محترم قارئین :جب ہم مصنوع یعنی
کسی بنائی ہوئی چیز کی تعریف کررہے ہوتے ہیں حقیقتا ہم بنانے والے کی تعریف
کررہے ہوتے ہیں ۔رمضان المبارک کی ان پرکیف ساعتوں میں ان نیک و پارسا
ہستیوں کے متعلق مستقل پروگرام کررہے ہیں ۔گویا ہم نیک لوگوں کاچرچاکرکے
اللہ عزوجل کی عظیم شہکار و تخلیق کی چرچاکررہے ہیں ۔
آج ہم ایک اور برزگ ہستی جن کی اسلام دوست شخصیت ،باریک بین نظر آج بھی
سییر و تاریج کی کتب میں قابل رشک باب ہے ۔
وہ ہستی جن کی راتیں اپنے رب کی بارگاہ میں سجدوں اور دن روزوں میں گزرتے ۔
حلم اور بردباری کا پیکر ہونے کی وجہ سے لقب کاظم (یعنی غصہ کو پی جانے
والا )ہوا۔جُودوسخا کا یہ عالم تھا کہ فقراء ِ مدینہ کو تلاش کرتے اور ہر
ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق رقم رات کے وقت اِس طرح پہنچاتے کہ انہیں خبر
تک نہ ہوتی کہ یہ رقم کون دے کر گیا ہے ۔ مستجاب الدعوات تو ایسے تھے کہ جو
لوگ آپ کے وسیلے سے دُعا کرتے یا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دُعا کرواتے
وہ اپنے مقصود کو پہنچتے اور ان کی حاجتیں پوری ہوجاتیں ۔
جانتے ہیں وہ عظیم ہستی کون ہیں ؟
محترم قارئین کرام:وہ پاکباز نیک فطرت ،نیک طینت ہستی حضرت امام موسیٰ کاظم
رضی اللہ عنہ ہیں۔
آئیے ان کی سیرت سے اکتساب ِ فیض کرنے کی سعی کرتے ہیں اللہ عزوجل !ہمیں حق
بیان کرنے حق پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔
٭٭٭(حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ)٭٭٭
نام ولقب:
حضرت موسیٰ بن جعفر الصادق رضی اللہ عنہما بارہ آئمہ کرام میں سے ساتویں
امام ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لقب کاظم ہے
والدہ محترمہ کا نام:
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ محترمہ کا اسم گرامی اُمِّ ولد حمیدہ بریرہ
تھا۔
ولادت باسعادت:
آپ مقام ابواہ جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ہے بروز اتوار
صفرالمظفر کی ٩ تاریخ ١٢٨ھجری کو پیدا ہوئے۔
وصال مبارک:
آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ١٨٢ھجری ٢٥ رجب المرجب بروز جمعۃ المبارک ہارون
الرشید کی قید میں وصال فرمایا آپ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک بغداد شریف
میں ہے
کھجوروں میں زہر ملایا جانا:
کہا جاتا ہے کہ آپ کو یحییٰ بن خالد برمکی نے ہارون الرشید کے حکم سے
کھجوروں میں زہر ملا کر کھلایا تھا۔
آپ سے روایت ہے کہ جب آپ کو زہر دیا گیا توآپ نے فرمایا: ''آج مجھے زہر دے
دیا گیا ہے اس لیے کل میرا جسم زرد ہو جائے گا پھر آدھا بدن سرخ ہو جائے گا
پھر سیاہ ہوجائے پھر میں وصال کرجاؤں گا''۔
پھر ایسا ہی ہوا جیسا آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا۔
(کراماتِ امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ)
کمال کی کوئی حد نہیں:
حضرت شفیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں دوران سفر حج سر
زمین قادسیہ میں جا نکلا وہاں میں نے ایک حسین وجمیل اور بلند قامت نوجوان
دیکھا جو پشمینہ لے لباس میں ملبوس تھا اور کندھے پر ایک شمل آویزاں تھا
اور پاؤں میں جوتا پہنے ہوئے تھا وہ بکثرت لوگوں سے ہوتا ہوا ایک جگہ اکیلا
آکر بیٹھ گیا میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ نوجوان صوفیا کے گروہ سے معلوم
ہوتا ہے اور آرزو مند ہے کہ اس سفرمیں مسلمان میری مدد کریں اس لیے بہترہے
کہ میں اسے جاکر اس سے روکوں تاکہ وہ اس کام سے پیچھے ہٹ جائے۔ جب میں اس
کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے کہا:
یاشفیق اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم
ترجمہ: ''اے شفیق کثیر گمانوں سے پرہیز کرو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے
ہیں''۔
یہ کہا اور وہ چل دیا میں نے اپنے دل میں سوچا کہ عجب بات ہوئی کہ اس نے
میرا نام اور ما فی الضمیر کہہ دیا۔یہ کوئی نہایت نیک اطوار شخص ہے مجھے اس
سے اپنے خیال کی معذرت کرنی چاہیے میں نے ہر چند تیز چلنے کی کوشش کی لیکن
میں اسے نہ پا سکا۔پھر دوسری منزل پر پہنچے تو اسے نماز میں دیکھا۔اس کے
جسم پر لرزہ طاری تھا اور آنکھوں میں آنسو جاری تھے۔ میں نے پھر چاہا کہ اس
سے معذرت طلب کروں۔پھر چند منٹ بعد اس کی جانب چل دیا۔ پھر اس نوجوان نے
کہا:
'' اے شفیق اس آیت کو تلاوت کرو''۔
(وانی غفار لمن تاب وامن صالحا ثم اھتدی)
ترجمہ: اور میں تو ہر اس شخص کو بخشنے والا ہوں جس نے توبہ کی اور ایمان
لایا اور صالح عمل کیے پھر ہدایت پائی۔
یہ کہا اور مجھے چھوڑ کر چل دیا۔ میں نے خیال کیا کہ یہ شخص ابدال ہے جس نے
دوبارہ میرے دل کے خیال کو بھانپ لیا ہے۔
پھر ایک اور جگہ پہنچے تو میں نے اسے ایک کنویں پر کھڑا پایا اور اس کے
ہاتھ میں ایک چرمی ڈول تھا جس سے وہ پانی نکالنا چاہتا تھا لیکن وہ ڈول
کنویں میں جا پڑا اس نے آسمان کی طرف منہ کر کے کہا:
انت ربی اذا الظلمت الماء وقوتی اذا اردت الطعام اللہم سیدی الی غیرہا فلا
تقدیما۔
ترجمہ: تُو میرا رب ہے جب میں ظلم کروں بے شک تو میرے لیے کھانا فراہم کرتا
ہے جب میں کھانے کا ارادہ کرتا ہوں اے میرے اللہ اے میرے سردارتیرے سوا غیر
کی طرف قدم نہ اٹھے۔
بخدا میں نے پانی کو اوپر آتے ہوئے دیکھا تو اس نوجوان نے اپنا ہاتھ بڑھا
کر ڈول کو پانی پر سے اٹھا لیا اور اس سے وضو کر کے چار رکعت نماز ادا
فرمائی پھر وہ ریت کے ایک کی طرف چل پڑا اور اپنی مٹھی میں تھوڑی سی ریت
پکڑ کر اس ڈول میں ڈال دی۔ پھر ہلایا اور پی گیا۔ جب میں نے یہ دیکھا تو اس
کے پاس گیا
اور سلام کیا۔ اس نے سلام کا جواب دیا میں نوجوان سے کہا:
''اے نوجوان مجھے کھانا کھلائیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کچھ دے
رکھا ہے''۔
اس نوجوان نے کہا:
''اے شفیق اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ مجھے ظاہروباطن کی نعمتیں ملتی رہتی ہیں اس
لیے تو اس کے بارے میں نیک گمان رکھ''۔
پھر اس نے مجھے وہی ڈول دیا جس سے میں نے پانی پی لیا اس میں ستو اور شکر
تھی۔اللہ کی قسم اس سے شیریں اور لذیذ پانی میں نے کبھی نہیں پیا تھا۔ میں
خوب سیر شکم ہو گیایہاں تک کہ مجھے چند روز تک کھانے پینے کی خواہش نہ رہی
ازاں بعد وہ مجھے نظر نہ آیا۔
پھر جب ہم مکہ معظمہ پہنچے تو میں نے اسے نمازِ تہجد میں دیکھا وہ نہایت
خشوع سے نماز میں مشغول تھا اور آنکھوں سے آنسو جا ری تھے ۔یہ سلسلہ تمام
رات جاری رہا۔ صبح ہوئی تو نمازفجر کے بعد طواف میں مشغول ہو گیا۔ پھر طواف
کر کے باہر چلا گیا۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔پھر میں نے دیکھا کہ
اب اس کے ساتھ کئی خادم تھے اور کثیر التعداد افراد اس کے ارد گرد تھے اور
سلام عرض کرکے یا ابن رسول اللہ کے نام سے پکار رہے تھے۔ میں نے لوگوں سے
دریافت کیا تو پتا چلا کہ یہ حضرت موسیٰ بن جعفر بن علی بن حسین بن علی بن
ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں۔ میرے منہ سے برجستہ نکلا کہ اس سید سے اس قسم
کے عجائب وغرائب کا ظہور کوئی تعجب کی بات نہیں۔
مکان گرنے کی خبر دینا:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص نے بیان کیا کہ میں مدینہ شریف میں مجاور
تھا اور میں نے ایک مکان کرایہ پر لے رکھا تھا اور میں کثرت سے حضرت موسیٰ
کاظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ہی رہتا۔ایک روز شدت کی بارش ہوئی میں بارشی
لباس پہن کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا۔آپ سلام کا جواب دیا
اور پھر فرمایا:
''اے فلاں ابھی ابھی اپنے گھر چلے جاؤ کیونکہ بارش کی وجہ سے تمھارے مکان
کی چھت گر گئی ہے اور تمہارا مال ومنال نیچے آ کر دب گیاہے''۔
میں واپس آیا تو دیکھا کہ میرے مکان کی چھت گر گئی ہے۔میں نے چند آدمیوں کو
کرایہ پر لیا جنہوں نے میرا سامان نیچے سے نکالا صرف ایک طشتری گم ہوئی جس
سے میں وضو کرتا تھا۔آپ کو علم ہوا تو آپ نے مراقبہ کر کے فرمایا:
''میرا خیال ہے کہ تم اسے کسی جگہ بھول گے ہو جاؤ اپنی سرائے کے مالک کی
کنیز سے دریافت کرو کہ میری طشتری تو نے تو نہیں اُٹھائی۔اگر اُٹھائی ہے تو
مجھے واپس دے دو وہ تمہیں واپس دے دے گی''۔
میں نے واپس جا کر کنیز سے کہا:
''میں فلاں جگہ اپنی طشتری بھول گیا تھا تم آئی تھیں اور اٹھا کر لے گئی
تھیں وہ مجھے واپس کر دو تاکہ میں وضو کروں''۔
زادِ راہ میں برکت کا حصول :
ایک راوی نے بیان کیا کہ علی بن یقظین وغیرہ نے مجھ سے کہا کہ فلاں آدمی کے
ساتھ کوفہ جاؤ اور وہاں سے دو سواریاں خرید کر کے یہ خط اور یہ مال حضرت
موسیٰ بن جعفر کی خدمت میں پہنچا دو۔میں کوفہ گیا اور اس شخص کے ساتھ دو
سواریاں خریدیں۔ جب مدینہ شریف کے قریب پہنچے تو ایک جگہ قیام کر کے کچھ
تناول کیا اور پھر اچانک ہماری نگاہ حضرت موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ پر پڑی
جو ایک خچر پر سوار تشریف لا رہے تھے۔ہم تعظیماً کھڑے ہوگئے اور آپ کی خدمت
میں سلام کیا۔ آپ نے فرمایا:
''تمہارے ہاں جو کچھ بھی ہے حاضر کردو ''۔
ہم نے سب کچھ آپ کی خدمت میں پیش کر دیا اور پھر وہ خط بھی آپ کو دے دیا۔
آپ نے کچھ خط آستین سے نکال کر فرمایا:
''یہ تمہارے خطوں کے جواب ہیں اب خدا کی حفاظت میں واپس لوٹ جاؤ''۔
میں نے عرض کیا ہمارا زادِ راہ ختم ہو چکا ہے اگر اجازت ہوتو حضور علیہ
الصلوۃ والسلام کی زیارت سے فارغ ہونے کے بعد راستہ کاخرچہ بھی لے لیں
آپ نے فرمایا:
''کیا تمہارے پاس کچھ توشہ بچا ہوا ہے''؟
ہم نے عرض کیا:
''ہاں''۔
آپ نے فرمایا:
''اسے میرے پاس لاؤ''۔
ہم نے حاضر کر دیا۔آپ نے اسے ہاتھ میں لے کر فرمایاکہ:
''یہ زادِ راہ تمہارے لیے کوفہ تک کافی ہو ہے تم بحفاظت خداوندی واپس چلے
جاؤ''۔
آپ کے ارشاد عالیہ کے مطابق ہم واپس لوٹ آئے اور وہ راستہ کا خرچ بھی کوفہ
آ کر باقی بچ گیا۔
پانی میں گرے ہوئے کنگن کی دستیابی:
ایک راوی نے بیان کیا کہ جب آپ کو بصرہ لے گئے تومیں مدائن کے نزدیک آپ کے
ہمراہ کشتی میں سوار ہوا۔ ہمارے عقب میں ایک کشتی تھی جس میں ایک دولہن
سوار تھی۔ اچانک کشتی سے شور برپا ہوا آپ نے پوچھا:
''یہ شور کیسا ہے؟''
میں نے عرض کیا کہ:
''کشتی میں دولہن جارہی ہے''۔
کچھ وقت گزرا تو شور سنائی دیا۔ آپ نے دریافت کیا:
''یہ شوروغل کیسا ہے؟''
لوگوں نے عرض کیا کہ:
''حضور کشتی میں بیٹھی ہوئی دولہن نے دریا سے تھوڑا سا پانی لینا چاہا تو
اس کا طلائی کنگن پانی میں گر گیا اور وہ اس کے گم سے آہ زاری کر رہی ہے''۔
آپ نے فرمایا:
''کشتی خیال رکھنا''۔
لوگوںنے آپ رضی اللہ عنہ کے حکم پرعمل کیا۔
پھر آپ نے فرمایا:
''اس کشتی کے ملاح سے بھی کہہ دو کہ کشتی کی حفاظت کرے''۔
کشتی کنارے پر لگی تو آپ نے اپنے منہ میں کچھ پڑھنا شروع کردیا اور پھر
ملاح سے فرمایا:
''وہ کپڑا باندھ کر پانی میں چھلانگ لگائے اور کنگن پکڑ لے''۔
ہم نے دیکھا کہ جب آپ نے فرمایا تو کنگن پانی کے اوپر تیرنے لگا اور ملاح
نے چھلانگ لگا کر کنگن کو پکڑ لیا۔
۔۔۔
سبحان للہ :کس قدر فضیلت و برکتیں حاصل تھیں ۔لیکن ایک ہم ہیں کہ مال
متاع،جاہ حشمت کی دوڑ میں مصروف ِ عمل ہیں ۔ظاہری نام ونمود ،شہرت کے لیے
ناجانے کیاسے کیا کرگزرتے ہیں ۔ڈاکٹراقبال نے بڑی خوبصورت بات کہی کہ
اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات جو فقر سے ہے میسر، تو نگری سے نہیں
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
سبب کچھ اور ہے، تو جس کو خود سمجھتا ہے زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا قلندری سے ہوا ہے، تو نگری سے نہیں۔۔
محترم قارئین :نئے عزم ،نئے جذبوں اور اسلام کی ایک اور تاریخ ساز شخصیت کے
تعارف کے ساتھ پھر حاضرہونگے ۔اپنا ڈھیرساخیال رکھے گا۔اللہ ہم سب کا حامی
و ناصرہو۔اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازتے رہیے گا۔ |