آسام جل رہا ہے

آسام کے ضلع کوکراجھاراور اس سے متصل ضلع چرانگ میں 19جولائی سے شروع ہونے والے منظم تشدد میں ابتدائی سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کم از کم 244گاﺅوں میں 5000ہزار سے زیادہ مکان جلادئے گئے، 45000 سے زیادہ خاندانوں کے کوئی چار لاکھ چھ ہزار افراد گھر بدرکردئے گئے اور مرنے والوں کی تعداد 56سے زیادہ پہنچ چکی ہے۔ اس شیطنیت کے دوران جب سینکڑوں گاﺅں جل رہے تھے تب وزیراعلا ترن گوگوئی کو، جن کے پاس وزارت داخلہ کا قلمدان بھی ہے، ایک صحافی کا یہ کہنا بہت ناگوار گزرا کہ ’آسام جل رہا ہے‘۔ برا لگنا بھی چاہئے کیونکہ زد براہ راست خود ان پراور ان کی سرکار پرپڑ رہی تھی ،جس کو حال ہی میں عوام نے غیر معمولی اکثریت (126میں 78سیٹ )دے کر تیسری مرتبہ اقتدار سونپا ہے۔ اسمبلی انتخابات کی جو تجزیاتی رپورٹیں آئیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ مسٹر گوگوئی نے ہندو ووٹ حاصل کرنے کےلئے مولانا بدرالدین اجمل کی زیر صدارت سیکولر جمہوری اتحاد”آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ“ کا ہوا کھڑاکیا تھا۔انکا یہ حربہ کامیاب رہا۔ ان کے حق میں ہندو ووٹ یکجا ہوگیااور ریاست سے بھاجپا کا صفایا ہوگیا اوراس کی حلیف آسام گن پریشد کو بھی صرف دس سیٹ ملیں۔ بھاجپا کیڈر نے اپنی پارٹی کے امیدواروں پر مسٹر گوگوئی کے امیدواروںکو ترجیح دی اور سارا سنگھی ووٹ بنک کھسک کر ان کی گود میںآگیا۔چنانچہ مسٹر گوگوئی عسکریت پسند ہندوﺅں کے زیادہ قریب آگئے ۔ہر چند کہ اس الیکشن سے قبل حضرت مولانا ارشد مدنی مدظلہ نے مولانا بدرالدین اجمل کو جمعیة علماءہند سے نکال دیا اور جمعیة کی روایت کا حوالہ دیتے ہوئے مسٹر گوگوئی کی حمایت کا اعلان کردیا مگر اس سے یہ حقیقت بدل نہیں گئی کہ ان کی کامیابی کا سہرابڑی حد تک ہندو ووٹ کے سر ہے۔

اس الیکشن میں تیسری بڑی پارٹی 12سیٹوں کے ساتھ بوڈو پیوپلز فرنٹ بنی۔ اب 2014کا پارلیمانی الیکشن سر پر ہے جس میںمسٹر گوگوئی کو اپنے ہندو ووٹ بنک کو مستحکم کرنے کی فکر ہوگی ۔ ان کا ایک مقصد اس ووٹ بنک پر اثر انداز ہونا بھی ہوگا جوبوڈو فرنٹ کو گیا۔ اس لئے جب بوڈو عسکریت پسندوں نے ’بوڈو کونسل‘ کے زیر انتظام خطہ کی نسلی اور فرقہ ورانہ تطہیر کےلئے وہاں کی مسلم آبادی پر منصوبہ طریقہ سے شبخون مارا تو مسٹر گوگوئی کو آسام جلتا ہوانظر نہیںآیا۔ یہ بات یاد رہے کہ مسٹر گوگوئی کانگریسی وزیر اعلا ہیں اورکانگریس کی ریاستی سرکاروں کی سرپرستی میں ملک بھر میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں جن کی بدولت ان علاقوں میں مسلمانوں کو سخت تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے جہاں صنعت و حرفت یا کسی دیگر پیشہ میں وہ مضبوط تھے۔آسام کے جس علاقے کو اب نشانہ بنایا گیا اس میں مسلمان زراعت پیشہ ہیں اور مقامی قبائلی بوڈو آبادی کے مقابلہ کھیتی باڑی زیادہ بہتر طریقہ پر کرنا جانتے ہیں ۔ بوڈو قبائلی فطرتاً محنتی نہیں ہیںمگر ان میں عسکریت پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ اس فساد نے زراعت پیشہ مسلمانوںکوانکے کھیتوں سے محروم کردیا ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آسام کے مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جاتا ہے اور عجب نہیں وہ کانگریس سے اسی طرح دور ہوجائیں جس طرح یو پی اور بہار میں ہوگئے ہیں۔

تازہ فسادکسی فوری واقعہ کا نتیجہ نہیں بلکہ انتظامیہ کو خوب معلوم تھا کہ صورتحال کسی بھی وقت بے قابو ہوسکتی ہے، اس کے باوجود سرکار ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہی۔ یہ فساد ایسے ہی پھوٹ پڑا جیسے کوئی آتش فشاں پھٹا ہو۔یہ آتش فشاں آسام میں رہ رہ کر پھٹتا رہتا ہے۔ اس کی بنیاد میں 1980کی دہائی کی وہ بوڈو تحریک ہے جو اب الگ ”بوڈو لینڈ “ کا مطالبہ کررہی ہے۔ یہ صرف سیاسی نہیں بلکہ ایک عسکری تحریک ہے جس نے علاقے میں دہشت پھیلارکھی ہے۔ ریاست کے کسی بھی خطے میں بوڈو آبادی 28-27 فیصد سے زیادہ نہیں۔ اس کے باوجوداین ڈی اے کے دور حکومت میں عسکریت پسندوں کے دباﺅ میں 1993میں بوڈو خود مختار کونسل (Bodo Autonomous Concil - BAC) کے قیام کا معاہدہ کرلیا گیا اور اس طرح کامیابی کے ساتھ مسلم اور بوڈو کے درمیان ایک خلیج حائل کردی گئی۔ لیکن اس معاہدہ پر عمل اس لئے التوا میں رہا کہ غیر بوڈو آبادی اس تجویز پر انتہائی فکر مند تھی اور اس کی یہ فکرمندی بعد میں درست ثابت ہوئی۔
مسٹر گوگوئی 2001میں برسرا اقتدار آئے تو انہوںنے ’آنا فاناً فروری 2003 میں’بوڈو خود مختار کونسل قایم ‘ کرادی ۔ جن چار اضلاع کوکرا جھار، باسکا، اودل گری اور چرانگ کو شامل کرکے ”بوڈولینڈ ٹیری ٹوریل اڈمنسٹریٹیو ڈسٹرکٹ “(BTAD) بنایاگیا اس میں بہت سے ایسے گاﺅں شامل ہیں جو صد فی صد غیر بوڈو ہیں۔چنانچہ مجموعی طور سے اس پورے انتظامی ضلع میں بوڈو آبادی ایک چوتھائی سے زیادہ نہیں ہے۔ اس میں مسلمانوں کے علاوہ کوچ راج بنشی، سنتھال اور دیگر آدی باسی قبائل بھی رہتے ہیں۔ کونسل کا سربراہ ہگراما موہی لارے (Hagrama Mohilary)کو بنایا گیا جو عسکریت پسند تنظیم ”بوڈو لبریشن ٹائگرس فورس “ (بی ایل ٹی ایف) کا مکھیا ہے۔ کہا یہ گیا کہ اس کے کیڈر نے ہتھیار ڈالدئے مگر یہ محض ایک فریب ہے۔سرکاری ذرایع کے مطابق اب بھی 1200سے زیادہ اسلحہ عسکریت پسندوں کے پاس موجودہے۔بی ایل ٹی ایف کے کیڈر آج بھی اسلحہ لئے گھومتے ہیں اور غیر بوڈو باشندوں سے جبری وصولی کرتے ہیں۔ یہ کونسل صریحا غیر جمہوری بنیادوں پر قایم ہوئی ہے جس میں علاقے کی 75فیصد غیر بوڈوآبادی کو نظر انداز کرکے کل اختیارات بوڈوعسکریت پسندوںکے حوالے کردئے گئے ہیںجن سے فطری طور سے غیر بوڈو عاجز ہیں۔

کونسل کے قیام سے حوصلہ پاکر بوڈو عسکریت پسندوں نے ایک قدم اور آگے بڑھایا ۔ انہوںنے ان اضلاع میں اپنی اکثریت قائم کرنے کےلئے غیر بوڈوباشندوںکو، جن میں بڑی تعداد بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی ہے ، نکال باہرکرنے کےلئے تشدد شروع کردیا۔ہر چند کہ عام بوڈو اس شر کو پسند نہیں کرتے مگر مسلح سیاسی غنڈوں کے سامنے وہ بھی بے بس ہیں۔ وہ فکرمند ہیں کہ مسلم آبادی کے نکل جانے سے ان کے کھیت کھلیان چوپٹ ہوجائیں گے۔ مسلمان محنتی ہیں او راکثر بوڈو کاشتکاروں کے یہاں وہی کام کرتے ہیں۔ ان مسلمانوں کو انگریزوں کے دور حکومت میں سنہ 1930کی دہائی میںجوٹ کی کھیتی کے فروغ کےلئے یہاں لاکر بسایا گیاتھا اور یہ کئی نسلوں سے یہاں آباد ہیں۔ ان میں سے بعض نے زرعی آراضیاں خرید لی ہیں ۔ ہندستانی شہری ہونے کے ناطے ان کو یہ حق ہے کہ وہ ملک میںکہیں بھی جاکر رہیں اور جائداد حاصل کریں۔
بوڈو کونسل ‘ کے طور طریقوں سے دیگر اقوام میںعدم تحفظ کا شدید احساس ہے اور چاہتے ہیں اس غیر جمہوری انتقال اقتدار کوکالعدم کیا جائے۔ اس کے خلاف 27 غیر بوڈوتنظیمیں ”اینا بوڈو سرکھیا سمیتی“ (ABSS)کے تحت متحد ہوگئی ہیں ۔” آل بوڈو لینڈ مسلم اسٹوڈنٹس یونین“ بھی بوڈوعسکریت پسندوں کا مقابلہ مضبوطی سے کر رہی ہے۔ 19جولائی کی اسی یونین کے دو لیڈروں مبین الاسلام عرف راتل احمد اور عبدالصدیق شیخ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ اس کے ایک دو دن بعد مختلف علاقوں میں بوڈو ٹائگر فورس کے چار جنگجو مارے گئے۔ سرکاری طور پر یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ یہ چاروں تشدد کے واقعات میں ملوّث تھے اور ان کو دیگر قبائل کے حریفوں نے ہلاک کیا لیکن ان کا الزام مسلمانوں پر تھوپ کر یہ فساد برپا کیا گیا۔ جس بڑے پیمانے پر اور منظم طریقہ سے یہ فساد برپا ہوا اس سے صاف ظاہر ہے اس کی منصوبہ بندی پہلے سے تھی اور انتظامیہ کواس کی اطلاع تھی۔

اس مسلم کش تشدد کی رپورٹوں میں بڑے ہی شد و مد کے ساتھ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ غیرقانونی تارکین وطن کا معاملہ ہے جو بنگلہ دیش سے آئے ہیں۔بھاجپا نے اس جھوٹ کو اتنی مرتبہ دوہرایا ہے کہ لوگ اس کو سچ سمجھنے لگے ہیں اور کانگریس نے بھی بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے ساتھ جس متعصبانہ رویہ کو عرصہ سے روا رکھا ہوا ہے اس سے اس جھوٹ کو تقویت ملی ہے۔ جو لوگ تقسیم ہند کے پہلے سے آسا م میں آباد ہیں ان کو اس بنیاد پر کہ وہ مسلمان ہیں اور بنگالی بولتے ہیں ، غیر ملکی کیسے کہا جاسکتا ہے؟ اگر کوئی شخص چوری سے سرحد عبور کرکے آجاتا ہے تو یہ سرکار کی ذمہ داری ہے کہ عدالت میں اس کا غیر ملکی ہونا ثابت کرے اور باہر نکالے۔ آسام میں کانگریس کے دور حکومت میں الٹا قانون بنایا گیا ہے۔ ان پڑھ مزدور پیشہ دیہاتیوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ شہریت کا ثبوت پیش کریں۔ ان سے برتھ سرٹی فکیٹ مانگے جاتے ہیں۔ اگر برتھ سرٹی فکیٹ ہی شہریت کا ثبوت ہے تو ان سب ہندستانیوں کو ملک بدر کردینا چاہئے جن کے پاس یہ سرٹی فکیٹ نہیں ہیں چاہے ان کا مذہب کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ گزشتہ دہائیوں میں ہزاروں مسلمانوںکو مدتوں اس بہانے پریشان کیا جاتا رہا اور آج بھی ہزاروں افراد کی شہریت معلق ہے۔ ان میں وہ کمسن بچے بھی شامل ہیں جو کل پیدا ہوئے ہیں اور بین اقوامی قانون کی روسے بہر حال اسی ملک کے شہری ہیں جہاں پیدا ہوئے۔بنگلہ دیشی کا نعرہ محض ایک فرقہ پرستانہ سیاسی حربہ ہے جس کو اب کم از کم کانگریس کوترک کردینا چاہئے اور تمام معلق باشندوں کی شہریت کی دستاویز دیدینی چاہئے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ پاکستان کا دولخت ہوجانا اوربنگلہ دیش کا بن جانا تو ہندستان کی سیکیورٹی کےلئے نیک فال تصور کیا گیا مگرہر بنگالی بولنے والے مسلمان کوبنگلہ دیشی قرار دیکر ملک کی سلامتی کےلئے خطرہ قرار دیا جاتا ہے اور ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔

جیساکہ اوپر بیان کیا گیا اس مسئلہ کی اصل جڑ بوڈو عسکریت پسندی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے غیر جمہوری بوڈوکونسل کو کالعدم کیا جائے۔ ”بوڈولینڈ ٹیری ٹوریل اڈمنسٹریٹیو ڈسٹرکٹ “کو فوج کی نگرانی میں دیا جائے اوربوڈو عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنے کےلئے AFSPAکے تحت فوج کو وہ تمام روائتی اور غیر روائتی اختیارات دئے جائیں جو کشمیر میں دئے گئے ہیں ۔موجودہ فساد کی جانچ جیسا کی مولانابدرالدین اجمل نے مطالبہ کیا ہے سی بی آئی کے حوالہ کی جائے تاکہ یہ راز کھل سکے کہ اس میں بوڈو کونسل کے عہدیداروں کی شہ کا کتنا دخل ہے اور اس فساد کے دوران اس کا کیا رول رہا؟ یہ بات اطمینان کی ہے وزیر اعظم نے اور اس کے بعد مرکزی وزیر داخلہ نے مثاثر ہ علاقوں کا دورہ کیا اور باز آباد کاری کےلئے خطیر رقم کا اعلان کیا ہے۔ مگر یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ گوگوئی سرکار اس رقم کا منصفانہ استعمال کرتی ہے یا اس کا استعمال بوڈو عسکریت پسندوں کی منھ بھرائی کے لئے کیا جاتا ہے؟
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163210 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.