حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا اور دین اسلام کی خدمت واشاعت

تجارت : شوہر اور والد کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکو میدان تجارت میں آنا پڑا کیوں کہ ان کے خاندان کا ذریعہ معاش تجارت تھا، اب کو ئی بھی فرد تجارت کے لئے باقی نہ رہا، اس وجہ سے ان کو بہت دقت پیش آئی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاچونکہ ایک با صلاحیت پختہ عزم و ہمت والی خاتون تھیں، انہوں نے عزم کیا کہ وہ خود تجا رت کے فرا ئض انجام دیں گی ۔پھر انہوں نے اپنے بعض اعزاو اقرباءکو معاوضہ پرمال وتجارت دے کر اپنے سلسلہ تجارت کو جاری رکھا۔ اس زمانے میں قبیلہ قریش کے تجارتی روابط ملک شام اور اس کے اطراف کے ساتھ تھے۔ اس طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے تجا رتی اونٹ بھی اسی علاقے میں جاتے تھے۔ اس طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے اپنی تجارت کو فروغ دےا اور اپنے یہاں بعض افراد کو ملازمت پر بھی رکھ لیا ۔فہم و تدبر ،فراست ودےانت داری کی وجہ سے آپ کے مال تجارت میں دن بدن ترقی ہو رہی تھی، اس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکو ایسے شخص کی تلاش تھی جو بے حد راست باز،امانت دار اور انتہائی ذہین ہو، جس کی نگرانی میں اپنے تمام ملازمین کو تجا رتی قافلوں کے ہمراہ بھیج سکیں ۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا حضور ﷺسے تجارتی رابطہ: حضور ﷺ کے چچا ابو طالب کو ان حالات وواقعات کی معلومات تھی، ایک بار جب سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاکے تجارتی قافلے کی روانگی کا وقت آیا تو ابو طالب نے حضور ﷺسے کہا کہ آپ کو خدیجہ سے جا کر ملنا چاہئے ،ان کا سامان تجارت ملک شام کی طرف جائے گا۔ بہتر ہوتا کہ آپ بھی اس قافلہ کے ساتھ سامان تجارت لے کر جاتے۔ میرے پاس سرمایہ نہیں ہے کہ آپ کو سامان تجارت کے ساتھ روانہ کروں ورنہ میں خود آپ کو سرمایہ مہیا کردیتا۔چنانچہ ابو طالب کے اشارے پر آپ ﷺ حضرت خدیجہ کا سامان تجارت لے کر شام روانہ ہوگئے۔ ملک شام سے سفر کے دوران حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے غلا م میسر ہ نے آپ ﷺ میں بہت سی عجیب باتیں دیکھیں ۔مثلاً :جب آپ ﷺنے ایک درخت کے نیچے قیام فرمایا تو وہاں ایک راہب بھی موجود تھا، اس نے میسرہ سے معلوم کیا کہ یہ کون ہیں؟ میسرہ نے جواب دیا کہ یہ مکہ کے باشندے اور قریش خاندان کے فرد ہیں۔ راہب نے کہا کہ یہ نبی ہوں گے۔ اس راہب نے حضرت مصطفی کریم ﷺ میں وہ علامات دیکھ لیے تھے جو سابقہ آسمانی کتب میں آخری نبی کی علامات کے طور پر موجود تھیں۔ بلادِ شام سے واپسی پر جب آپ ﷺ مکہ میں داخل ہو رہے تھے دوپہر کا وقت تھا۔ اس وقت حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہااپنے بالا خانے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ اچانک ان کی نظرحضور ﷺ پر پڑی تو دیکھا کہ دو فرشتے آپ ﷺ پر سایہ کئے ہوئے ہیں۔

حضرت خدیجہ کا حضور ﷺ سے نکاح:جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو حضور ﷺ کے اوصاف حمیدہ معلوم ہوئے،مزید حضرت خدیجہ کو آپ کے حالات سے آگاہی حاصل ہوئی تو ان کی نظر میں حضورﷺ کی عزت وعظمت اور بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ انہوں نے آپﷺ سے نکاح کا ارادہ کرلیا۔ چنانچہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یعلی بن امیہ کے ذریعہ حضورﷺ کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا۔ جسے آپ ﷺ نے اپنے چچا حضرت حمزہ اور ابو طالب سے مشورہ کے بعد قبول فرمالیا، پھر نکاح کی تاریخ بھی پکی ہوگئی۔ حضورﷺ کی جانب سے قبولیت کے بعد وہ اپنے چچا عمر بن اسد کو بلا کر لائیں پھر ان کورشتہ کے بارے میں مطلع کیا۔ کیوں کہ اس وقت وہی ان کے سر پرست تھے۔ پھر حسب دستور مقررہ تاریخ پر آپ کے چچا حضرت حمزہ ابو طالب اور خاندان کے دیگر افراد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے گھر پر جمع ہوئے۔ اس موقع پر حضرت خدیجہ نے بھی اپنے خاندان کے دیگر افراد کو بلالیا تھا۔ ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھا اور عمرو بن اسد کے مشورے سے پانچ سو درہم مہر مقرر ہوا۔ اس وقت حضورﷺ کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی عمر 40 سال تھی اور یہ آپ کے اعلان نبوت سے پندرہ سال پہلے کا واقعہ ہے۔

حضرت خدیجہ کا قبول اسلام:حضرت خدیجہ سے نکاح کے پندرہ سال بعد حضورﷺ اکثر گھر سے باہر رہتے۔ کئی کئی دن مکہ کے بے آب وگیاہ پہاڑوں میں جا کر یاد الٰہی میں مصروف ہوتے۔اس طرح دس سال گذر گئے ۔ہمیشہ کی طرح آپ غارِحراءمیں یاد الہٰی میںمصروف تھے کہ اللہ عزوجل کی جانب سے حضرت جبرئیل امین آپ کے پاس آئے اور کہا یا محمد! حضورﷺ نے نظریں اوپر اٹھا کر دیکھا تو ایک نورانی صورت بزرگ کو کھڑے پایا جن کے ماتھے پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا تھا۔ جبرئیل امین نے حضورﷺ کو سینے سے لگا کر دبایا اور کہا پڑھئے۔ حضور ﷺنے فرمایا :میں نہیں پڑھتا ،تین مرتبہ اسی طرح ہوا پھر جبرئیل نے کہا۔”اقرَا بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ(1) خَلَقَ الِنسَانَ مِن عَلَقٍ(2) اقرَا وَرَبُّکَ الاَکرَمُ(3) الَّذِی عَلَّمَ بِالقَلَمِ(4) عَلَّمَ الِنسَانَ مَا لَم یَعلَم) (5۔“چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی زبانی یہ واقعہ سننے کے بعد عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ نے اسلام قبول کیا۔

ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ کا ایثار:حضور تاجدار مدینہ ﷺ سے رشتہ زوجیت میں منسلک ہونے کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے جن کا شمار اس وقت مکہ کے متمول افراد میں ہوتا تھا، اپنی ساری دولت رفا ہی کاموں کے لئے حضور ﷺکے قدموں میں نثار کردی۔ اعلان نبوت کے بعد جب آپ نے دین اسلام کے فروغ کے سلسلے میں اپنے آپ کو دعوت وتبلیغ کے لیے وقف کردیا تو تاریخ اسلام کی اس ابتدائی دور میں ام المومنین حضرت خدیجہ کی دولت ہی آپ کے کام آئی۔ اس طرح ان کا مثالی جذبہ ایثار وقربانی اپنے شوہر کے مشن سے والہانہ وابستگی ،بے لوثی، مال ودولت سے بے نیازی اور شان استغفار کی مظہر تھی۔ یہی سبب تھا کہ حضورﷺ کو اس رفیقہ حیات سے کمال درجہ محبت تھی اور ان کے اس دنیائے فانی سے رحلت فرما جانے کے بعد بھی ان کی یاد کبھی آپ کے دل سے مٹ نہ سکی، چنانچہ آپ اکثر ان کا ذکر اپنی دیگر ازواج سے فرمایا کرتے تھے۔حضرت خدیجہ کاکردار ناقابل فراموش ہے کہ انہوں نے خود کو اپنے مال واسباب کو اسلام اور پیغمبر اسلام کی ضروریات کے لیے اس طرح پیش کردیا جیسے اس مال سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔”ووجدک عائلا فاغنی“ اس کی تفسیر میں مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سیدہ خدیجہ کے مال کے ذریعہ غنی کردیا۔

حضورﷺ کی اولاد مبارک بطن خدیجة الکبریٰ سے:حضرت خدیجة الکبریٰ کے بطن سے رسول اکرمﷺ کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں پہلے فرزند کاا سم گرامی قاسم رکھا گیا اور دوسرے فرزند کا عبداللہ، ان کا لقب طیب وطاہر تھا اور دونوں فرزند بچپن ہی میں وصال فرماگئے۔ دوسرے فرزند کی وفات پر جب کفار نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اب محمد کا نام لیوا کوئی نہیں رہا تو اللہ عزوجل نے سورہ کوثر نازل کردی جب کہ تیسرے فرزند حضرت ابرہیم ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے اور آپ بھی مدت رضاعت میں ہی فوت ہوگئے ۔ چار صاحبزادیوں کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔(۱) حضرت سیدہ زینب(۲) حضرت سیدہ رقیہ(۳) حضرت سیدہ ام کلثوم(۴) حضرت سیدہ فاطمة زہرا۔

وفات :حضرت خدیجہ نکاح کے بعد کم وبیش پچیس سال حضور کی زوجیت میں رہیں۔ ہجرت سے تین سال قبل ماہ رمضان المبارک میں وفات پائیں چونکہ اس وقت تک نماز جنازہ نہیں پڑھی جاتی تھی اس لیے صرف کفن دے کر آپ کی تدفین کی گئی ۔ حضورﷺخود آپ کی قبر مبارک میں اترے اور اپنی شریک حیات کو سپرد لحد کیا۔ حضرت خدیجہ کا مزار حجون کے مقام میں ہے جس کو اب جنت المعلیٰ کہا جاتا ہے وفات کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر 65 سال تھی۔ آپ کی وفات حضورﷺ پر بہت گراں گزری چنانچہ آپ نے اس سال کو’ عام الحزن ‘ کا نام دیا یعنی غم کا سال چونکہ اسی سال آپ کے چچا ابو طالب کی بھی وفات ہوئی تھی۔ حضور ﷺ عمر بھر آپ کی وفات کو نہ بھول سکے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ ورضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731693 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More