کہیں ایسا نہ ہوجائے

میں نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے اور شعور کی دہلیز پر قدم رکھے ہیں یہی دیکھا اور محسوس کیا ہے کہ ایک تو ہم بہت جذباتی لوگ ہیں دوسرے اپنی آنکھ کا شہتیر ہمیں نظر نہیں آتا لیکن دوسروں کی آنکھوں میں تنکے ضرور تلاش کر لیتے ہیں۔ کبھی مذہب کا نام لیکر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں، دشنام طرازی کرتے ہیں حتیٰ کہ مرتد ثابت کرکے قتل تک کے فتوے صادر کردیتے ہیں، کبھی سیاسی، کبھی ذات برادری اور کبھی لسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کو مارتے ہیں، جو لوگ ایسا نہ کرسکتے ہوں وہ دوسرے فرقے، دوسری جماعت اور دوسری زبان بولنے والوں کو گالی دینا عین فرض خیال کرتے ہیں۔ غیبت اور بہتان لگانے میں اتنے دیدہ دلیر ہیں کہ اگر اپنی ذات، برادری، مسلک و فرقہ، جماعت یا ہم زبان لوگوں پر کوئی بات آرہی ہو تو فوراً فریق مخالف کی ماں بہن ایک کرکے رکھ دیتے ہیں اور ایسے ایسے گھٹیا الزامات سر بازار لگاتے ہیں کہ اکیلے میں سوچ کر خود بھی شرم سے پانی پانی ہوجاتے ہیںلیکن جب کسی محفل میں بیٹھے ہوں، جب کسی ٹی وی چینل پر کیمرے کے سامنے ہوں ، اسمبلی میں تقریر کررہے ہوں، نجی محافل ہوںیا کوئی جلسہ جلوس ہو تو اپنی اپنی اناﺅں کے اس طریقے سے اسیر ہوتے ہیں کہ دوسرا فریق ہمیں کوئی انتہائی گھٹیا اور غلیظ شخص نظر آئے گا جس کے نہ کوئی انسانی حقوق ہوتے ہیں نہ کوئی اخلاقی۔ایسے ایسے الزامات ایک دوسرے پر لگائے جاتے ہیں کہ بس اللہ کی پناہ!

جب وکلاءتحریک جاری تھی اور میں بھی اس کا ایک حصہ ہونے کی نسبت سے اکثر جلسوں، جلوسوں، کنونشنز وغیرہ میں جایا کرتا تھا خصوصاً ہر جمعرات کو جب ایوان عدل لاہور سے چیرنگ کراس تک ریلی نکلا کرتی تھی تو اس میں ہم سب لوگ جذباتی نعرے لگایا کرتے تھے، وہ نعرے اس وقت بہت بھلے لگتے تھے، عدلیہ کو معزول کرنے والے جنرل مشرف اور اس کے حواریوں کو انسان سے جانور بنا دیا جاتا تھا اور بشمول میرے سبھی لوگ جذبات سے مغلوب ہوکر ان نعروں کا جواب دیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب جنرل مشرف نے وردی اتارنے کے حوالے سے ایک بیان دیا کہ ”وردی تو میری کھال ہے، اسے کس طرح اتار دوں“ تو اس کے بعد سپریم کورٹ اسلام آباد میں ایک کنونشن منعقد ہوا جس میں خیبر پختونخواہ سے ایک سینئر وکیل صاحب اور وکلاءتحریک کے مرکزی راہنما نے اچھی بھلی تقریر کرڈالی، اس تقریر میں انہوں نے کھال کے حوالے سے بال کی کھال اس طرح اتاری کہ ہال میں موجود ججز سمیت تمام شرکائ، جس میں ظاہر ہے کہ اکثریت وکلاءکی تھی، عش عش کر اٹھے۔ ان وکیل صاحب نے مختلف جانوروں کی کھالوں کے حوالے سے لمبی چوڑی ”رپورٹ“ پیش کی اور آخر پر جنرل مشرف کی کھال کو چند ٹکوں سے بھی کم اہمیت والی کھال ثابت کرکے ہی دم لیا۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم جب جذبات میں ہوتے ہیں، جب جوش میں آتے ہیں تو سوائے جوش و خروش کے ہر بات بھلا دیتے ہیں۔ آج بھی اگر کسی رکشے والے سے، کسی انپڑھ مزدور سے، کسی طالب علم سے ،کسی پڑھے لکھے سے، کسی وکیل یا کسی بیوروکریٹ سے، مختصراً زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھنے والے شخص سے بات کرکے دیکھ لیں، وہ ہمارے سیاسی راہنماﺅں، مذہبی شخصیات، افواج پاکستان سے تعلق رکھنے والوں، میڈیا، وکلاءاور یہاں تک کہ تمام کی تمام عدلیہ کو ننگی گالیاں دینے سے بھی باز نہیں رہے گا بس شرط یہ ہے کہ جس شخص کی بابت بات کی جارہی ہو وہ اس کے مخالف گروہ، جماعت، ذات، زبان سے تعلق رکھتا ہے، کسی کے متعلق بہتان لگانے، اس کی غیبت کرنے اور اس کو دشنام طرازی کا نشانہ بنانے کے لئے یہی قصور اور جرم کافی سمجھا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی حوالے سے ہمارے گروہ سے تعلق نہیں رکھتا۔

اسلام کا تصور یہ ہے کہ کسی کے بارے میں اگر بات ہورہی ہو اور اس شخص میں کوئی عیب ہو اور اس عیب کا ذکر اس کی غیر موجودگی میں کیا جائے تو اس کو غیبت کہا جاتا ہے اور غیبت کرنا ایسے ہی ہے جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا....! اور اگر اس میں وہ عیب نہ ہو اور غلط طور پر اس کے ساتھ منسوب کیا جائے تو اس کو تہمت کہا جاتا ہے اور تہمت کی بہت کڑی سزا رکھی گئی ہے۔ رمضان میں چونکہ ہم بحیثیت قوم ”نیک اور پرہیز گار“ بننے کی کوشش کرتے ہیں، اسی حوالے سے میں رمضان کی آمد سے ہی سوچ رہا تھا کہ جن حکمرانوں ،جن سیاسی و مذہبی راہنماﺅں اور جن دوسرے اشخاص کو ہم اکثر گالیاں دیتے ہیں، ان کو برا بھلا کہتے ہیں، ان کے لئے بددعائیں کرتے ہیں، کہیں ہماری یہ حرکات غیبت و بہتان طراشی میں تو شامل نہیں ہوجائیں گی۔ اس سلسلہ میں جب میں نے ایک عالم دین صاحب سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ حکمرانوں یا حکمرانی کی دوڑ میں شامل لوگوں کے لئے اس میں ایک طرح کا ”استثنیٰ“ رکھا گیا ہے کہ اگر کوئی ظالم و جابر حکمران ہو یا کوئی فاسق و فاجر سیاسی و مذہبی راہنما وغیرہ تو اس کے خلاف بات کرنا غیبت و بہتان طراشی کے زمرے میں نہیں آئے گا، میں نے عرض کیا چلیں مان لیا کہ ان کے خلاف بات کرنا اس زمرے میں نہیں آتا لیکن کیا ان کو گالی دینا، ان پر کفر کے فتوے لگانا اور گندے الزامات لگانا بھی ”استثنیٰ“ میں شامل ہے جس طرح آج کل بہت سے سوشل میڈیا میں ہورہا ہے کہ کسی کو کتے سے تشبیہ دی جاتی ہے اور کسی کو ماں بہن کی گالی سے نوازا جاتا ہے، ان کا جواب تھا کہ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے، ایسی گالیاں تو کسی غیر مسلم شخص کو بھی نہیں دینی چاہئیں، جو بھی بات ہو اس میں شائستگی اور اخلاقیات کا دامن بہرحال نہیں چھوڑنا چاہئے۔ میں تب سے سوچ رہا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت والے دن وہ سب شخصیات ایک بار پھر بڑے بڑے محلات پر قبضہ جمائے بیٹھے ہوں جن کو آج ہم بظاہر ان کے ”کرتوتوں“ کی وجہ سے گالیاں دیتے ہیں اور ہم جیسے غریب لوگ وہاں بھی اگر جنت میں چلے بھی جائیں تو ایسے ہی گھروں میں رہ رہے ہوں، کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ ہمارے اگر کوئی اچھے اعمال ہوں بھی تو وہ یہ ”گیلانی“، ”زرداری“،” شرفائ“ ، ”چوہدری“ ، سیاستدان ، فوجی، بیوروکریٹ اور ان سے ملتے جلتے دیگر لوگ لے اڑیں اور ان کے برے اعمال پاکستانی قوم کے حصے میں آجائیں، جو لوگ یہاں بھی عیاشی کررہے ہیں وہ وہاں بھی موجیں کررہے ہوں، اور ہم یہاں بھی کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں اور آخرت میں بھی کوئی خاص حصہ نہ لے پائیں.... کہیں اللہ کی عدالت ہمیں غیبت اور تہمت جیسے جرائم کا مجرم ثابت نہ کردے....اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو ہم غریب کیا کریں گے.... اللہ کی عدالت کے خلاف تو اپیل بھی کہیں نہیں ہوسکتی.... چنانچہ ہمیں اس رمضان میں ایک ارادہ تو کر ہی لینا چاہئے کہ اگر کسی پر تنقید بھی کریں تو معیاری کریں، اخلاق اور شائستگی کا دامن ہرگز نہ چھوڑیں۔ اللہ ہم سب کو صحیح بات سمجھنے اور اسے آگے پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے....(آمین)
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222371 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.