مئی کی شام کو ایک دوست کے گھر
بیٹھا تھا ۔ کہ بڑے بھائی کا پیغام موصول ہوا۔پیغام پڑھنے کے بعد ہوش و
ہواس قائم نہ تھے۔آنکھوں کے سامنے اندھیراچھا گیا۔پیغام تھا کہ مفسر و
داعئی قرآن مولانا اسلم شیخوپوری کو شہید کر دیا گیا ہے۔ممتاز عالم دین
مفسر قرآن، محدث اور قرآن کی دعوت کی طرف پکارنے والے مولانا اسلم شیخوپوری
’’القرآن کورسز سینٹر نزد بہاد ر آبادچورنگی کے میں درس قرآن دینے کے بعد
اپنے گھر جارہے تھے کہ دھوراجی کے علاقہ کے قریب نامعلوم مسلح موٹر سائکل
سواروں نے مولانا کہ گاڑی کو تینوں اطراف سے فائرنگ کا نشانہ بنایا ۔جس کے
نتیجے میں مولانا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گئے۔ اس
حملے میں ان کے محافظ شدیدزخمی ہو گئے۔ میری کبھی بھی مولانا سے ملاقات
نہیں ہوئی ۔ لیکن مولانا اسلم شیخوپوری کا کالم پڑھنے کے بعد ایسا لگتا تھا
۔جیسے مولانا شیخوپوری صاحب پاس بیٹھ کر کوئی بات سمجھا کر گئے ہیں۔اور کئی
مرتبہ ان کی ’’پکار‘‘ ﴿کالم کانام﴾ نے میرے ضمیر کو جنجھوڑا ۔ مولانا کی
یہی پکار میرے دل و دماغ پر لمبے عرصے تک اپنے اثرات چھوڑ جاتی تھی۔مولانا
کے ساتھ یہ رشتہ چند برسوں پر محیط تھا لیکن ہمیشہ یہی محسوس ہوتا جیسے کہ
میں مولانا کو شروع سے ہی جانتا ہوں ۔ بلا شبہ مولانا اسلم شیخوپوری صاحب
کی زندگی اک جہید مسلسل تھی ۔مولانا 3سال کی عمر ہی ٹانگوں سے معذور
ہوگئے۔لیکن عمر بھر یہ معذوری آپ کے پختہ ارادوں میں رکاوٹ نہ بن سکی۔محض
11سال کی عمر میں قرآن حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔دارالعلوم بنوری ٹائون سے
فراغت کے بعد مولانا نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا ۔وعظ اور درس قرآن
بھی دیتے یہ سلسلہ ان کی شہادت تک قائم رہا ۔ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ شہد
اور مسواک کا کاروبار بھی کرتے تھے ۔درس قرآن ڈاٹ کام ویب سائٹ کے بانی بھی
تھے ۔ یہ ویب سائٹ چند سالوں میں بہت مشہور ہوئی مولانا کی گفتگو ہمیشہ
مسلکی تعصبات سے بالا تر اور مدلل ہوتی جو پوری طرح سے سامعین کو اپنی گرفت
میں لے لیتی ۔مولانا کا یہی انداز مقبول تھا۔ مولانا کی ہر طبقے میں
مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔ کہ آپ کی نماز ِ جنازہ میں
آپ کے عقیدت مند ، تاجر حضرات ، شاگرد طلبائ اور علمائ کرام ہزاروں کی
تعداد میں شریک تھے ۔ ساری عمر قر آن کی دعوت پھیلانے اور عام کرنے والے
اور لاکھوں لوگوں کی اندگیوں میں انقلاب بپا کرنے والے مفسر و داعی قرآن
مولانا اسلم شیخوپوری درس قرآن دیتے دیتے دنیا سے کوچ فرما گئے۔بلا شبہ اس
عظیم داعی قرآن کی شہادت سے پیدا ہونے والا خلا شاید کبھی پرْ نہ کیا جا
سکے ۔ اس افسو سناک سانحے پر جتنا افسو س کیا جائے کم ہے مولانا نے آخری
زندگی کے قریب باقی مصروفیا ت ترک کر کے خدمت قرآن کو اپنا اوڑھنا بچھونا
بنا لیا تھا۔مولانا اسلم شیخوپوری کی شہادت ایک عظیم سانحہ ہے۔بے شک ایک
عالمِ کی موت پورے عالمَ کی موت ہوتی ہے۔
وزیر داخلہ نے مشترکاتی تحقیقاتی تشکیل دی ہے۔لیکن ابھی تک مولانا کے
قاتلوں کی گرفتاری کے لیے کوئی اقدام نظر نہیں آرہا ۔ مولانا اسلم شیخوپوری
کی شہادت کے سانحے سے باہر نہیں آیا تھا کہ 19مئی کی ایک اخبار میں علم کے
چلتے پھرتے سمندر ڈاکٹر شبیہ الحسن پر قاتلانہ حملے کی خبر پڑھ کر فوراً
برادرم سعید بدر کو فون کیا تو افسوسناک خبر ملی کہ ڈاکٹر شبیہ الحسن زخموں
کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے ۔علم کی ایک اور شمع بجھ گئی ۔ علم وعمل
کا ایک روشن آفتابہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔
ڈاکٹر شبیہ الحسن نابغہ روزگار شخصیت تھیں۔ڈاکٹر صاحب کے شاگردوں کی تعداد
لاکھوں میں ہے۔انھیں جمعۃ المبارک کی شام 2نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے
کالج سے اپنے گھر رحمان پورہ جاتے ہوئے گولیاں ماریں۔ایک گولی جو دل پر لگی
اس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔ شیبہ الحسن ستر سے زائد علمی اور تحقیقی
کتب کے مصنف تھے ۔معلم ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی مجلس ادب کے چئیرمین بھی
تھے۔ اور حکومت ان کی علمی و ادبی اعلیٰ کارکردگی پر ان کو تمغہ حسن
کارکردگی سے بھی نوازچکی تھی۔ راقم الحروف سے ڈاکٹر شبیہ الحسن کی ملاقات
چند دن پہلے پریس کلب میں ہونے والی میرے پیارے دوست سید بد ر سعید کی کتا
ب کی تقریب رونمائی میں ہوئی۔جو کچھ ان کی شخصیت کے بارے میں سن رکھا تھا
اس سے بڑھ کر پایا اور اس موقع پر ڈاکٹر صاحب کی تقریر اور وہ انداز میں آج
بھی نہیں بھلا پایا ۔ آج ادب کے باغ کی ایک اور کلی مرجھا گئی ۔اور ایک علم
کا دیپ گل ہو گیا ۔ ڈاکٹر صاحب کی تحاریر ہمیشہ صبرو تحمل مزاجی کا درس
دیتی تھیں۔ماہ مئی میں ہم سے دو عظیم شخصیات بچھڑ گئیں ۔ جن کا خلائ کبھی
بھی پر نہیں کیا جا سکے گا ۔اللہ تعالیٰ ان دونوں کو جوار رحمت میں جگہ عطا
فرمائے۔﴿آمین﴾ |