میں جو بھی آرٹیکل مضمون کو اپنے
قلم کے نوک پر تحریری شکل دینے کیلئے لاتا ہوں تو سب سے پہلے کچھ لوگوں (جو
کہ ہمارے ہی وطنِ عزیز کے باشندے ہوتے ہیں، ہمارے ہی آس پاس ہوتے ہیں) سے
رائے زنی ضرور لیتا ہوں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو موضوع کے اعتبار سے بات
دوستوں میں چھیڑ کر ان کی رائے لینے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ جو کچھ لکھا
جائے اس میں عوام کی آراءبھی ملحوظ ِ خاطر رہے۔یوں راقم کا لکھا ہوا مضمون
لازماً رائے عامہ سے بھرپور ہوتا ہے۔
ہماری مرکزی حکومت اور سپریم کورٹ میں عرصہ دراز سے رسّہ کشی کا کھیل جاری
ہے۔ اور اس کھیل میں وزیرِاعظم پاکستان کو تیس سیکنڈ کی سزا بھی سنائی جا
چکی ہے۔ جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے
معاملے کو الیکشن کمیشن نہ بھیج کر کچھ سیاسی جماعتوں کے احتجاج کی شدت کو
کم کر دیا ہے۔مگر اس کے بعد اعلیٰ عدلیہ کا ایک اور فیصلہ گیلانی صاحب کی
نااہلی کا بھی آ گیا اور یوں گیلانی صاحب وزیراعظم ہاﺅس سے ایوانِ صدر شفٹ
ہو گئے۔ اور انہیں چار کمروں کی جگہ بھی دے دی گئی ہے مگر تاحال اس معاملے
میں پیچیدگیاں موجود ہیں۔ وزیرِ داخلہ صاحب کی دہری Nationalityکو جواز بنا
کر سینیٹ کی رکنیت معطل کر دی گئی مگر حکومت بھی تابڑ توڑ حملے کا جواب اسی
انداز سے دے رہی ہے ، وزیرِ داخلہ نہ سہی مشیرِ داخلہ ہی سہی، کام جاری
رکھنے کی سعی ہونی چاہیئے۔
میمو اسکینڈل ہو یا کوئی اور ! مطلب یہ ہے کہ روزآنہ ہی کوئی نہ کوئی ایشو
عدلیہ کو مل جاتا ہے یا حکومت کو جس پر تکرار در تکرار اور پھر فیصلہ ، اور
پھر اس پر عملدرآمد کی چیمہ گوئیاں، حکومت اپنا کام کرہی ہے اور عدلیہ
اپنا، اور پچھلے ساڑھے چار سالوں سے یہی کچھ جاری و ساری ہے۔ عوام بے چاری
بے یارو مددگار خودکشیاں کر رہی ہے۔ اپنے ہی جگر کوشوں کو فروخت کر رہی ہے،
اور یہ سب کیوں؟ صرف غربت، مہنگائی، فرسودہ تعلیمی نظام، مسائل سے عدم
توجہی، اور نہ جانے کتنے ہی اَن گِنت مسائل ہیں جو کہ حل طلب ہیں مگر کسی
ادارے نے بھی ان عوامی مسائل کو حل کر نے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کرنا
چاہتی ہے۔ ایشوز ، اسکینڈلز پر سب اپنا اپنا کھیل، کھیل کر وقت پورا کرنے
اور پھر دوسری حکومت ، پھر تیسری حکومت آتی جاتی رہتی ہے اور اپنا اپنا ٹرم
پورا کرکے عوام پر مہنگائی ، غربت کا بوجھ ڈال کر اپنا بینک بیلنس بڑھا کر
رفو چکر ہونا ہی حکومت کا معیار رہ گیا ہے۔
اب آجکل میڈیا اور اخبارات کی شہ سرخیاں نئے اسکینڈل سے لبریز نظر آ رہا ہے
جو کہ چیف جسٹس صاحب کے فرزند ارسلان افتخار صاحب کا ہے۔ ملک ریاض صاحب نے
کل پریس کانفرنس میں قرآنِ کریم اُٹھا کر جو کچھ کہا اس پر یقین کیا جائے
یا جو کچھ فرزندِ افتخار کہہ رہے ہیں اس پر یقین کیا جائے۔ اونٹ کسی کروٹ
بیٹھتی نظر نہیں آتی!اگر یہ سچ ہے کہ کھانے کی دیگ تیار ہے یا نہیں ، تو
چاول کا ایک ہی دانہ چکھنا کافی ہوتا ہے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار
کریں ، اب دیکھنا یہ ہے کہ مقدمے کا کیا انجام ہوتا ہے۔افسوس ناک امر یہ ہے
کہ ایسے ایشوز ، اسکینڈلز اٹھتے ہی کیوں ہیں، ایسا ہوتا ہی کیوں ہے جس سے
ملک کی بدنامی کا دَر کھلے۔اب نامور بیرسٹروں کے پینل بنائے جائیں گے اور
پھر یہ کھیل بھی اپنے انجام کو پہنچایا جائے گا۔ کہنا یہ ہے کہ سب کو سب
کچھ معلوم ہے مگر کوئی بھی ان تمام عمل کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کرتا۔ایسا
لگتا ہے کہ ملک میں صرف کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے اور کچھ نہیں۔راقم کے خیال
میں تو بہتر یہ ہے کہ ہم کھلونوں سے بہلنا چھوڑ دیں اور سچائی کی آنکھوں
میں آنکھیں ڈال کر جینے کا چلن سیکھ لیں۔ حکومت اور سپریم کورٹ کے حالیہ
رویہ سے تو یہ بات صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو حکومت اور نہ ہی سپریم کورٹ
(دونوں کی کشتی) اس بھنور سے نکلنے میں کامیاب نہیں سکتی۔ یہ تو اچھا ہوا
کہ چیف جسٹس صاحب نے اس کیس سے اپنے آپ کو الگ کر لیا ورنہ لوگوں کا کیا ہے
وہ تو عدلیہ کو بھی داغدار کر دیتے۔
حکومت اور سپریم کورٹ جو کچھ کہتی ہے اس پر آسمانی فرمان کا گمان ہوتا ہے۔
دونوں کے روحِ رواں مبلغ کے رویے کو بھی نازک صورتحال کے سبب بیان بازی میں
احیاءپسندی کے احساسات کو مدِ نظر رکھنا چاہیے ۔ چونکہ حکومتی مندوبین کو
بھی اپنے اپنے حلقوں میں واپس جانا ہے وہ اس لئے کہ اگلے الیکشن میں ووٹ
بھی مانگنا ہے۔ اس لئے انہیں بھی درگذر سے کام لینا چاہیئے۔ ملک میں
بدعنوانیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو ہر روز سامنے آ رہا ہے۔
ایسے میں عوام الناس بھی کیا کرے، صرف الیکشن اور ووٹ دینے کا انتظار کر
رہے ہیں تاکہ کوئی زندہ دل ، فراخ دل حکومت آئے اور ان سب معاملے سے نبرد
آزما ہو کر ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرے ۔ یہ صرف ایک خواب ہی ہے کیونکہ
چونسٹھ سالوں میں ایسی حکومت کا وجود دیکھنے میں نہیں آیا۔یہ سچ ہے کہ عام
انتخابات میں ابھی تقریباً آٹھ مہینے باقی ہیں تاہم یہ عرصہ بھی اتنا لمبا
نہیں ہے کہ حکومت ایسے معقول اقدامات کرلے، جس سے معیشت کو فائدہ پہنچے اور
رائے دہندگان کی زندگی بہتر ہو سکے۔بہرحال آج ملک کی عوام انقلابی تبدیلیوں
کی توقع کر رہا ہے ۔ نسبتاً بڑا رول اور اختراعی معاشی پالیسیاں تاکہ
حکمرانی کے ایک نئے طریقے کے لئے عزم کا پیغام دیا جا سکے۔ مجھے پورا یقین
ہے کہ سنجیدہ فکر سے اربابِ اختیار اور ادارے سب ہی محروم ہو چکی ہے ۔ عوام
مسائل سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ بلوچستان اور کراچی کے حالات ہی دیکھ
لیں تو آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ مہنگے سوٹ
اور مہنگی ترین گاڑیاں استعمال کرنا گو کہ ان کا حقا ہے مگر اس کے ساتھ
ساتھ جنہوں نے ووٹ دے کر انہیں اس قابل کیا ان کی داد رسی بھی ان سب پر
عائد ہوتی ہے۔
اب تو پاکستان کے نئے وزیراعظم بھی اپنے منصب پر فائز ہیںاور انہیں کس طرح
تاش کے پتوں سے چُن کر نکالا گیا ہے اس پر داد کے مستحق ہیں وہ لوگ جن کے
ہاتھوں میں حکمرانی کی باگ ڈور ہے۔ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ وزیراعظم تاش
کے پتوں سے نکالا ہوا ایکّا ہیں۔ اب دیکھیں وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔
یہ تمنا ہے صف دہر سے لاﺅں جاکر
اک جاوں مرد جو طوفان حوادث میں کھڑا
بادبانوں کو بلاخیز ہواﺅں میں لئے
اپنی ہمت سے جو امواج کی کلفت بھر لے
سپریم کورٹ ملک کی باعزت ، سپریم ادارہ ہے اس کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد
یقینی ہونا چاہیئے مگر اُس ادارے کا بھی فرض ہے کہ کسی سے بھی زیادتی نہ
ہو۔ کسی کو اِسٹے آرڈر دے کر سالوں چھوڑ دیا جاتا ہے اور کسی کو ؟معاملہ
چاہے کتنا ہی سنگین ہو ملک کی خاطر سب کچھ قربان کر دینا ہی بہتر ہے۔ تنگ
نظری چھوڑ کر فراخ دلی کو اپنانا چاہیئے تاکہ امیر سمیت غریبوں کی بھی داد
رسی ہو سکے۔ غریب تو ایک ایف آئی آر کٹوانے کیلئے مہینوں بھاگتا پھرتا ہے ۔
اور امیر کے فون پر ہی ایف آئی آر درج کر لیا جاتا ہے۔ اسی طرح غریبوں کا
کوئی کیس حل طلب ہے تو اسے حل کیا جانا چاہیئے نا کہ انہیں تاریخ پر تاریخ
دیا جانا چاہیئے۔ لاکھوں کے حساب سے مقدمے فیصلے کے منتظر ہیں مگر کاروائی
عمل میں نہیں آتی۔ عوام کی مشکل یہ ہے کہ کس پر اعتماد کرے اور کس سے منصفی
چاہے یہاں تو ہر طرف گھنگھور اندھیرا چھایا ہوا ہے۔پھر بھی مجھ سمیت اس ملک
کا ہر باسی مایوس نہیں ہے اور نہ ہی احساسِ کمتری میں مبتلا ہے کیونکہ سب
کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب اس ملک کی
تقدیر بدل جائے گا۔ |