربیانات توآپ کا معمول تھا، اکثر نماز فجر سے قبل آپ
اپنی رہائش گاہ مرکزی جامع مسجد نقشبندیہ بی بلاک ماڈل ٹاﺅن گوجرانوالہ
واپس تشریف لاتے تو بدن تھکن سے چور چور ہوتا۔تہجداورنماز فجر کے بعد اوراد
ووظائف میں مشغول رہتے ۔پھرملاقات کرنے والوں کا تانتا بندھ جاتاتو آپ ہر
ایک سے بلاامتیاز ملتے۔ امیر، غریب ،چھوٹا، بڑاجوبھی آتاآپ تبسم ریز، دونوں
ہاتھ واکیے اسے سینے سے لگاتے ، چھوٹوں پرہمیشہ دست شفقت رکھتے ۔ہرکوئی یہ
محسوس کرتاکہ حضرت ابوالبیان رحمةاللہ علیہ نے مجھ پر اپنے کرم کی انتہا
کردی ہے۔ آپ علیہ الرحمہ سادات ، مشائخ اورعلماءکاانتہائی ادب واحترام
فرماتے ۔سراپا عجز بن کر ان کی خدمت میں ارادتمندوں کی طرح دوزانوہوکر
بیٹھتے۔ آپ کے انکسار اوراعلیٰ ظرفی کی ان گنت مثالیں ہیں جوآپ کے عقیدت
مندوں کےلئے مشعل راہ ہیں ۔جن حضرات نے آپ کو خلافت واجازت سے نوازا اُن
میں سے چند کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔
o.... خطیب الاسلام حضرت صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ رحمة اللہ علیہ (
آلومہار شریف ضلع سیالکوٹ)
o.... شیخ المشائخ حضرت پیر سید محمد فضل شاہ مجددی رحمةا للہ علیہ سجادہ
نشین چورہ شریف ضلع اٹک
o.... پیرطریقت حضرت خواجہ محمد فرید شاہ مجددی رحمة اللہ علیہ سجادہ نشین
نتھیال شریف ضلع اٹک
o.... شہزادہ غوث الوریٰ حضرت صاحبزادہ پیر سید محمد انور شاہ گیلانی
بغدادی مدظلہ سجادہ نشین سدرہ شریف ضلع ڈیرہ اسماعیل خان (صوبہ سرحد)
o.... غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی رحمةاللہ علیہ
(ملتان)
o.... شیخ القرآن حضرت علامہ محمد عبدالغفور ہزاروی رحمةاللہ علیہ (وزیر
آباد)
o.... شیخ الشیوخ حضرت العلام شیخ ابوالنور شاذلی رحمة اللہ علیہ (دمشق)
o.... پیر طریقت حضرت صاحبزادہ سید عاشق حسین شاہ مجددی رحمة اللہ علیہ
سجادہ نشین آستانہ عالیہ سرہند شریف( انڈیا)
یوں آپ کی شخصیت جملہ سلاسل طریقت کے فیوضات کی جامع قرار پائی مگر نسبت
نقشبندیہ مجددیہ کا غلبہ ہونے کی بناءپر آپ نے اسی سلسلہ عالیہ کوفروغ دیا
۔آپ شہر گوجرانوالہ کی مختلف اہم مساجد میں خطابت کے فرائض سرانجام دیتے
رہے 1970ءمیں اپنے شیخ کامل کے حکم سے مرکزی جامع مسجد نقشبندیہ 121-Bماڈل
ٹاﺅن گوجرانوالہ تشریف لائے ۔ شیخ کامل کی دعا اور خدادا دصلاحیتوں کی
بناءپرآپ نے میدان خطابت میں اپنی عظمت کا لوہا خوب منوایا آپ کے حسن تکلم
کاجادویوں سرچڑھ کر بولاکہ ”ابوالبیان“ کا لقب آپ کے نام کا جزو لازم بن
گیا ۔ریاض رسول ﷺ میں چہکنے والا یہ بلبلِ ہزار داستان ،شہر شہر ،قریہ
قریہ،گاﺅں گاﺅں، محبت رسول اورمقامات تصوف کی خوشبولٹاتا رہا۔گوآپ اپنی ذات
میں ایک انجمن وتنظیم ہیں تاہم آپ نے سیاست کی پرخاروادی میں بھی قدم رکھا
جمعیت علمائے پاکستان ادارہ منہاج القرآن ،جماعت اہل سنت اور دیگر کئی
مذہبی وسیاسی تنظیموں میں نمایاں عہدوں پرتبلیغی و روحانی خدمات سرانجام
دیتے رہے ۔عرصہ تین سال تک آزاد کشمیر کی سب سے موثر دینی اور سیاسی تنظیم
جمعیت علمائے جموں وکشمیر کی صدارت کے فرائض بھی انجام دیئے لیکن جلد ہی
عملی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے ۔
فروری 1980میں عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کی بنیادرکھی جس کے تحت نوجوانوں
کی علمی ونظریاتی تربیت اور روحانی ذوق کی آبیاری کےلئے عملی جدوجہد شروع
کردی۔ادارہ کی تنظیم صالح، باکردار اور ہل علم ودانش اور غیور افراد
پرمشتمل ہے عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کے قیام کا بنیادی مقصد تعلیمات کتاب
وسنت کی ترویج واشاعت اورغلبہ اسلام کے لئے مسلمانوں کو متحد ومنظم کرنا،
ان کی علمی وعملی ، فکری اور روحانی تربیت کرناتاکہ اسلام کی نشاة ثانیہ کے
لئے نئے دور کا آغاز ہوسکے ۔ پاکستان کے علاوہ آسٹریلیا ،ملائیشیا ،برطانیہ
اوردیگر ممالک میں اسلامی روحانی انقلاب کے لئے مؤثر کردار اداکررہی ہےنیز
بفضلہ تعالیٰ ادارہ کے تحت بیسیوں مساجد ومدارس کانظام بحسن وبخوبی چل رہا
ہے۔
کسی بھی مشن کی کامیابی کا انحصار خلوص وللہیت پر ہوتا ہے ۔ خلوص کی
فراوانی ہی منزل مقصود کی نوید ہواکرتی ہے ۔ بحمدہ تعالیٰ یہی حضرت
ابوالبیان ؒکے کردار کا نمایاں پہلو ہے جس کابین ثبوت یہ ہے کہ آپ کی جملہ
تصانیف ، دروس قرآن وحدیث ، خطبات جمعہ اور دیگر تقاریر کے آڈیواور
ویڈیوکیسٹوں کی جملہ آمدنی عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کے لئے وقف ہے ۔ آپ
اس سلسلہ میں کسی بھی معاوضہ سے بے نیاز ہیں ۔
آپ نے حضرت امام ربانی مجددالف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمةاللہ علیہ
کے مکتوبات شریف کی اردو شرح” البینات“ کے عنوان سے لکھنے کا آغازکیا۔ اس
مقصد کو عام کرنے کے لئے آپ نے ایک مدت پیشتر تبلیغی دروس کااہتمام
فرمایا۔یہی نہیں بلکہ آپ نے ”مکتوبات مجددالف ثانی “کی تشریح کے پہلوبہ
پہلو حضور داتا گنج بخش سیدنا علی ہجویری رحمةاللہ علیہ کی شہرہ آفاق
روحانی تصنیف ”کشف المحجوب “کی شرح کو بھی پایہءتکمیل تک پہنچایا۔ آپ کشف
المحجوب کے ہفتہ وار دروس مسلسل آٹھ برس تک اہل ایمان کے قلوب کی زینت
بناتے رہے۔عالمی اداہ تنظیم الاسلام کے شعبہ مطبوعات کے زیراہتمام سیدنا
مجددالف ثانی رحمةاللہ علیہ کے مکتوبات عالیہ کی اردو شرح ”البینات شرح
مکتوبات“ کی دیگر تصانیف شائع ہوچکی ہیں ۔
o.... گوجرانوالہ ڈویژن میںاہل سنت کی معروف دینی درس گاہ دارالعلوم
نقشبندیہ امینیہ ماڈل ٹاﺅن کے بانی بھی آپ ہی ہیں۔
o.... آپ نے کئی مرتبہ بیرونی ممالک (برطانیہ ،آسٹریلیا،ملائیشیا، عراق ،
ہندوستان وغیرہ )میں تبلیغی وروحانی دورے فرمائے ۔
o.... آٹھ مرتبہ حج بیت اللہ اور متعددعمروں کی سعادت حاصل فرمائی۔
غلبہ ءاسلام ، آزادی کشمیر اور تکمیل پاکستان کے لئے آپ نے ایک ہزار
علماءومشائخ کی موجودگی میںآل وجموں وکشمیرسنی جہاد کونسل کی بنیاد رکھی
۔جس کاپہلا اجلاس بعنوان ”جہاد کشمیر کنونشن “ 2مارچ 1992ءکو راولپنڈی میں
منعقد ہو ا۔ جس کے پہلے ناظم اعلیٰ آپ ہی مقرر ہوئے۔ زندگی کے آخری دس سال
شب وروز جہاد کشمیر کے لئے عملی طور پر مصروف رہے اندرون وبیرون ملک مسئلہ
کشمیر کواجاگر کرنے کےلئے اپنی تمام توانائیاںصرف کردیںاور نتیجتاً آپ کی
صحت بہت بگڑگئی ۔دواڑھائی برس بستر علالت پررہنے کے بعد آخر کار علم ومعرفت
اور فقر و ولایت کایہ آفتاب 10اور11اگست 2002ءکی درمیانی شب بمطابق یکم
جمادی الثانی 1423ھ کو لبوں پہ مسکراہٹ سجائے کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے
دارفناسے دار بقاکی طرف عازم سفر ہوا۔اناللّٰہ وانا الیہ راجعون
دعا ہے کہ اللہ رب العزت آپ کی اس سعی جمیلہ کوقبول فرماکر بلندی درجات
عطافرمائے۔
آپ نے صاحبزادہ محمد رفیق احمدمجددی کاانتخاب بطور خلف الرشید فرمایا اور
ان کی تعلیم وتربیت پرخصوصی توجہ مرکوز کی ۔سراج العارفین حضرت علامہ
ابوالبیان فرمایا کرتے تھے کہ میںصاحبزادہ صاحب کی صلاحیت ولیاقت کامعترف
ہوں مجھے قوی یقین ہے کہ یہ بچہ مستقبل میں ملت اسلامیہ کے لئے عظیم راہنما
ثابت ہوگا۔الحمد للہ حضرت ابوالبیانؒ کے سجادہ نشین کے طورپر صاحبزادہ محمد
رفیق احمدمجددی یہ ذمہ داری احسن طریقہ سے سرانجام دے رہے ہیں اورحضرت
ابوالبیانؒ کا فیضان تقسیم کررہے ہیں۔ اللہ پاک ان کو مزید خیروبرکت سے
نوازے اورعمر دراز عطا فرمائے۔آمین ثم آمین
قارئین ذی وقار !ملت کے اس عظیم سپوت کو جتنا بھی خراج خلوص وعقیدت پیش کیا
جائے ،کم ہے۔ سلام عقیدت حضرت خطیب العصر آپ کےلئے کہ ایسی تاریخ ساز خوش
بختیاں کم ہی کسی کا مقدر بنتی ہیں
انشاءاللہ العزیز برموقع شب برات حضرت ابوالبیان پیر محمد سعیداحمدمجددی
رحمةاللہ علیہ کے سالانہ عرس مبارک کی تقریبات شایان شان طریقے سے منائی
جائیں گی ۔ اس موقع پرملک بھر سے مشائخ عظام، علمائے ذی وقار ،ممتاز مذہبی
وروحانی شخصیات کے علاوہ پاکستان کے نامور قراءحضرات اور مشہور ومعروف
ثناءخوان مصطفےٰ ﷺ خصوصی شرکت کریں گے ۔ |