انسانی زندگی دو رخوں سے مرکب
ہوتی ہے‘ ایک رخ ظاہری مادی جسم کہلاتا ہے جبکہ دوسرا رخ جوکے چھپا ہوتا ہے‘
روح کہلاتا ہے۔ اس مادی زندگی کو قرآن حکیم کی اصطلاح میں اسفل سافلین بھی
کہتے ہیں۔
انسان کی مادی زندگی میں سب سے بڑی کمزوری ہے کہ انسان ہروقت اپنے مادی جسم
کی فکر میں گھلتا رہتا ہے حتیٰ کہ مادی جسم کی آرائش‘ زیبائش اور آسانیاں
حاصل کرتے کرتے اپنا ضمیر بھی فروخت کردیتا ہے۔ ’’ضمیر‘‘ ہی انسان کی کل
زندگی کا حاصل ہوتا ہے۔ اسے اس حقیقت کا مرتے دم تک احساس ہی نہیں ہوتا۔اس
کی زندگی کی پیدائش سے لے کر موت تک کے ایک ایک لمحے کی حرکت اس کی اپنی ’’روح‘‘
کے تابع ہوتی ہے جس کا مادی لذتوں میں وہ ایک پل کیلئے بھی احساس نہیں کرتا۔
روح انسان کے ایک ایک لمحہ کی حرکت کو زندگی دیتی ہے۔
انسان اپنے جسم کے حواس‘ بھوک‘ پیاس‘ نیند‘ بیداری‘ محبت‘ نفرت‘ عزت‘ غیرت‘
ہوس‘ لالچ وغیرہ سے تو متعارف رہتا ہے مگر وہ یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں
کرتا کہ اس کی ہر ہر خواہش میں اس کے ضمیر کی اطلاعات شامل ہوتی ہیں۔ یہ
اطلاعات پیدائش سے لے کر موت تک ہر دم جاری رہتی ہیں۔ جونہی اطلاعات کا
سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے مادی جسم پر موت وارد ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اب اس کی
روح نے مادی جسم سے قطع تعلق کرلیا ہے۔ غورو فکر کرتے ہوئے ہم اس حقیقت کو
جان سکتے ہیں کہ جب تک ہمارے جسم میں روح موجود ہے بھوک پیاس‘ نیند‘ بیداری
وغیرہ جیسے تقاضے اور خواہشات ہمارے مادی جسم میں جگ مگ کرتے رہتےہیں لیکن
جب جسم سے روح نکل جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ مردہ جسم میں تمام اعضاء
آنکھیں‘ کان‘ ناک‘ منہ‘ زبان‘ ہاتھ اور پاؤں سالم حالت میں موجود ہیں مگر
ان میں کسی قسم کی حرکت نہیں ہے۔ آپ اس جسم کو کاٹیے‘ جلائیے‘ گھیسٹیے اب
اس جسم میں قطعی کوئی حرکت نہیں ہے۔
اب سوچیے کہ یہ جسم حرکت کیوں نہیں کررہا۔ ایسے وقت میں ہم صرف یہ کہہ کر
چپ ہوجاتے ہیں کہ اس جسم سے روح نکل چکی ہے جب ہم یہ جانتے ہیں کہ مردہ ا
نسان میں روح نہیں ہوتی تو اس بات کا احساس ہمہ وقت کیوں نہیں رکھتے کہ
زندہ انسان کا مطلب ہے ’’روح کی موجودگی‘‘ زندگی میں روح ہی ہمیں کھلاتی ہے‘
پلاتی ہے‘ ہنساتی ہے‘ رلاتی ہے‘ روح ہمیں جذبات‘ احساسات اور خیالات عطا
کرتی ہے۔ روح ہی ہمیں رشتوں کی موجودگی اور غیرموجودگی کا احساس کراتی ہے۔
تصوف یا روحانیت کی جتنی بھی تعلیمات ہیں ان کا مآخذ روح ہے اور روح کے
عروج سے متعلق ہوتاہے۔ تصوف کے یوں تو بہت سے معنی نکالے گئے ہیں۔ ادنیٰ
لباس پہننے کو تصوف کہا گیا ہے‘ تزکیہ نفس کا نام بھی تصوف رکھا گیا ہے‘
اپنی انا کی نفی کا نام بھی تصوف کہلایا‘ مگر حاصل تصوف کیا ہے؟
ہمیں اپنے بزرگوں سے ایک ہی بات سمجھ میں آئی ہے کہ روحانیت یا تصوف کا
حاصل ہے اللہ تعالیٰ کو پالینا۔ اللہ کی صفات کا عارف ہونا۔ اللہ رب
العلمین کی قربت اور محبت حاصل ہونا یہ ہے معراج زندگی اور یہی معراج
انسانیت ہے۔ یہی معراج کو ہمارے پیارے نبی کریم آقائے نامدار خاتم النبین
رحمت اللعالمین حضرت محمد ﷺ نے عملی طور پر پاکر ثابت کیا اور الصلوٰۃ
معراج المومنین فرما کر امت کیلئے عام کردیا۔ اسی حقیقت کا تذکرہ قرآن
حکیم میں سورۂ نجم میں موجود ہے ’’جب وہ قریب آیا‘ اتنا قریب حتیٰ کہ دو
کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا۔پھر ہم نے اپنے بندے سے باتیں کیں جو کرنی
تھیں اور جو کچھ دیکھا دل نے دیکھا اور جھوٹ نہیں دیکھا‘‘
ان آیت کریمہ میں دل کا لفظ استعمال ہوا ہے اسے قرآ ن نے فواد کا نام دیا
ہے۔ فواد کو تصوف میں روح بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن پاک کی یہ آیات دراصل ’’روح‘‘
کے عروج کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔
روح کیا ہے‘ قرآن میں فرمایا گیا ہے‘ روح امر رب ہے۔ امر کی تعریف یہ ہے
کہ وہ کسی شے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’’کن‘‘ اور وہ چیز ہوجاتی ہے۔ (فیکون)۔
روح ایسی حقیقت ثابتہ ہے کہ ہم اسے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے۔ نوع انسان
میں اتنا حوصلہ‘ ہمت اور ظرف نہیں ہے کہ وہ اللہ رب العلمین کی کسی ایک صفت
کو بھی پاسکے۔ اللہ ہی کا فضل و کرم ہو تو اس کی صفات کا عارف ہوجاتا ہے۔
تصوف اور روحانیت کی تعلیمات امر الٰہی کا ادراک کرنے کا حوصلہ پیدا کرتی
ہیں۔ ریاضت‘ مجاہدات‘ روزہ‘ نوافل اور صدقات کی تاکید اس لیے کی جاتی ہے کہ
کسی انسان میں عجز پیدا ہو۔
ہم روح کا تذکرہ کررہے ہیں جو کہ زندگی اور کائنات کی اصل ہے۔ یہی امر رب
ہے۔ جب انسان مرتا ہے تو اس کی روح اس جسم سے اپنا تعلق اور رابطہ توڑ کر
ایک اور دنیا میں داخل ہوجاتی ہے۔ اور وہاں کے مطابق اپنا جسم اختیار
کرلیتی ہے مرنے کے بعد انسان جس دنیا میں داخل ہوتا ہے اور زندگی گزارتا ہے
اسے قرآن کی زبان میں ’’اعراف‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اب یہ انسان نفخ صور
(قیامت) اس اعراف کے مقام میں رہےگا۔ عالم اعراف ایک عظیم الشان عالم ہے۔
ایک بھرپور دنیا‘ اربوں‘ کھربوں کی آبادی مردو عورت بچے بوڑھے‘ جوان اس
جہاں کے باسی ہیں۔ اعراف کے باسی اس مادی دنیا میں کیے ہوئے اپنے اپنے
کردار اور اعمال کے مطابق مخصوص جگہوں پر مقیم ہیں۔ یہاں پر ایسے ایسے قدسی
نفس ہستیاں ہیں جوکہ ولایت اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ اولیاء کرام میں
صالحین‘ نبیین‘ شہیدین‘ قانتین‘ خاشعین ان کی طرف نظر کی جائے تو نور الٰہی
سےآنکھیں چندھیا جائیں۔ |