تحریر: مولانا محمد زاہد صاحب
اعلم الأمہ، ارحم الأمہ صدیق اکبر(رض) کا جہاد
اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ انبیائ کے بعد
سب سے افضل انسان ہیں۔ آپ کے فضائل بہت ہیں اور بہت سے فضائل میں آپ یکتا و
منفرد ہیں۔ آپ صرف اس فضیلت کو لے لیں کہ قرآن کریم نے آپ کو صاحب رسول
قرار دیا ہے۔﴿اذ یقول لصاحبہٰ﴾
سبحان اللہ. آپ دیکھیں قرآن نے اس ایک لفظ ’’لصاحبہٰ‘‘ میں آپ کی فضیلت کا
بیان بھی کیا اور بدباطنوں کی طرف سے وارد ہونے والے تمام اعتراضات کا جواب
بھی دیا۔ قیامت تک پڑھا جانے والا قرآن گواہی دے رہا ہے کہ آپ صاحب رسول
ہیں۔ اور جس کے صاحب رسول ہونے کی گواہی خود خالق کائنات دے وہ ظالم کیونکر
ہوسکتا ہے؟ وہ خائن اور غاصب کیونکر ہوسکتا ہے؟
اگر آپ صرف اسی ایک لفظ کو یاد رکھیں تو آپ کو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر
وارد ہونے والا کوئی اعتراض پریشان نہیں کرسکتا۔ اخبار آحاد﴿اس کی استنادی
حیثیت جو بھی ہو﴾ اسی قطعی قرآنی شہادت کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی۔ دیکھا آپ
نے قرآن نے اس ایک لفظ میں آپ کو بلندیوں کے کس مقام پر پہنچا دیا جہاں
پتھر مارنے والوں کے پتھر پہنچ ہی نہیں سکتے۔
ارے، ارے. یہ بات کس طرف کو نکل گئی۔ میں نہ تو آپ کے فضائل و مناقب پر بات
کرنا چاہتا ہوں کہ عیاں راچہ بیاں، اور نہ ہی یہ مختصر سا مضمون اس کا
متحمل ہوسکتا ہے۔ بات یہاں ہوگی صرف دو چیزوں پر، آپ کا علم، آپ کا جہاد۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا علم
آپ کے علم کا کچھ اندازہ اس واقعے سے ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
و سلم کے انتقال کے بعد جب مانعین زکوٰۃ سے قتال کا مسئلہ درپیش ہوا کہ ان
سے قتال کیا جائے یا نہیں، تو اکیلے آپ اس قتال کے حق میں تھے باقی تمام
صحابہ کو تردد ہو رہا تھا کہ کلمہ گو سے کیسے لڑا جائے۔ اس وقت آپ نے وہ
تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جو آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ امت کے نوجوانوں
کو ہمت اور عزم کا درس دیتا ہے فرمایا ’’واللّٰہ لأقاتلن من فرق بین
الصلاۃ و الزکوٰۃ، واللّٰہ لو منعونی عقالا کانوا یؤدونہ الی رسول اللّٰہ
صلی اللہ علیہ و سلم لقاتلتہم علی منعہ‘‘ اللہ کی قسم! میں ان لوگوں سے
ضرور لڑوں گا جو نماز و زکوٰۃ میں فرق کرتے ہیں﴿کہ نماز کے تو قائل ہیں
زکوٰۃ کے نہیں﴾ اللہ کی قسم! اگر وہ ایک رسی کے دینے سے بھی انکار کریں گے
جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں دیا کرتے تھے تب بھی
میں ان سے لڑوں گا۔
بالآخر بحث و مباحثے کے نتیجے میں بشمول عمر فاروق رضی اللہ عنہ تمام صحابہ
نے تسلیم کرلیا کہ بات ابوبکر کی ٹھیک ہے ان سے لڑا جائے گا۔ آپ دیکھیں کہ
کچھ دیر پہلے تک جس بات کو انفرادی اور ذاتی رائے کی حیثیت سے دیکھا جا رہا
تھا وہ اب اجماع کا درجہ پاگئی۔ یہ سب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا
پختہ اور راسخ علم ہی تھا کہ تمام صحابہ نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا۔
میں چاہ تو یہ رہا تھا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے علم کو الگ اور جہاد
کو الگ ذکر کروں گا مگر اللہ کی شان دیکھئے کہ یہ صدیق اکبر(رض) کی کرامت
تھی یا کچھ اور کہ یہاں علم اور جہاد ایسے سامنے آئے کہ ایک کو دوسرے سے
الگ نہیں کیا جاسکتا۔
عہد رسالت میں فتویٰ دینا
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و سلم کے زمانے میں کون کون سے حضرات فتویٰ دیا کرتے تھے؟ فرمایا:
ابوبکر و عمر۔
دقائق تک رسائی
بخاری و مسلم میں روایت ہے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دفعہ خطبہ دیا ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے
اپنے ایک بندے کو دنیا اور آخرت میں کسی ایک کو اختیار کرنے کا اختیار دیا،
تو اس بندے نے اپنے رب کے پاس جانے کو اختیار کیا۔ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے اور فرمایا کہ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان۔ ہم
﴿صحابہ﴾ حیران ہو رہے تھے کہ یہ کیوں رو رہے ہیں﴿نہ جنت کا ذکر کہ شوق
رلائے، نہ جہنم کا ذکر کہ خوف رلائے، نہ عذاب کا ذکر کہ دہشت رلائے، نہ
رلانے والی اور کوئی بات﴾ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک بندے کے بارے
میں ہمیں بتا رہے ہیں اور یہ رو رہے ہیں۔ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ
و سلم کا وصال ہوا تب ہمیں معلوم ہوا کہ قصہ کیا تھا اور ہمیں یہ بھی معلوم
ہوگیا کہ ابوبکر ہم سب میں بڑے عالم ہیں۔
آپ کا علم ترجمان وحی
صلح حدیبیہ کی بعض شقوں پر صحابہ اور خاص طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو
اطمینان نہیں ہو رہا تھا۔ اس سلسلے میں گفتگو کرنے کے لئے حضرت عمر رضی
اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ
سوالات کئے جن کے جوابات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مرحمت فرمائے۔
یہاں سے نکل کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سیدھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
کے پاس گئے اور آپ سے وہی سوالات کئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے
کئے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سوائً بسوائٍ
﴿ہوبہو﴾ وہی جوابات دئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مرحمت فرمائے
تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اس استقامت اور کلی اطمینان کی وجہ سے
دیگر حضرات کو بھی اطمینان ہوگیا۔ اس سے آپ کے عظیم علم کا پتا چلتا ہے اور
یہ بھی کہ آپ ترجمان نبوت تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد جب کچھ انصار سقیفہ بنی
ساعدہ میں امارت کے سلسلے میں جمع ہوئے تو حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما
وہاں تشریف لے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جاتے ہوئے میں نے
اپنے ذہن میں ایک تقریر تیار کی اور تقریر کا جو خاکہ میں نے اپنے ذہن میں
بنایا تھا وہ مجھے بڑا اچھا معلوم ہو رہا تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو میں نے
بولنے کا ارادہ کیا﴿کہ تقریر پہلے سے تیار کی تھی اور اپنی تیار کردہ تقریر
پر اطمینان بھی تھا، اور یہ بھی کہ اس موقعے پر شاید ابوبکر اتنی اچھی بات
نہ کرسکیں جتنی اچھی میں کر سکتا ہوں﴾ ابوبکر نے کہا ٹھہرو۔ پھر ابوبکر نے
حمد و ثنا کے بعد انصار کے فضائل قرآن و حدیث سے بیان فرمائے۔ اللہ کی قسم!
ابوبکر نے اپنی فی البدیہہ تقریر میں کوئی آیت اور حدیث ایسی نہیں چھوڑی جو
مجھے یاد ہو اور آپ نے ارشاد نہ فرمائی ہو۔
حضرت ابوبکر صدیق اور علم انساب
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نہ صرف علم شریعت میں بلکہ علم انساب کے بھی
سب سے بڑے عالم تھے۔ آپ تمام عرب اور خاص طور پر قریش کے تمام نسب ناموں کو
خوب جانتے تھے۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے بطور خاص اس فن کو آپ سے
سیکھا، اور وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اس علم کو ابوبکر سے حاصل کیا ہے
جو اس کے بڑے عالم تھے۔
تعبیر الرئویا کا علم
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تعبیر الرئویا کے بھی بہت بڑے عالم تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں بھی آپ خوابوں کی تعبیر بتایا
کرتے تھے۔ حضرت علامہ ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ جو اس فن کے بہت بڑے امام
ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اس امت میں تعبیر
الرئویا کے سب سے بڑے عالم ابوبکر ہیں۔
مسند الفردوس دیلمی اور تاریخ ابن عساکر میں حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے یہ حکم
دیا گیا ہے کہ خوابوں کی تعبیر بتادوں اور ابوبکر کو سکھائوں۔
بایں ہمہ علم و دانش حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آسمان جہاد کے چمکتے،
دمکتے ستارے ہیں بلکہ آپ نے اس میدان میں ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں سب سے پہلے
ہم آپ کی شجاعت کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔
اعلم الأمہ، اشجع الأمہ
شجاعت یہ نہیں کہ آدمی خود کو بہادر کہے یا کوئی بزدل اسے بہادر کہے بلکہ
صحیح بہادری وہ ہے جسے حقیقی بہادر تسلیم کرے۔ اب آئیے اللہ کے شیر علی
مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی سنتے ہیں کہ وہ حضرت صدیق اکبر کے بارے میں کیا
فرماتے ہیں۔
مسند بزار میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے پوچھا
بتائو سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: آپ۔ آپ نے فرمایا
نہیں، میرا قصہ تو یہ ہے کہ جو میرے سامنے مبارزے میں آیا میں نے اس کو
نمٹا دیا۔ میں جو آپ سے پوچھ رہا ہوں وہ یہ کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟
﴿گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک سب سے زیادہ بہادر وہ نہیں جو مبارزے
میں اپنے مقابل کو پچھاڑ دے۔ اس کو تو بڑا پہلوان یا طاقتور وغیرہ کہتے ہیں
بلکہ سب سے زیادہ بہادر وہ ہے جو وہاں آگے بڑھے جہاں دیگر لوگ آگے نہ بڑھ
سکتے ہوں، جو سخت خطرے کی جگہ خود کو پیش کردے۔﴾ لوگوں نے کہا کہ پھر آپ ہی
ہمیں بتائیں کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ فرمایا: ابوبکر۔﴿پھر اپنی اس بات
پر تین دلیلیں پیش کیں﴾
پہلی دلیل یہ ہے کہ ہم نے غزوۂ بدر میں رسول اللہصلی اللہ علیہ و سلم کے
لئے ایک عریش﴿چھپر﴾ بنایا﴿رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کافروں کے سب سے
اہم اور پہلے ہدف تھے، ہر خطرے کا رخ آپ کی طرف تھا﴾ ہم نے کہا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت کون کرے گا تاکہ کوئی مشرک آپ تک نہ پہنچ
پائے۔ اللہ قسم ہم میں سے کوئی بھی آپ کے قریب نہیں ہوا﴿کیونکہ آپ کی حفاظت
بہت بڑی ذمہ داری تھی، اور آپ کے قریب ہونے کا مطلب تھا خود کو سب سے بڑے
خطرے کے لئے پیش کرنا﴾ البتہ ابوبکر تلوار سونت کر آپ کے سر پر کھڑے ہوگئے
جو بھی مشرک ادھر کا رخ کرتا ابوبکر اس کا سامنا کرتے۔ اس لئے وہ سب سے
زیادہ بہادر ہے۔
دوسری دلیل یہ کہ میں﴿علی﴾ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ
قریش نے آپ کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ کوئی دھکا دے رہا ہے، کوئی گھونسا مار
رہا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ وہی ہیں جو تمام معبودوں کو چھوڑ کر صرف
ایک معبود کو مانتا ہے۔ اللہ کی قسم ہم میں سے کوئی بھی آپ کے قریب نہیں
گیا سوائے ابوبکر کے کہ وہ گئے﴿اور کفار کے مجمع کو منتشر کردیا اس طرح کہ﴾
اس کو دھکا دیا، اس کو گھونسا مارا کسی کو گریبان سے پکڑا۔ آپ رضی اللہ عنہ
نے فرمایا کہ کیا آپ ایسے شخص کے قتل کے درپے ہیں جو یہ بات کرتا ہے کہ
میرا رب اللہ ہے۔ یہ کہہ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر اٹھائی اور
اتنے روئے کہ داڑھی تر ہوگئی۔
پھر تیسری دلیل کے طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ بتائو مؤمن
آلِ فرعون بہتر تھا یا ابوبکر بہتر ہیں؟ لوگ خاموش رہے۔ آپ نے فرمایا، جواب
کیوں نہیں دیتے، بخدا ابوبکر کی ایک گھڑی مؤمن آلِ فرعون کی ہزار گھڑیوں
سے بہتر ہے﴿یعنی ابوبکر کی زندگی کا تھوڑا سا وقت ان کے ہزار اوقات سے بہتر
ہے﴾ اس نے اپنے ایمان کو چھپایا جبکہ ابوبکر نے ببانگ دہل اپنے ایمان کا
اعلان کردیا﴿اور اس وقت اپنے ایمان کو ظاہر کرنے کا مطلب تھا پوری قوم کی
مخالفت مول لینا اور اپنے آپ کو موت کے لئے پیش کرنا﴾۔
عبد الرحمن کے ساتھ مکالمہ
حضرت ابوبکر(رض) کے صاحبزادے عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے مسلمان ہونے کے
بعد ایک دفعہ آپ سے کہا: ابا جان! آپ بدر میں میرے سامنے آئے﴿میں چاہتا تو
آپ کو قتل کر سکتا تھا﴾ لیکن﴿باپ ہونے کے ناطے﴾ میں وہاں سے ہٹ گیا۔ آپ نے
فرمایا: بیٹا! اگر تو میرے سامنے آتا تو میں آپ کو کبھی نہ چھوڑتا۔ ﴿اسے
کہتے ہیں بغض فی اللہ اور شدۃ علی الکفار﴾
شہد المشاہد کلہا
تمام سیرت نگاروں نے متفقہ طور پر آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’شہد المشاہد
کلہا‘‘ کہ امت کے اس بڑے عالم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ
تمام جنگوں میں حصہ لیا۔ نہ صرف حصہ لیا بلکہ تمام تر خطرات میں ڈٹے رہے اس
پر بھی تمام سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ احد و حنین کی سخت گھڑی میں جب بہت
سے لوگوں کے پائوں اکھڑ گئے تھے تو ثابت قدم رہنے والوں میں سر فہرست
ابوبکر تھے۔
حضرت ابوبکر(رض) کا ایک دن
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے ابوبکر کی ایک رات اور ایک دن
پر مجھے اتنا رشک آتا ہے کہ اگر ابوبکر میری زندگی کے تمام اعمال لے لیں
اور مجھے اپنی ان تین راتوں میں سے ایک رات یا وہ خاص دن دے دیں تو میں
سمجھوں گا کہ سودا سستا ہے۔ ان کی وہ رات جو انہوں نے غار ثور میں رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ گزاری، اور دن وہ جب رسول اللہصلی اللہ
علیہ و سلم کے وصال کے بعد عرب میں ارتداد اور انکار زکوٰۃ کے فتنے پھیلے
اور آپ نے جہاد کا عزم مصمم کرلیا، ہم حالات کے مارے سہمے ہوئے تھے۔ آپ نے
اپنے عزم کو سچ کر دکھایا اور اپنی ہمت سے اللہ کے دین کو تقویت بخشی اور
آپ نے فرمایا أینقص الدین و انا حیٌّ کہ کیا میرے جیتے جی دین میں کمی آئے
گی؟ اگر ابوبکر مجھے صرف وہی دن دے دیں تو میرا سودا نفع کا ہوگا۔
یہ ہے ابوبکر کا جہاد جس کی اتنی تمنا ہو رہی ہے۔
﴿آج کے مضمون میں اب تک کی تمام باتیں علامہ سیوطی کی تاریخ الخلفائ سے
مأخوذ ہیں﴾
کمانڈر ابوبکر(رض)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کئی جنگوں میں کمان بھی سنبھالی۔ چنانچہ
مسند احمد﴿احادیث سلمہ بن اکوع﴾ اور مسلم ﴿کتاب الجہاد باب التنفیل﴾ میں
حضرت سلمہ بن اکوع(رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے
بنی فزارہ کی طرف ابوبکر کو بھیجا میں بھی آپ کے ساتھ نکلا۔ جب ہم وہاں
پانی کے قریب پہنچے تو ابوبکر نے ہمیں رات ٹھہرنے کو کہا، صبح ہوتے ہی
’’شننا الغارۃ‘‘ ہم نے حملہ کیا، حملے کے نتیجے میں پانی تک پہنچے ’’فقتل
ابوبکر من قتل‘‘ ابوبکر ارحم الأمۃ نے بدست خود چند کافروں کو ٹھکانے
لگایا ’’ونحن معہ‘‘ ہم آپ کے ساتھ تھے۔﴿فوائد نافعہ:۱/۹۹﴾
نیز ارحم الأمہ نے ہزاروں مانعین زکوٰۃ، ہزاروں مرتدین اور مسیلمہ کذاب کے
ہزاروں پیروکاروں کو جہنم رسید کرکے ثابت کردیا کہ جہاد، علم اور رحمت ایک
ساتھ جمع ہوسکتے ہیں۔ اور جہاد رحمت کے منافی نہیں، ہوتا تو ابوبکر کو زبان
رسالت سے یہ خطاب کیسے ملتا۔ |