نیٹو سپلائی اور سپہ سالار

سلالہ واقعہ کے بعد سے پاکستان نے جوابی طور پر جو نیٹو سپلائی بند کررکھی تھی اب امریکی ”سوری“ کے بعد اسی آب و تاب سے کھل چکی ہے جیسے کبھی پہلے ہوا کرتی تھی۔ سیاسی جماعتوں میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سوری یا معافی کے باوجود نیٹو سپلائی کھولنے کے سراسر خلاف ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اور اے این پی سراسر اس کے حق میں ہےں۔ دوسری جماعتوں میں مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ قاف، ایم کیو ایم اورجمعیت علمائے اسلام کی پالیسی گومگو کا شکار رہیں، وہ کچھ پابندیوں اور معروضی حالات کی وجہ سے کچھ شرائط کے ساتھ نیٹو سپلائی کی بحالی پر متفق نظر آتے تھے۔ جبکہ دفاع پاکستان کونسل کہ جس میں جماعت الدعوہ اور جماعت اسلامی بہت ساری سیاسی و غیر سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں شامل ہیں، کا موقف شروع دن سے بڑا صاف اور واضح ہے کہ وہ نیٹو سپلائی کسی بھی طریقہ سے نہیں کھلنے دیں گے۔ اس سے پہلے بھی دفاع پاکستان کونسل کے زیر اہتمام پورے ملک میں احتجاج کیا گیا اور لانگ مارچ کی ”دھمکی“ دی گئی، چنانچہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے بعد گذشتہ روز سے لانگ مارچ کا لاہور سے آغاز کردیا گیا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل کے زیر اہتمام لانگ مارچ کو فی الوقت اسلام آباد تک جانا ہے، احتجاج ریکارڈ کرانا ہے اور ضرورت ہوئی تو دھرنا دینا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل کی اصل قوت دو جماعتوں کی وجہ سے ہے اور وہ ہیں جماعت الدعوہ اور جماعت اسلامی، دونوں کا سابقہ اور موجودہ کردار اس وقت زیر بحث نہیں لیکن ایک بات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ جماعت اسلامی افغان جہاد کے دور میں اور جماعت الدعوہ موجودہ دور میں پاکستان کی فوجی قیادت کے بہت قریب ہیں، اس کے علاوہ پنڈی والے شیخ رشید اور جنرل حمید گل کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ ان کی ڈوریں کہاں سے ہلائی جاتی ہیں۔

جہاں تک تعلق ہے نیٹو سپلائی روکی کیوں گئی اور اب اس کی بحالی میں کس کس کا کتنا کتنا حصہ ہے تو یہ بات بھی زیادہ ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی کہ اس طرح کے معاملات میں سیاسی قوتیں اپنے اندر کوئی طاقت نہیں رکھا کرتیں، اصل فیصلے بہرحال پنڈی سے جاری ہوتے ہیں اور سپہ سالار ہی آخری فیصلہ کیا کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت سلالہ واقعہ کے بعد بھی سپلائی کو قطعاًنہ روکتی اگر افواج پاکستان کی طرف سے ایسا حکم جاری نہ ہوتا، اور اگر روک ہی دی تھی تو الیکشن سے چند ماہ پہلے پوری قوم کی مخالفت مول لے کر کم از کم بحال نہ کرتی۔ اب بھی یقینی بات نظر آتی ہے کہ جنرل کیانی کی آشیر باد بلکہ احکامات سے ہی ایسا ممکن ہوسکا اور اس میں فوجی قیادت کی مثبت رائے بھی لی گئی ہوگی۔ اگر معاملات ایسے ہی ہیں جیسے کہ اکثر لوگوں کو نظر آرہے ہیں تو دفاع پاکستان کونسل والوں کو چاہئے کہ وہ اسلام آباد جانے کی بجائے راولپنڈی میں ہی رک جاتے کیونکہ وہیں سے یہ سپلائی روکی گئی تھی اور وہیں سے بحال کی گئی ہے، وہیں طاقت کا سرچشمہ ہے اور وہیں سے ایسے فیصلے صادر کئے جاتے ہیں۔

عوام کی سمجھ میں اب تک نہیں آیا کہ اگر سلالہ میں شہید ہونے والے بہادر سپاہیوں کی وجہ سے نیٹو سپلائی روکی گئی تھی تو امریکہ کی جانب سے صرف ”سوری“ کہہ دینا کافی تھا؟ کیا اس طرح ذلالت اور جگ ہنسائی ہونے افواج پاکستان کا مورال مزید کم نہیں ہوگا؟ کیا سپہ سالار کیانی صاحب کی حیثیت مشکوک نہیں ہوگی؟ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ آرمی چیف اپنی اور افواج پاکستان کی جو کریڈیبلٹی بحال کرنا چاہتے ہیں اور جس کے لئے انہوں نے اب تک حکومت کے سیاہ کارناموں پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں، وہ ان کے کھاتے میں بھی نہ چلے جائیں اور آرمی چیف اور افواج پاکستان مزید ڈس کریڈٹ ہوجائیں۔ عوام یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ شائد مقتدر حلقوں نے اپنی تنخواہیں بڑھوا کر سپلائی لائن کھولنے کی اجازت دی ہے، بظاہر لگتا بھی یہی ہے کیونکہ عوام کو آج کے دن تک بھی اعتماد میں نہیں لیا جاتااور صرف بھیڑ بکریاں سمجھا جاتا ہے بلکہ ”الو“ بنایا جاتا ہے۔ جنرل کیانی اور باقی فوجی قیادت سے ایک سوال ضرور پوچھا جائے گا کہ انہوں نے سلالہ کے شہیدوں سے بیوفائی کی یا وفا؟ کیونکہ ڈرون حملوں میں مرتے ہوئے لوگ تو آج تک فوج کو اور اس کی قیادت کو نظر نہیں آئے، ان مرنے والے سویلینز سے تعلق بھی کیا ہے لیکن سلالہ کے شہیدوں سے تو ان کا تعلق بہرحال ہے، وہی لوگ تو افواج کی اصل قوت ہیں، وہی تو سپہ سالاروں کے تاج قائم رکھنے کے لئے ایندھن کے طور پر کام آتے ہیں، پھر ان لوگوں کے ساتھ بھی ایک عام ”سویلین“ کا سا سلوک کیا جائے، تو ایسے سوالات تو اٹھیں گے، یہ بات فوجیوں اور عوام دونوں کے اذہان میں لاوا بن کر ابل رہی ہے کہ اگر اسی تنخواہ پر کام کرنا تھا تو اتنے ڈرامے کرنے کی کیا ضرورت تھی، سپلائی بند ہی نہ کرتے، اگر یہ ہمت کر ہی لی تھی تو صرف ایک بار اللہ کو اپنا سب کچھ سمجھ کر، اپنا معبود مان کر اس سے نصرت طلب تو کرتے، اگر جھوٹے خداﺅں کو انکار کردیتے اور ایک اللہ کی جانب اپنا راستہ موڑ لیتے تو یقینا اس وحدہ لاشریک کی ذات مایوس نہ کرتی....! زمانہ قدیم میں بھی جنگیں صرف ہتھیاروں اور وسائل سے نہیں لڑی جاتی تھیں بلکہ ان کے پیچھے حقیقی جذبات کارفرما ہوا کرتے تھے اور آج بھی صرف وسائل اور ہتھیار جنگ لڑنے اور جیتنے کے لئے ناکافی ہیں اگر ان کے پیچھے سچے جذبات نہ ہوں اور اپنے حق پر ہونے کا یقین نہ ہو۔ وسائل تو اس وقت بھی کم نہیں ہیں بلکہ اب تو ایٹم بم بھی موجود ہے لیکن اللہ پر سچا ایمان نہیں ہے اور بھروسہ نہیں ہے، سپہ سالار صاحب! چاہے پاکستان کے عوام کچھ بولیں نہ لیکن سوچتے ضرور ہیں کیونکہ سوچوں پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207663 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.