ذکرِولادتِ امیرالمومنین حصہ دوم

 ذکرِولادتِ امیرالمومنین حصہ دوم
چناچہ منقول ہے کہ جب فاطمہ بنت اسد، مادرِ امیرالمومنین علیہ السلام ایک رو ز بغرض طواف بیت اللہ تشریف لائیں، اثنائے طواف میں آپ کو دردِ زہ عارض ہوا آپ نے دعا کی پروردگار! میں تجھے اپنے جد جنابِ خلیل کا واسطہ دیتی ہوں کہ اس مشکل کو میرے اوپر آسان کراس کے بعد آپ دیوار کعبہ کو اپنے بطن مبارک سے مس کرنے کے لئے آگے بڑھیں جوں ہی قریب پہنچیں یکایک دیوار کعبہ شق ہوگئی اور اتنا راستہ بن گیا کہ آپ اس سے کعبہ کے اندر تشریف لے جائیں۔آپ کو یہ دیکھ کر تعجب ہوا اور خائف ہوکر پیچھے ہٹیں۔ ناگاہ ایک ہاتف ِغیب کی آواز آئی :
"ادخلِی فِی البیتِ"۔
"اے فاطمہ !گھر کے اندر داخل ہوجا"۔
یہ آواز سنتے ہی آپ گھر کے اندر داخل ہوگئیں اور دیوار بدستور ویسی ہوگئی۔ جب وقت ولادت آیا تو آپ نے کچھ نورانی پیکر بیبیوں کو وہاں موجود پایا۔ ان میں سے ایک بی بی نے یوں تعارف کرایا: میں سارا زوجہ ابراہیم ہوں، یہ آسیہ بنت مزاحم زوجہ فرعون ہیں ،یہ معظمہ بڑی کامل ایمان یہ مریم مادرِ عیسی علیہ السلام ہیں ہم سب اس لئے آئے ہیں کہ اس مولود مسعود کی ولادت کے وقت موجود رہیں اور دایہ گری کا کام انجام دیں۔
الغرض جب امیرالمومنین علیہ السلام شکم مادر سے آغوش میں آئے تو آپ نے فورا اپنی جبین مبارک خاک پر رکھدی اور سجدہ خالق ادا کیا فاطمہ بنت اسد نے دیکھا کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی وہ تمام بت جو کعبہ کے اندر طاقوں میں رکھے تھے سرنگوں ہوکر زمین پر گرگئے سمجھیں کہ میرا بچہ غیر معمولی بچہ ہے اس پر تو بہت خوش ہوئیں مگر دو باتیں دیکھ کر سخت متفکر و پریشان ہوئیں اول یہ کہ بچے کی آنکھیں بالکل بند پائیں دوسرے دودھ کی طرف راغب نہ پایا۔ ہرچند کوشش دودھ پلانے کی مگر بچے نے اپنا منہ ہی نہ کھولا۔
یہاں تو یہ ہورہا تھا، وہاں رسول پر اِلقا ہوا کہ خانہ کعبہ میں جا اور اپنے چچا زاد بھائی اور وصی کو دیکھو۔آپ نے اپنے چچا ابوطالب کو ساتھ لیا اور خانہ کعبہ میں پہنچے تو دروازہ بند تھا حیرت ہوئی کہ جب دروازہ باہر سے بند ہے تو میری چچی اس کے اندر داخل کیسے ہوسکتی ہیں۔
الغرض جناب ابوطالب نے دروازہ کھلوایا اور دونوں بزرگ اندر گئے تو دیکھا فاطمہ بنت اسد وہاں موجود ہیں اور مولود مسعود ان کی گود میں ہے آپ نے فرمایاچچی لا میرے بھائی اور میرے وصی کو مجھے دو فرمایا!بیٹا اس بچے نے نہ تو اب تک آنکھ کھولی ہے اور نہ دودھ پیا ہے۔ یہ کہہ کر آپ نے بچے کو آنحضرت کی گود میں دے دیا بوئے رسالت کا مشام امامت میں پہنچنا تھا کہ حضرت علی علیہ السلام نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں اور دنیا میں سب سے پہلے جس چیز کی زیارت کی وہ جمال جہاں آرائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا، کیوں نہ آنکھیں کھولتے کیونکہ جس در مدعا کی تلاش تھی وہ نظر کے سامنے تھا اس کے بعد حضور سرور انبیا نے اپنی زبان مبارک علی کے منہ میں دے دی سب سے پہلی غذا جو مولود کعبہ نے دنیا میں حاصل کی وہ لعابِ رسول تھا۔ لعابِ رسول کہوں یا سرچشمہ علم و ہدایت کہوں جس کا دھارا ایک سینہ سے دوسرے
سینہ میں جارہا تھا اس کے بعد امیرالمومنین نے آسمانی کتابوں کی تلاوت کرکے اس کا ثبوت دیا کہ میں خدا کی طرف سے مسلمان بنا ہوا آیا ہوں پھر آنحضرت کی رسالت کی آپ نے تصدیق کی۔
میری یہ بات منصب امامت کے ناقدر شناس کو پسند نہ آئے گی وہ اس پر ناک بھوں چڑھائے گا کہ نوزائیدہ بچہ بول کیسے سکتا ہے؟ وہ کہے گا عاقلانہ کلام کیسے کرسکتا ہے؟ وہ یہ اعتراض کرے گا کہ آسمانی کتب کا ایک بچہ بغیر پڑھے لکھے کیسے عالم ہوسکتا ہے؟ بالخصوص قرآن کا جو ابھی نازل بھی نہ ہوا تھا میں کہوں گا یہ عدم تدبر کا نتیجہ ہے یہ قرآن سے بے خبری کی علامت ہے۔ بیت اللہ میں پیدا ہونے والے بچہ کا تو ذکر ہی کیا جو بچہ بیت المقدس سے باہر پیدا ہوا تھا وہ کیا نہ بولا تھا۔ پڑھو قرآن میں حضرت عیسی کا قصہ دیکھو، وہ پیدا ہوتے ہی یہودیوں سے کس طرح بے باکی سے کلام کر رہے تھے:
"اِنِی عبداللہِقفاتنِی الکِتب وجعلنِی نبِیا"۔(مریم:/)
"میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے"۔
پس اگر پیدا ہوتے ہی حضرت عیسی علیہ السلام ایسا عاقلانہ کلام کرسکتے تھے، یہودیوں سے ہم سخن ہو سکتے تھے تو مولود کعبہ جیسی برگزیدہ ہستی اور یہاں ایک امام اور ایک پیغمبر تھے اگر نزول انجیل سے قبل حضرت عیسی انجیل کے عالم ہوسکتے ہیں تو یہ مولودِ کعبہ نزولِ قرآن سے پہلے اس کا عالم کیوں نہیں ہوسکتا ؟بہ مصداق:
الرحمن۔علم القرآن۔خلق الاِنسان۔علمہ البیان
"رحمن وہ ہے جس نے اپنے ایک خاص بندے کو پہلے تعلیم کی، پھر پیدا کیا، پھر اس کو بیان کرنے کی تعلیم دی"۔(سورہ رحمن تا)
جب ہمارے رسول کو اس وجودِ مادی سے پہلے بوجودِ نورانی قرآن کی تعلیم دی جا چکی تھی تو علی کو کیوں نہ دی جاتی کیونکہ آپ اس نور کا ایک جزو تھے۔ اس کے بعد رسول نے قرآن کی تعلیم لوگوں کو دی، تو وہ مقام بیان تھا اور علی نے جو سب سے پہلے تصدیق رسالت کی وہ وقت اظہارِایمان تھا، نہ کہ وقت حصول اسلام کیونکہ مسلمان تو آپ بنے بنائےآئے تھے۔
افسوس ہے کہ لوگ مولود کعبہ کے بولنے اور تصدیق رسالت کرنے پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں لیکن اس بچہ پر کبھی تعجب نہیں کرتے جس نے گہوارہ میں یوسف علیہ السلام کی عصمت کی گواہی دی تھی۔ قصہ اصحاب اخدود کوپڑھ کر اس بچہ پر تعجب نہیں کرتے جس نے ایک حبشی نبی کی صداقت کی تصدیق کی تھی۔ جناب یحیی بن زکریا پر تعجب کیوں نہیں کرتے جو چند مہینہ بحالت حمل رہ کر پیدا ہوئے اور اپنے پدر بزرگوار جناب زکریا سے ہمکلام ہوئے اور جن کو خلاق عالم نے بچپن ہی میں صاحب کتاب بنادیا تھا۔
"یحیی خذِالکِتب بِقو"۔
"اے یحیی! اس کتاب کو قوت کے ساتھ لے لو"۔(سورہ مریم /)
یہ قوت کا لفظ ہی بنارہا ہے کہ بچپن میں ان کو قوت عطا کردی گئی تھی جو ایک کتاب کیلئے ضروری ہے۔
جناب ابراہیم پر تعجب نہیں ہوتا جنہوں نے پیدا ہوتے ہی اپنے والد گرامی سے پوچھا: میری قوم کس کی عبادت کرتی ہے؟ خدا نے معیارفضیلت واصطفا طالوت کے قصہ میں دو چیزوں کو بیان فرمایا ہے العِلم والجِسم یعنی علم اور شجاعت ہم دونوں باتیں مولود کعبہ میں دکھانا چاہتے ہیں تاکہ منکرین فضائل علی کو معلوم ہوجائے کہ اگر بچپن میں خلاقِ عالم نے ان کا اصطفا کرلیا تو کوئی حیرت انگیز بات نہ تھی۔
مشہور روایت ہے کہ جناب امیر علیہ السلام کے زور بازو کا یہ حال تھا کہ آپ نے گہوارے میں کلہ اژدر کو چیر ڈالا تھا۔کچھ لوگوں کو ہمارا یہ بیان مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے ان کو یہ فضیلت مبالغہ کی ایک قابل افسوس داستان نظر آتی ہے ،اس وجہ سے کہ انہوں نے حالات انبیا کو ذرا بھی غور سے نہیں پڑھا۔ ایسے لوگ حضرت عیسی کا یہ واقعہ تاریخوں میں غور و خوض سے کیوں نہیں پڑھتے کہ جب یہودی حضرت مریم سے ازراہ طنز کہنے لگے:
"یاخت ھرون ماکان ابوکِ امراسو وماکانت امکِ بغِیا"۔
"اے نیک بی بی (ازراہِ طنز)!نہ تو تمہاراباپ برا آدمی تھا نہ تمہاری ماں ہی بدکار تھی) پھر یہ بچہ بے شوہر کے کیسے پیدا ہوا؟"(سورہ مریم /)
بحکم الہی جناب مریم نے حضرت مریم نے حضرت عیسی کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ اس سے پوچھو۔ انہوں نے ازراہ تعجب کہا:
"قالواکیف نکلِم من کان فِی المھدِصبِیا"۔(مریم :/ )
"یہ بچہ کیسے بولے گا؟ وہ تو گہوارہ میں پڑا ہوا ہے یعنی نوزائیدہ ہے"۔
غرض کہ یہودی حضرت عیسی کے پاس آئے اور دریافت کیا آپ جھولے میں لیٹے ہوئے تھے ان کی لغویات کا جواب دینے کے لئے گہوارہ میں اٹھ کر بیٹھ گئے کیوں جناب ایک نوزائیدہ بچہ میں جو منہ سے مکھی اڑانے کی طاقت نہیں رکھتا اتنی قوت کس نے دے دی کہ پیدا ہوتے ہی گہوارہ میں اٹھ بیٹھا پس اگر حضرت علی نے گہوارہ میں کلہ اژدو چیر ڈالا، کیوں تعجب ہے؟
اسے چھوڑیئے، حضرت موسی کا قصہ تاریخوں میں پڑھ لیجئے جب حضرت موسی کا صندوق محل فرعون میں پہنچا اور اس نے کھول کر باہر نکالا تو اس نے اور اس کی بی بی جناب آسیہ نے بیحد پسند کیا چونکہ فرعون بے اولاد تھا اس لئے میاں بیوی کی رائے ہوئی کہ جناب موسی کو اپنا متبنی کرلیں۔ پہلے جناب آسیہ نے پیار کیا پھر فرعون نے اپنی گود میں لے کر پیار کرنا چاہا جناب موسی نے ایک ہاتھ سے اس کی داڑھی پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے ایسا طمانچہ مارا کہ مردود کا منہ پھر گیا۔ جلدی سے موسی کو رکھ کر دونوں ہاتھوں سے اپنا رخسار پکڑ لیا جناب آسیہ نے کہا تم بھی کیسے کمزور دل ہوکہ بچہ کا ہاتھ لگتے ہی بلبلا گئے۔
فرعون نے کہا: تمہیں کیا معلوم کہ یہ طمانچہ کیسا تھا یہ معلوم ہوا کہ ایک فولادی ہتھوڑا پڑ گیاجس نے میرا جبڑا تک ہلادیا۔ کیوں جناب! جس خدا نے حضرت موسی کو اتنی طاقت ان کے بازو میں بخشی تھی کہ فرعون جیسے موذی کا جبڑا ہلادیں اگر وہ خدا حضرت علی کے بازو میں یہ زور دے دے کہ گہوارہ میں کلہ اژدر چیر ڈالیں، تو کیا محل تعجب ہے؟
مہد میں کلہ اژدر کو چیرنے والے
یہ بچپنا ہے تو عہد شباب کیسا ہو گا
اللہ نے یہ زور جسے پچپن میں بخشا تھا۔ اگر وہ جوانی میں خیبر کا دروازہ اکھاڑلے اور سپر کی طرح اسے ہاتھ میں لے کر خندق میں کود پڑے توکیا بعید از عقل ہے۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381207 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.