کیا امریکہ افغانستان کے راستے حملہ آور ہوگا ؟

سینٹرل ایشیا کے دریائے آمو سے لیکر ساﺅتھ ایشیا کے دریائے سندھ تک سنگلاخ ، چٹانوں اور سبزہ زار کی صدیوں کی تاریخ رکھنے والی سرزمین کو پختونخوا کے نام سے جانا جاتا رہا ہے ،پختون قوم کے تاریخی ہیرو احمد شاہ ابدالی اپنے اشعار اور اسلامی عصر میں اخون دردیزہ کی کتاب "مخزن اسلام "(1603-12)میں موجودہ افغانستان کو پختونخوا کہا کرتے تھے۔انگریزوں کیجانب سے بٹوارہ ہونے تک یہ خطہ ایک ہی جغرافیائی وحدت کو طور پر تسلیم کیا جاتا تھا ۔یہ سرزمین اہم ممالک کی سرحدوں سے متصل ہے۔جس میں ایک طرف ، چین ، دوسری طرف ایران اور تیسری طرف سینٹرل ایشیا کی ریاستیں ہیں۔اگر دوسر ے زاوئے سے دیکھا جائے تو امریکہ مخالف بلاک نے افغانستان کا حصار کیا ہوا ہے۔جب کہ پاکستان میں امریکہ نواز پالیسوں کی وجہ سے حکومت امریکہ حامی اور عوام امریکہ مخالف جذبات رکھتے ہیں۔پاکستان میں پختونخوا شمال سے جنوب جو کہ باجوڑ سے سبی ، جنوب میں کوہ سلیماں جوکہ ہندو کش سے نکل کر تقریبا شمال مشرق میں ہندو کش و قراقرام کے پہاڑ جن کے آگے چین اور سینٹرل ایشا واقع ہیں جبکہ جنوب میں کوہاٹ ، بنوں ، ڈیرہ جات ،وب ، گوال ، کچلاک اور کوئٹہ جبکہ جنوب مغرب میں فرغی، چنارا،ار تابینہ واقع ہے۔1893ءمیں سرمور ٹیمر ڈیورنڈ کی زیر قیادت برطانوی مشن نے اپنے مفادات کے تحت افغانستان تقسیم کرکے ڈیورنڈ لائن کا قیام عمل لاکر مووجودہ پاکستان کے اندر واقع علاقے کو انگریزوں نے 1901ءمیں برٹس انڈیا کے زیر تسلط پختونخوا کو علیحدہ صوبائی حیثیت دیکر ایسے NWFP(صوبہ سرحد)کا نام دے دیا۔جیسے ا ب ہم صوبہ خیبر پختونخوا کے نام سے جانتے ہیں۔

تاریخی تمہید کا مقصد افغانستان کی جغرافیائی اہمیت کا اجاگر کرنا تھا کہ امریکہ مخالف بلاک ہونے کی وجہ سے امریکہ کےلئے یہ خطہ کس قدر اہمیت کا حامل ہے ۔اس لئے جب ضیا الحق کے مارشل لاءمیں اسلام کے نام پر روس زار کے خلاف مجاہدین صف آرا ہوئے تو خود امریکہ کو بھی یقین نہیں تھا کہ ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ اس کے تربیت یافتہ پسندیدہ طالبان اس کے خود اتنے شدید مخالف بن جائیں گے کہ اس کا وسطی ایشیا ممالک ، ایران اور چین کو زیر کرنے کا خواب ادھورا رہے گا لہذا جب9/11کے واقعے کے بعد امریکہ کو دخل اندازی کا سنہرا موقع ملا تو اس نے ایک لمحے کا انتظار کئے بغیر نیٹو سمیت اپنی مسلح افواج کو افغانستان کی سرزمین میں اتار دیا اور پاکستان کی امریکہ نواز حامی حکومت جس کی پہلی بنیادجنرل ایوب کے مارشل لاءکے بعد اس کے حواریوں، جنرل یحی، جنرل ضیا ءالحق اور جنرل مشرف نے پالیسی جاری رکھ کر پرائی جنگ میں 34لاکھ سے زائد افغانیوں سمیت ہزاروں پاکستانیوں کو جھونک دیا۔ جس کا فطری نتیجہ امریکہ مخالف جذبات کی شکل میں نکلا ۔جیسے جہادی تنظیموں نے بھرپور اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا اور اسلام کے نام پر سرشار ہونے والے سادہ لوح مسلمانوں کو مسالک ، فقہ ، شریعت اور دین کے نام پر برواختہ کرکے امریکہ سے فروعی مفادات حاصل کئے جاتے رہے۔نیٹو سپلائی سے قبل متعدد ایسے امور سامنے آئے جس نے سب کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ حکومتی ایسے عناصر جو کل تک امریکہ نواز پالیسوں کے ہمنوا رہے اب قوم کو حقائق سے بے خبر رکھ کر ایسے عوامل مصنوعی طور پر رونما کر رہے ہیں جس کے سبب عوام آنے والے اہم اور خطرناک خطرے سے اس وقت آگاہ ہوں جب پلوں سے پانی گذر جائے۔پاکستان کے قیام کے بعد سے لیکر آج تک کسی حکومت نے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کیا اور ملک کے دو لخت ہونے کے باوجود نوکر شاہی کے طرز عمل میں تبدیلی کا کوئی عنصر نہیں پایا گیا ۔جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے کہ ملک کو درپیش خطرات کا ادراک کرنے کے بجائے ملک کی تمام سیاسی ، مذہبی جماعتیں اقتدار کے حصول کی رسہ کشی میں مصروف ہیں۔گمان غالب تھا کہ نیٹو سپلائی کے بعد بحیرہ عرب میں لنگر انداز ہوونے والا امریکی جنگی بیڑا واپسی کا راہ لیگا لیکن قوم کی وحدت کی انتشار پذیری کا بھر پور فائدہ اٹھانے کےلئے امریکی جنگی بیڑا ابھی تک سطح سمندر پر بھاری جنگی ساز و سامان ، میزائیل ،ٹینک اور دیگر اسلحہ جات کے ساتھ اب بھی موجزن ہے۔ملکی اندرونی خلفشار ، فرقہ واریت ، لسانیت ، عصبیت ،نسل پرستی کی آگ کے شعلوں میں پاکستانی عوام کو اتحاد و اخوت کے سبق کو مسلسل کئی سالوں سے ارباب اختیار سے لیکر عوام تک کو آگاہ کیا جاتا رہا ہے لیکن سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عظیم خطرے کو عوام سے پوشیدہ رکھا جا رہا ہے۔خدشات ہیں کہ افغانستان میں در اندازی ،حقانی گروپ ، کوئٹہ میں طالبان شوری کی موجودگی اور جنوبی وزیرستان میںجہادی کیمپوں کو بنیاد بنا کر پاکستان پر حملہ کیا جا سکتا ہے جس کا اشارہ بار بار کیا جا رہا ہے اور یہ تمام امور کسی سے پوشیدہ بھی نہیں ہے ۔بلوچستان کی ناگفتہ صورتحال کو اگر کنٹرول نہیں کیا گیا تو بنگلہ دیش کے طرح امریکہ کو بلوچستان اپنے مفادات کے حصول کےلئے اہم بیس میسر آجائے گا اور افغانستان میں بیٹھ کر چین ، ایران اور وسطی ایشا کے ممالک کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ناک میں نکیل ڈال دےگا ۔ہمیں ان خطرات ، اور ماضی کی غلط پالیسوں کا ادارک کرکے اقتدار کی رسہ کشی کے بجائے اخوت ، اتحاد اور ملی قومی جذبے کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان ہوگا تو سب کچھ ہے ۔ہماری سیاسی ،شخصی ، اجتماعی اور انفرادی آزادی پاکستان کی بقا سے وابستہ ہے ۔ کوئی قوم جب غلام بن جاتی ہے تو صدیاں لگتیں ہیں اس کو خوئے غلامی سے نکالنے کےلئے ، لہذا اپیل ہے کہ بلا امتیاز رنگ و نسل ،مذہب پاکستان کی سلامتی کے لئے تن من دھن سے یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔کیونکہ یہ ناگزیر ہے ہمیں اپنا فرض ادا کرنا ہے کہ تمام اختلافات پس پشت ڈال کر کس طرح بیرونی خطرات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 264719 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.