رَمَضانُ الْمُبارَک کی آمد
آمدتھی اور مشہور مُؤرِّخ حضرتِ وَاقِدِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس کچھ
نہ تھا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے ایک عَلَویدوست کی طرف یہ رُقْعہ
بھیجا، ''رَمَضان شریف کا مہینہ آنے والا ہے اور میرے پاس خرچ کیلئے کچھ
نہیں، مجھے قرضِ حَسَنہ کے طور پرایک ہزار دِرْہم بھیجئے''۔چُنانچِہ اُس
عَلَوی نے ایک ہزار دِرْہم کی تَھیلی بھیج دی۔تھوڑی دیر کے بعد حضرتِ
وَاقِدِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ایک دوست کا رُقْعہ حضرتِ وَاقِدِی رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف آگیا ، ''رَمَضان شریف کے مہینے میں خرچ کیلئے
مجھے ایک ہزاردِرْہم کی ضَرورت ہے ۔''حضرتِ وَاقِدِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نے وُہی تَھیلی وہاں بھیج دی۔ دوسرے روز وُہی عَلَوی دوست جن سے حضرتِ
واقدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے قرض لیا تھااور وہ دوسرے دوست جنہوں نے
حضرت وَاقِدِی سے قرض لیا تھا۔دونوں حضرتِ وَاقِدِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
کے گھر آئے ۔ عَلَوی کہنے لگے ،رَمَضانُ الْمُبارَک کا مہینہ آرہاہے اور
میرے پاس ان ہزار درہموں کے سِوا ا ور کچھ نہ تھا۔ مگر جب آپ کا رُقْعہ آیا
تو میں نے یہ ہزار دِرْہَم آپ کو بھیج دیئے اور اپنی ضَرورت کےلئے اپنے اِن
دوست کو رُقْعہ لکھا کہ مجھے ایک ہزار دِرْہَم بطورِ قرض بھیج دیجئے۔ انہوں
نے وُہی تھیلی جو میں نے آپ کو بھیجی تھی، مجھے بھیج دی۔تو پتا چلا کہ آپ
نے مجھ سے قرض مانگا ،میں نے اپنے اِن دوست سے قرض مانگا اور اُنہوں نے آپ
سے مانگا۔اور جوتَھیلی میں نے آپ کو بھیجی تھی وہ آپ نے اسے بھیج دی اور اس
نے وُہی تھیلی مجھے بھیج دی۔پھر ان تینوں حضرات نے اتِّفاقِ رائے سے اس رقم
کے تین حصّے کرکے آپَس میں تقسیم کر لئے ۔ اِسی رات حضر تِ سَیِّدُنا
وَاقِدِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خواب میں جنابِ رِسالت مآب صلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت ہوئی اور فرمایا ، اِن شآءَ اللّٰہ
عَزَّوَجَلَّ کل تمہیں بہُت کچھ مل جائے گا۔چُنانچہ دوسرے روز امیر یَحیٰی
برمکی نے سَیِّدُنا وَاقِدِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بُلا کر پوچھا ،''میں
نے رات خواب میں آپ کو پریشان دیکھا ہے ،کیا بات ہے ؟حضرتِ سیِّدُنا
وَاقِدِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سار ا قصّہ سنایا۔ تویَحیٰی برمکی نے
کہا،'' میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ تینوں میں سے کون زیادہ سخی ہے۔ آپ
تینوں ہی سخی اور واجِبُ ا لْاِحتِرام ہیں ۔ پھراس نے تیس ہزار دِرْہَم
حضرت ِ وَاقِدِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اور بیس بیس ہزار ان دونوں کو
دئے۔اور حضرتِ وَاقِدِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو قاضی بھی مقَّرر
کردیا۔(حُجَّۃ اللّٰہِ عَلَے الْعٰلَمِین، ص٥٧٧)
محترم قارئین کرام!سچّے مسلمان سخی اور پیکرِ ایثار ہوتے ہیں۔اور اپنے
بھائی کی تکلیف دور کرنے کی خاطِر اپنی مشکِلات کی ذرّہ برابر پرواہ نہیں
کرتے۔ اور یہ بھی معلوم ہواکہ سخاوت سے ہمیشہ فائِدہ ہی ہوتا ہے ،مال گھٹتا
نہیں بلکہ بڑھتا ہے۔اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللّٰہ کے مَحبوب ،دانائے
غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم امّت کے حالات سے باخبر ہیں اور سخاو ت کرنے والوں پر نَظَرِ
رَحمت فرماتے ہیں۔ یقینااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں ایثار کی بَہُت
فضیلت ہے ۔ چُنانچہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمانِ مغفرت نشان ہے ، ''جو شخص اُس چیز کو جس کی خود اِسے حاجت ہو دوسرے
کو دیدے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اِسے بخش دیتا ہے۔(اتحاف السّادۃ المتقین
،ج٩،ص٧٧٩)
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |