ذکرِولادتِ امیرالمومنین حصہ اول

 ذکرِولادتِ امیرالمومنین حصہ اول
بِسمِ اللہِ الرحمنِ الرحِیم
قال اللہ تبارک وتعالی فِی کِتابِہِ المجِید و فرقانِہِ الحمِید۔
"واِذیرفع اِبرھم القواعِدمِن البیتِ و اِسمعِیل۔ربنا تقبل مِنا۔اِنک انت السمِیع العلِیم"۔
"رسول وہ وقت یاد آیاجب ابراہیم اور اسماعیل خانہ کعبہ کی بنیادوں کو اٹھا رہے تھے تو یہ کہتے جاتے تھے اے ہمارے رب ہماری خدمت کو قبول کر لینا۔بے شک تو بڑا سننے والا، جاننے والا ہے"۔
کیا مبارک اور مقدس وہ گھر ہے جو خدا کے نام پر بنا اور ابراہیم اور اسماعیل جیسے مقدس نبیوں نے بنایاگیا جب ہی تو اس گھر کی تعریف میں کہا گیا ہے:
"مبرکاوھدے لِلعلمِین"۔
وہ تمام عالموں کے لئے سرتاپا ہدایت اور باعث برکت ہے ۔ دنیا میں کوئی ایسا گھر بھی نہ ملے گا جس کی یہ خصوصیت ہو :
"ومن دخلہ کان امِنا"۔
" جو اس گھر میں داخل ہو گیا وہ امن و امان میں ہو گیا" (آل عمران /)۔
یعنی کیسا ہی جرم و قصور کرنے کے بعد کوئی اس گھر میں داخل ہو جائے جب تک وہ خود ہی نہ نکلے کسی حکومت کی طاقت نہیں کہ اس کو اس گھر کے اندر سے نکال سکے۔ دنیا میں بے شمار عبادت خانے مختلف مذاہب و ادیان کے پیروں نے بنائے لیکن جو خصوصیت مسلمانوں کے اس عبادت خانے کو حاصل ہے وہ ابتدائے آفرینش سے آج تک نہ کسی معبد کو حاصل ہوئی ہے اور نہ ہو گی اور کیوں نہ ہو جب اللہ کے گھر میں بھی کسی گنہگار کو پناہ نہ مل سکے تو بھلا پھر کہاں مل سکتی ہے اس گھر کی ایک صفت یہ بھی ہے:
"سوآئنِالعاکِف فِیہِ والباد"۔
"اس میں شہری اور بدوی سب برابر ہیں کیوں نہ ہوں جبکہ سب ایک ہی خدا کے بندے ہیں"۔(سورہ الحج /)
چنانچہ اس گھر کا طواف کرتے وقت اگر کوئی غلام اپنے آقا سے، غریب کسی امیر سے، رعایا بادشاہ سے آگے ہو تو کسی کی مجال نہیں کہ اسے پیچھے کر دے یا حجر اسود کو بوسہ دینے کیلئے اگر کوئی غریب کسی امیر سے آگے بڑھا ہو تو اس کو آگے سے پیچھے نہیں ہٹایا جا سکتا۔
غور کرنے کے قابل بات ہے کہ ہر قوم نے اپنے عبادت خانے بڑے بڑے عالی شان بنوائے اور طرح طرح سے ان کو آراستہ کیا۔ سونے چاندی کے در و دیوار اور گنبد وغیرہ بنوائے اور ان میں جا بجا جواہرات لگوائے لیکن مسلمانوں کے خدا نے جو اپنا گھر بنوایا وہ بہت سیدھا سادھا اور چھوٹا معمولی ان گھڑے پتھروں کا جن پر نہ پلاسٹر تھا نہ پچی کاری نہ کوئی آرائش نہ زیبائش۔ اگر وہ چاہتا تو جواہرات کا بنوا لیتا اس کے خزانے میں کمی کس چیز کی تھی۔ مگر وہ غنی مطلق بے نیاز ذات جس کی مخلوق دنیا کی ہر شے ہے ایسی ادنی چیزوں کی طرف کیوں توجہ کرتا، اس نے گوارا نہ کیا کہ میرے بندوں پر عمارت کی عظمت و جلال کا اثر پڑے۔ لکھا ہے کہ جناب ابراہیم نے خانہ کعبہ کی بنیادیں اونچی کر لیں، دیواریں اتنی بلند ہو گئیں کہ کسی چیز پر کھڑے ہو کر ان کو بنایا جائے تو حضرت اسماعیل کی مدد سے ایک پتھر اٹھا کر لائے اور اس پر کھڑے ہو کر دیواروں کو بلند کیا۔ پتھر مقام ابراہیم کہلاتا ہے یعنی حضرت ابراہیم کی کھڑے ہونے کی جگہ جس وقت جناب ابراہیم پیر اس پتھر پر رکھے گئے تو اس نے سرکار الہی میں عرض کی کہ اے پالنے والے! چند لمحوں کیلئے میرے اندر موم کی خاصیت پیدا کردے تاکہ اس وقت میں تیرے خلیل کے مبارک پیروں کا نقش اپنے سینہ پر لے لوں اس کی یہ دعا قبول ہوئی اور حضرت ابراہیم کے پائے مبارک کا نقش اس پر جم گیا خدا کو اس پتھر کی حق شناسی اور خلیل نوازی پسند آئی اور اس کے صلہ میں اس کو حرم کعبہ کے اندر جگہ دی اور حاجیوں کو حکم دیا کہ جب حج کرنے کے لئے یہاں آ تو دو رکعت نماز اس پتھر پر بھی پڑھا کرو۔
"واتخِذوامِن مقامِ اِبرہِیم مصلی"۔(سورہ البقرہ /)
اس طرح ایک پتھر اور بھی تھا جس نے ذکر الہی کی پسندیدگی کے صلہ میں اس مبارک گھر میں جگہ پائی ہے اور وہ حجر اسود ہے جب حضرت آدم جنت میں تھے تو اس پتھر پر بیٹھ کر ذکر الہی کیا کرتے تھے جب جنت سے چلے تو یہ پتھر رونے لگا خطاب رب العزت ہوا تو کیوں روتا ہے اس نے عرض کی خداوند!مجھ پر بیٹھ کر تیرا ذکر کرنے والا اب یہاں سے جارہا ہے۔ اب میں کس سے تیری تسبیح و تہلیل سنوں گاجب اس کو اپنے نبی کا ایسا قدردان اور اپنے ذکر کا ایسا والہ و شیفتہ پایا تو اس کو اپنے گھر میں جگہ دے کر حاجیوں کو حکم دیا کہ جب یہاں آیا کریں تو بغیر اس کو بوسہ دیئے نہ جایا کریں۔ خدا کی سرکار میں محبت اور خلوص کی قدر ہے جب اس نے پتھروں کو بے اجر کرکے نہ رکھا تو بھلا کسی انسان کو کیوں رکھنے لگا چونکہ وہ بے جان تھے معرفت میں پست تھے لہذا ان کو حرم میں جگہ دی اور اس ذات کو جو آگے چل کر نفس اللہ کا لقب حاصل کرنے والی تھی اپنے گھر کے اندر جگہ دی اور اس کو مولودِ کعبہ قرار دیا۔
ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی گھر کسی مکین کے لئے اور کوئی بیت کسی اہل بیت کیلئے بنایا جاتا ہے۔ پس خدا کی طرف یہ منسوب ہے وہ تو اس کا مکین قرار نہیں پاسکتاکیونکہ وہ جسم و جسمانیت اور مکان و مکانیت سے مبرا اور منزا ہے، لہذا ضرورت ہوئی کہ اس کے سوا اور گھروں کے مکین اور ہوں۔ اس بیت کا کوئی اور اہل بیت ہو،یہ ظاہرہے کہ یہ گھر جناب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لئے تو بنایا نہ تھا پس لامحالہ اس کا اہل بیت کوئی اور ہے اور وہ اس کے سوا اور کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا جو اس گھر میں پیدا ہوا ہو جس کا نام اس گھر پر ثبت ہو جس کو اس گھر نے خود اپنے اندر بلایا ہو دنیا جانتی ہے کہ یہ شرف روزِ اول سے خالق عالم نے ہمارے اور آپ کے مولا آقا امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے لئے مخصوص فرمادیا تھا۔
خوشا ما خوشا دین دنیائے ما
کہ ہمچو علی ہست مولائے ما
یاد رکھئے صدف کی قدر موتی سے ہوتی ہے نافہ کی مشک سے پھول کی خوشبو سے چمن کی پھول سے گھر کی گھر والے سے پس اس اصول کے لحاظ سے بیت اللہ اہل بیت کی وجہ سے معظم و مکرم بنا۔مطلب از انشائے کعبہ بہر میلاد تو بود
ورنہ شخصے لامکاں را خانہ کے باشد ردا
بیت اللہ کی صفت :
اِن اول بیت وضِع لِلناسِ للذِی بِبک مبرکاوھدی
لِلعلمِین۔ (سورہ آل عمران /)
سے ظاہر ہے کہ ہدایت کسی مکان کے اینٹ پتھر یا درو دیوار کا خاصہ نہیں بلکہ اس کی یہ صفت مکین کے لحاظ سے قرار پاتی ہے۔ ایک عالم کسی گھر میں رہتا تو لوگ اس کو دارالعلم اور دارالشریعت کہتے ہیں اور اس کی تعظیم کرتے ہیں یہ سب تعظیم گھر والے کی وجہ سے ہوتی ہے نہ کہ بہ لحاظ درو دیوار کے۔ خدا نہ کسی جگہ سماتا ہے نہ کسی مکان میں رہتا ہے۔ مکانات کے مالک وہی ہو سکتے ہیں جو اس میں رہنے کی اہلیت رکھتے ہوں جو مکان گورنمنٹ ہاس کہلاتے ہیں ان میں بادشاہ خود نہیں رہتا بلکہ اس کے مخصوص لوگ رہا کرتے ہیں مگر رعایا پر ان کا احترام اس لئے واجب ہوتا ہے کہ رہنے والا سرکاری عملہ ہوتا ہے۔ پس ان کی عزت کرنا خود بادشاہ کی عزت کرنا ہوتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں ہم اس مطلب کو یوں ادا کرتے ہیں کہ کعبہ خدا کا گھر ہے چونکہ خدا خود اس میں رہتا نہیں لہذا ضرورت ہوئی اس کا کوئی محافظ بھی ہوتا کہ خانہ خالی پاکر کسی غیر مستحق کا اس پر قبضہ مخالفانہ نہ ہوجائے مثل مشہور ہے کہ خانہ خالی رادیو میگرد۔ اس کعبہ کو دو طرح کے محافظوں کی ضرورت تھی۔ اول ایسے لوگ جو اس کے مادی تعلقات کی حفاظت کریں دوسرے ایسے لوگ جو اس کی ہدایت اور روحانی برکات کی حفاظت کریں بس پہلی قسم کے محافظوں کا تعین بندوں سے متعلق ہوا کہ وہ جس کو چاہیں خانہ کعبہ کا کلید بردار بنادیں اور دوسری قسم کے محافظوں کا تقرر خدا نے اپنی قدرت میں لے لیا اس میں بندوں کو کوئی دخل نہیں مادی محافظ ان دروازوں میں داخل ہونے کا مجاز ہوتا ہے جو پہلے سے بنائے جاتے ہیں روحانی محافظ عام گزرگاہوں سے داخل نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے ایک نیا راستہ بنتا ہے تاکہ وہ اس کی شہادت ہو کہ اس کو خدا نے بلایا ہے اور یہ خدا کا نامزدکردہ ہے بندوں کے انتخاب کا اس سے کوئی تعلق نہیں بسی یہی ایک دلیل اس کے فضل و شرف کے لئے کافی ہوتی ہے۔ روح کو مادہ پر جو فضیلت ہوتی ہے وہی اس روحانی محافظ کو مادی محافظ پرہوتی ہے۔
کعبہ جب سے بنا بے شمار حاملہ عورتیں اس کے اندر داخل ہوئیں اور صاحبان حکومت کی ازواج داخل ہوئیں اگر وہ چاہتے تو خانہ کعبہ میں کسی بچے کی ولادت کرادیتے لیکن اول تو یہ فضیلت کسی کے خیال میں نہ آئی اور اگر آئی تو اس کو حاصل کرنے کی جرات نہ ہوئی، اگر جرت کرتے بھی تو یہ پیدائش مولود کے لئے باعث شرف نہ بنتی کیونکہ وہ اپنا ایک اختیاری امر ہوتا۔ خدائی انتخاب کو اس میں کوئی دخل نہ ہوتا۔ بت پرستوں نے بے شمار بت کعبہ میں جارکھے تھے پس ان سے ان بتوں کو کیا فضیلت ثابت ہوئی اسی طرح اگر کوئی عورت وہاں جاکر جنم دیتی تو یہ امر نہ اس عورت کے لئے وجہ فضیلت ہوتا اور نہ اس مولود کے لئے۔ ہاں جس کے لئے دیوار کعبہ شق ہوئی اور ہاتف ِغیب کو اس کو اندر آنے کی ہدایت دے وہ عورت ہی صاحب شرف کہلا سکتی ہے اور اس کا بچہ بھی:ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ

پیرآف اوگالی شریف
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381275 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.