دوہری شہریت اور امپورٹڈ وزرائے اعظم

ہر ملک اور ہر ریا ست اپنے شہریوں کی جان،مال کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔کسی بھی ملک کے شہری پر لازم ہوتا ہے کہ وہ ریاست کے قوانین کے پاسداری کرے۔یہ حقیقت ہے کہ ریا ست کا شہری ریاست کے قوانین کی پاسداری اسی وقت کر سکتا ہے جب ریا ست سے اس کو محبت ہو ۔اور ظاہر بات ہے ریا ست سے محبت وہی کر سکتا ہے جو ریا ست کی مٹی میں پروان چڑھے اور بودوباش ریاست میں رکھے۔کیونکہ فطرت انسانی ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ماحول آدمی کی تہذیب ،ثقافت کی عکاسی کرتاہے ۔ریاست کی پہچان اس کی تہذیب اور ثقافت سے ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ریاست کی بقاءکے لیے تہذیب اور ثقافت کی بقاءضروری ہوتی ہے ۔اسی طرح ریاست کی بقاءکے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ ریاست کے تینوں اہم ستون مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ مضبوط ہوں۔اگر یہ تینو ں ادارے بااختیا ر اور مضبوط نہ ہوںاو ر باہم تناﺅ و خلفشار سے دوچار ہوں تو ریاست بدامنی اور بد حالی کا شکار ہوجاتی ہے ۔آج دنیا میں جتنے ممالک ترقی یافتہ ہیں ان کی تر قی کی وجہ تمام اداروں کا بااختیا ر اور مضبوط ہونا ہے۔

بد قسمتی سے آج پاکستان جس صور ت حال سے دوچار ہے اس کی اہم وجہ اداروں کا بااختیا ر اور مضبوط نہ ہو نا ہے۔تمام ادارے باہم تناﺅ کا شکار ہیں ۔حکومت اور عدلیہ میں تناﺅ کوئی نئی بات نہیں ۔2008سے اب تک ملک کے دونو ں ادارے دست و گریباں ہیں ۔اگر عدالت معاشرے میں امن و اما ن کی خاطر کوئی اچھا اقدام کر ے تو مقننہ اس میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔این آر او کا مسئلہ ہو یا سوئس کیس کا قضیہ ،توہین عدالت ہو یا دوہری شہریت تمام عدالتی فیصلوں کو حکومت تسلیم نہیں کرتی ۔دولت کی خاطر عزت قربان کر نے کی روایت موجودہ حکومت میں دیکھنے کو ملی۔ عدلیہ کا منہ بند کرنے کے لیے حکومت نے توہین عدالت اور دوہری شہریت میں ترمیم کرنے کامسودہ تیا ر کرلیا ہے ۔یہ ایک افسوسناک خبر ہے ۔کیونکہ اگر توہین عدالت کے قانون کو ختم کردیا جائے تو معاشرے میں ہر فرد شتر بے مہا ر بن جائے گا۔کرپشن ،لوٹ مار اور بد امنی کی فضاءہموار ہوگی جس سے معاشرہ میں بگاڑاور فساد پیدا ہوگاجو ملک کی سا لمیت اور بقاءکے لے کسی صور ت درست نہیں ۔اسی طرح اگر دوہر ی شہریت کی اجازت دیدی جائے تو ملکی بقاءاور سلامتی پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔کیونکہ ظاہر بات ہے ایک آدمی جو بیک وقت کئی ممالک کی شہریت کا حامل ہواس پر دونوں ملکوں کے آئین اور قوانین کی پاسداری لازمی ہوگی ۔اوریہ بات محال ہے کہ کئی ممالک کے شہریت کے حامل افراد سب ملکوں کے قوانین اور آئین کی پاسداری کریں ،کیونکہ ان ممالک کی سوچ ،نظریہ اور پالیسیاں یکساں مختلف ہیں ۔اگر ایک آدمی پاکستانی ہے او ر اس کے پا س برطانوی شہریت ہے تو دونوں ملکوں کے نظریہ اور قوانین میں زمین وآسمان کافرق ہے،تو یہ کیسے ممکن ہے کہ برطانوی شہریت کے حامل رکن پا رلیمنٹ ملک کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہر ہ کرے؟یہی وجہ ہے کی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے دوہری شہریت کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر دوہری شہریت ختم نہ کی گئی تو امپورٹڈ وزرائے اعظم کی آمد کا سلسلہ جاری رہے گا جو ملک وملت کے لیے نقصان کاباعث بنے گا ۔سپریم کورٹ نے دوہری شہریت کے حامل ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت معطل کر کے نہایت احسن اقدام کیاہے۔جہاں تک غیر ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کا تعلق ہے تو ان کو انتخابی عمل میں حصہ لینا چاہئے ،لیکن اہم اور کلیدی عہدوں پر فائز ہونے کی قطعااجازت نہیں ہونی چاہئے۔کیونکہ تجربہ سے ثابت ہے کہ جتنے بھی غیر ملکی شہریت کے حامل افراد پارلیمنٹ کے رکن بنے تو پاکستان کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔شوکت عزیزکی مثال سب کے سامنے ہے،آنجناب آمر دور میں وزیر اعظم بنے اور ملک کو داﺅ پر لگاکر عنقاءہوگئے۔اوراس سے پاکستان کو جو نقصان ہو ا اور ہورہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کا توہین عدالت اور دوہری شہریت میں ترمیم کرنے کافیصلہ سراسر غلط ہے۔حزب اقتدار اور دیگر جماعتوں کو چاہیے کہ وہ حکومت کو ان تنازعات سے دور رکھیں اور ٹوٹی پھوٹی جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار اداکریں، کیونکہ پاکستان اب مزید حادثات اور واقعات کامتحمل نہیں ہوسکتا۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 34291 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.