دھمکیوں گیدڑ بھبکیوں اور کہہ
مکرنیوں کے بعد امریکا نے آخر کار نیٹو سپلائی کی بحالی کاصلہ دے ہی
دیا۔توقع کے برعکس یہ صلہ ڈالروں میں اضافے کی بجائے کمی کی صورت میں دیا
گیا اور امریکی کانگریس نے پاکستان کی فوجی امداد میں پنسٹھ کروڑ ڈالر کی
کٹوتی کی قرار داد منظور کر لی۔یوں پاکستان اور امریکا کے درمیان نفرت کی
خلیج کچھ اور بڑھ گئی۔ گو کہ نیٹو سپلائی بحال ہوتے ہی امریکا نے پاکستانی
سرزمین پر دو خوفناک ڈرون حملوں کے ذریعے جہاں ایک طرف تھینک یوکہا تھا
وہیں یہ نیٹو کے قافلے کے بخیریت منزل مقصود تک پہنچنے کی اطلاع بھی تھی
لیکن وقت کے ساتھ صلہ دینے کی کئی نئی شکلیں سامنے آتی جارہی ہیں جن میں
ایک انعام فوجی امداد میں کٹوتی کا متفقہ فیصلہ بھی ہے ۔ابھی ایک اور قسط
آنا باقی ہے ۔وہ ہے حقانی گروپ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس کے اثاثے
منجمد کرنے کی قرارداد۔ چونکہ لیون پنیٹا سمیت اکثر امریکیوں کا خیال ہے کہ
حقانی گروپ کو پاکستان کے حساس ادارے کی حمایت حاصل ہے اور یہ گروپ پاکستان
کی سرزمین کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرتا ہے اس لئے حقانی گروپ کا
معاملہ ڈرون کی طرح پاکستان کی خود مختاری اور اقتدار اعلی کا مستقل مذاق
اڑانے کا ایک ہتھیار ہے ۔جسے بوقت ضرورت امریکا پاکستان میں گرم تعاقب یعنی
Hot persuitکے لئے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ نیٹو سپلائی کی بحالی کے موقع
پر صاف نظر آرہا تھا کہ یہ پاکستان اور امریکا کے درمیان کسی مفاہمت،کسی
غیر سگالی اور مستقبل کے کسی عہد و پیماں کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ نیٹو
سپلائی کی بحالی میں ساراکارنامہ امریکی ڈنڈے کا ہے۔ امریکا پہلے پاکستان
کے لئے گاجر اور چھڑی کا اصول اپنائے ہوئے تھااب وہ اس پالیسی میں تبدیلی
لاکر گاجر واپس اپنی جیب میں ڈال کر صرف چھڑی کے ذریعے کھلی دھمکیوں پر اتر
آیا ۔جو تھوڑی بہت گاجر ماضی کے تعلقات کی یادگار اور تبرک کے طور پر بچی
تھی امریکا اسے بھی ختم کرتا جا رہا ہے ۔انہی امریکی رویوں سے مجبور ہوکر
پاکستان کو نیٹو سپلائی بحال کرنے کا تلخ گھونٹ پینا پڑا ۔اس کے لئے سارے
معاہدے ،ساری دستاویزات،ساری قراردادیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ پاکستان نے
اپنے سارے مطالبات سے دستبردار ہوکر معافی نما سے کچھ جملوں کو غنیمت جان
کر خود کوامریکی دھمکیوں کی صلیب سے اتار نے کا فیصلہ کیا۔اسی وجہ سے نیٹو
سپلائی کی بحالی سے کوئی بھی مطمئن نہیں ہوا۔امریکی سفیر کیمرون منٹر نے
دوسرے ہی دن کہا تھاکہ پاکستان کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے نیٹو سپلائی کی
بحالی ہی کافی نہیں۔پاکستان نادم و شرمسار ہے کہ کچھ کھائے پیئے بغیر اس نے
نیٹو سپلائی بحال کر کے دس روپے کا گلاس توڑ ڈالا۔پاکستان کی رائے عامہ میں
شدید اشتعال پھیلتا جا رہا ہے کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے باوجود امریکی
پیشانی کی شکنیں ختم ہونے کانام نہیں لے رہیں۔فوج کو یہ اندازہ ہے کہ آج
پاکستان کی سڑکوں سے جو اسلحہ گزر کر افغانستان کے تہہ خانوں میں جا رہا ہے
وہ ملاعمر کے مقابلے کے لئے نہیں کسی اور سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے ہے۔ یہ
اپنے قاتل کو خود چھری اور گولی فراہم کرنے کے مترادف ہے ۔عالمی چھتر چھائے
میں آج کا افغانستان پاکستان کے لئے بھارت سے بڑا خطرہ بن کر ابھر رہا
ہے۔خود ایک امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ مستقبل میں پاکستان اور افغانستان
کے مابین جنگ کا امکان موجود ہے۔امریکی اخبار کبھی کبھا ر تو بے پرکی بھی
اڑاتے ہیں لیکن اکثر وہ پنٹاگون کی میزوں کی درازوں سے نوٹس لے کر خبر
بناتے ہیں۔ پاکستان میں آج جو کچھ ہو رہا ہے امریکی اخبارات میں آج سے دس
بارہ سال قبل ان حالات کی سیاسی پیش گوئیاں کی جارہی تھیں۔پاکستان میں
انتشار ،افتراق ،خانہ جنگی کا ہوا کھڑا کر کے وہ ایٹم بم کے غیر محفوظ
ہوجانے کی باتیں لکھتے تھے تب وہ باتیں افسانہ ہوتی تھیں آج حقیقت
ہیں۔کراچی جھلس رہا ہے بلوچستان زخم کی صور ت رس رہا ہے ۔قبائلی علاقے
گولیوں اوربارود کی بو سے بھر گئے ہیں۔ اس سے بڑا انتشار شاید ہی دنیا میں
کہیں موجود ہے۔ وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف کو اقتدار سنبھالے ہوئے
چند ہفتے ہی ہوئے ہیں وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بلوچستان کے حالات کی
خرابی میں بڑا حصہ بیرونی ہاتھ کا ہے ۔وہ بیرونی ہاتھ ایک نہیں کم از کم
سولہ ہیں ۔ لاپتہ افراد کے بارے میں جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم
کمیشن نے بلوچستان میں کم از کم سولہ غیر ملکی ایجنسیوں کے سرگرم ہونے کی
نشاندہی کی ہے ۔یہ بات قطعی بعید نہیں کہ اس میں سب سے بڑا ہاتھ امریکا کا
ہوگا ۔ اب اگر امریکی کبھی کبھا ر یہ فرمائش کرتے ہیں کہ آئیے ہم دونوں مل
کر آپ کے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کرتے ہیںتو یہ فرمائش بے سبب نہیں طویل
محنت کا نتیجہ ہے ۔اس لئے آج امریکی اخبارات پاکستان اور افغانستان کے
مابین جنگ کی بات کرتے ہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کی منصوبہ بندی ہو چکی
ہوگی۔ پاکستان کی سڑکوں سے گزر نے والا اسلحہ کل اسی کے خلاف استعمال ہونا
ہے۔امریکا پاکستان کا تصور دشمن تبدیل کرنے کے لئے افغانستان کے ذریعے
پاکستان پر جنگ مسلط کر سکتا ہے۔ افغانستان کا تو فقط نام ہی ہوگا یا صرف
زمین ،کام کرنے والے امریکا نیٹو اور بھارت ہوں گے۔ اسے پاک افغان جنگ
کانام دیا جائے گا۔امریکا رفتہ رفتہ پاکستان کو دیوار سے لگا کر بلی کی طرح
پلٹ کر حملہ کرنے پر مجبور کر رہا ہے تاکہ اسے پاکستان کے خلاف بطور ریاست
کوئی کارروائی کرنے کا موقع مل سکے ۔یہ حماقت انگیز اور ہلاکت خیز امریکی
پالیسی کیا رنگ لائے گی ؟کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن پاکستان اور امریکا
کے درمیان دوستی نام کی کوئی بھی چیز باقی نہیں بچی اب اگر کچھ ہے تو صرف
دشمنی یا دشمنی پیدا کرنے اور اسے بڑھانے والے اسباب و عوامل ہیں۔ |