دین اسلام کا ایک مخلص مبلغ شاگردِرضاعلامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ

بموقع یوم ِ ولادت ۵۱ رمضان المبارک

ولادت:حضرت مولانا عبدالعلیم صاحب صدیقی قادری میرٹھی بتاریخ 15 رمضان المبارک 1318ھ محلہ مشاگان شہر میرٹھ (یو پی)میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والدبزرگوار مولانا شاہ عبدالحکیم صاحب صدیقی اپنے وقت کے اکا بر علماءو صوفیا میں شمار کیے جاتے تھے، حسب ونسب کا سلسلہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے، آباءواجداد میں پہلے حضرت مولانا حمید الدین صاحب ہندوستان آئے اور شہنشاہ بابر کی فوج میں ایک اعلیٰ عہدے پرفائز ہوئے ۔

تحصیل علوم عربیہ:
ابتدائی تعلیم آپ نے میرٹھ کے مدرسے میں اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی۔ بچپن ہی سے ذہین تھے۔ تھوڑے ہی عرصے میں قرآن مجید مکمل کرلیا ختم قرآن پاک اور ابتدائی کتب پڑھنے کے بعد ہی آپ کو مدرسہ عربیہ میرٹھ میں داخل کیا گیا۔ آپ کی قوت حافظہ کا یہ عالم تھا کہ اساتذہ جس قدر درس دیتے تھے اس کا ایک ایک لفظ ذہین نشین ہو جاتا تھا اور جب آپ کے ہم سبق درس کی تکرار کرتے تو آپ استاد کی پوری تقریر سنا دیتے تھے۔ آپ کے اساتذہ کہا کرتے تھے۔ ہمارا یہ شاگرد مستقبل قریب میں اپنے وقت کا ایسا فاضل ہوگا جو علماءاور آباءواجداد کا نام روشن کرے گا۔ مدرسہ عربیہ کے علاوہ آپ نے مدرسہ عربیہ قومیہ میرٹھ میں بھی تعلیم پائی۔ فارسی اور اردو پر دسترس حاصل کی۔

تبلیغ کی اشاعت دین کا شوق:
عربی کی تعلیم مکمل کر کے طالب علمی کے زمانے ہی سے آپ کو تبلیغ واشاعت دین ،مناظرہ ومکالمہ ،مذاہب عالم کے مطالعے کا شوق تھا۔ ۹ سال کی عمر میں دیانت وذکاوت کا یہ عالم تھا کہ عالمانہ مباحثے کرتے تھے۔ جمعہ کے دن اکثر اپنی لکھی ہوئی تقریر ذہین نشین کر کے جامع مسجد میرٹھ میں سناتے تھے۔ اپنے والد بزرگوار سے اکثر کہا کرتے تھے ،خدا نے اگر مجھے موقع دیا تو میں ہندوستان سے نکل کر دنیا کے ہر حصے میں اشاعت دین کروں گا۔ 1950ءمیں جب سن بارہ سال کا ہوا تو سایہ پدری سر سے اٹھ گیا۔ ابتدائی تعلیم ختم ہو چکی تھی، بعد میں مولانا عبدالمومن ،مولانا قاضی احتشام الدین، مولانا محمد شاہ اور مولانا امجد علی سہار نپوری کے شاگرد ہوئے اور اکتساب علم کرتے رہے۔ سترہ سال کی عمر میں علوم مذہبی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے علوم عربیہ کی تکمیل کے بعد علوم جدیدہ کی تحصیل کی۔ اولا ًاٹاوہ ہائی اسکول اور پھر گورنمنٹ کالج میرٹھ میں اور بعد میں میرٹھ کالج میں انگریزی علوم کی تحصیل کی۔

اس کے بعدسرکار اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی رحمة اللہ علیہ کی صحبت میں رہ کر پنجاب یونیورسٹی سے علوم مشرقی کی ڈگری حاصل کی۔ کتب بینی کے شوق نے عربی وفارسی اور اردو کی طرح انگریزی زبان کا ماہر بنادیا۔ میرٹھ کالج کی طالب علمی کے زمانے میں ہی آپ کو برما مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی صدارت کے لیے تجویز کیا گیا۔ اس کانفرنس میں آپ نے جو معرکة الا آرا خطبہ صدارت ارشاد فرمایا وہ برما، ملایا، سیلون، اور انڈونیشیا کے گوشے گوشے میں پہنچا۔ اس سے آپ کی شخصیت ان اطراف میں مشہور ہوگئی۔ برما کے مقتدر مسلم لیڈروں سے تبلیغ واشاعت دین پر جو گفتگو ئیں وہ در اصل مستقبل کے تبلیغی مشن کے لیے بنیادو اساس بن گئیں۔قدرت نے حضرت علامہ کو زور تقریر وحلاوت گفتار خاص طور پر ودیعت کیا تھا۔آپ کوہر سال ماہ محرم الحرام میں وعظ فرمانے کے لیے ممبئی بلایا جاتاجہاں لاکھوں مشتاق دیدار گرویدہ،مہینوں پہلے سے آپ کی آمد کے مشتاق رہتے تھے۔شدھی تحریک سے حفاظت کے پیش نظر آپ نے ممبئی،کرناٹک،احمدآباد اور گجرات میں تبلیغی مراکز قائم کیے۔ آپ نے بہت سی سیاسی وقومی تحریکات میںنمایا ںحصہ لیا۔

صحافتی خدمات:
علامہ نے 1928ءمیں سیلون سے انگریزی اخبار”Star of Islam“(کوکب اسلامی)کی بنیاد رکھی اور سنگاپور میں ایک انگریزی رسالہThe Genuin Islam جاری کیا۔آپ کی سرپرستی میں امریکہ سے ایک بلند پایہ اسلامی میگزین بنام”The Islamic World & The U.S.A. “(اسلامی دنیا اور امریکہ )جاری ہواجوآج بھی اسی آب وتاب کے ساتھ شائع ہورہاہے۔ڈربن جنوبی افریقہ میں”دی مسلم ڈائجسٹ“ جاری کیا غرضیکہ مختلف ممالک میں مختلف اخبار وجرائد جاری کیے۔آپ کودنیا کی کئی زبانوں پرمکمل دسترس حاصل تھیںاور مذاہب عالم اور علوم جدیدہ پر آپ کی نظر وسیع تھی جو ایک جامع مبلغ اسلام میں ہونی چاہئے۔اسی لیے آپ نے دنیا کے ہر حصے میں پہنچ کرتبلیغ واشاعت کا ٹھو س کام کیا۔

عالمی تبلیغی دورے:
آپ نے جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک:سیلون،برما(میانمار)،شیام،انڈونیشیا،فرانسیسی ہند چین، ملایا، چین، جاپان، سنگاپور،کولا لمپور،یورپی ممالک : امریکہ ، جرمنی،فرانس،انگلینڈ،روم،کناڈا،افریقہ ،برٹش ویسٹ انڈیز،بلاد اسلامیہ :مصر، سیریا ، عراق ،لبنان،ترکی اور بھی بہت سے ممالک کا تبلیغی دورہ اس وقت فرمایا جب اس قدر اسباب ووسائل موجود نہیں تھے۔ان عالمی دوروں میں جہاں آپ نے بے شمار کانفرنسوں، سوسائٹیوں اور انجمنوں میں شرکت کیں،دنیا کے ہر حصے میں تبلیغی ادارے۔کالج ،لائبریریاں،مدارس اور مساجد قائم کیں وہیں سائنس اور فلسفے کے ماہرین اور یونیورسیٹیوں کے فضلاءسے معر کة الآرا مباحثے بھی ہوئے۔آپ نے ہزارہا انگریزوں کو کلمہ شہادت پڑھایا، اَن گنت لوگوں کے ایمان کی حفاظت کیں اورقادیانیوں اور عیسائی جماعتوںنے جن ہزارہا مسلمانوں کو عیسائی بنالیا تھا انھیں پھر دعوت اسلام دی،ان میں سے اٹھارہ ہزارنے اسلام قبول کرلیا۔

وفات:
سلسلہ علالت ماہ رمضان المبارک سے قبل جاری تھا۔بیماری کے باوجود فرائض اسلام ادا کرتے رہے۔رمضان المبارک کے روزے رکھتے،نماز تراویح میں شریک اور نماز تہجد بلا ناغہ ادا کرتے اور حرم شریف میں حاضر رہتے۔۲۲اگست کی رات آپ نے سر حضور پرنور ﷺ کے روضہ اقدس کی جانب کیااور دنیائے تبلیغ کے ایک آفتاب عالمتاب نے دنیا سے منہ چھپالیا،ہر کس وناکس ماتم کناں تھا،جسد مطہر کو آب زمزم سے غسل کرایا گیا۔آب زمزم سے شستہ کفن کو عطر بیز کرکے کفن پہنایا گیا۔مسجد نبوی میں نماز جنازہ ہوئی اور جنت البقیع میں ہزارہا صحابہ کرام،بانی اسلام کے اعزاواقربا،فرزاندان توحید اور بزرگان دین ومجاہدین اسلام کے بیچ سپرد لحد کیا گیا۔اس طرح بیک وقت آپ کو دو جنتیں میسر آئیں،ایک جنت البقیع جنت اور دوسرے آپ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قدموں میں ہے،ماں کا قدم دوسری جنت،گویا کہ دین کی خدمت کی مولیٰ نے یہ جزادی کہ ایک صدیقی ،صدیقہ کے قدموں میں مدفون ہے۔(ماخوذ:ذکر حبیبﷺ)
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731348 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More