یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
تحریر تلخ حقیقتوں بے شمارا مصیبتوں اور ان گنت اذیتوں پر مبنی دراصل ایک
داستان ہے۔جس کا موضوع میرے نزدیک غریب عوام یا مزدور کوئی بھی رکھا جا
سکتا ہے۔موضوع کے حوالے سے صفحہ قرطاس پر جب میں نے بے زبان قلم کو رقص
کرنے کا حکم دیا تو اس کی جنبش مجھے زمانہءقدیم میں گھسیٹ کر لے گئی ۔اور
پھر وہاں پسماندگیوں اور غربت کی ایک طویل اور اندھیری گلی میں جا کر کھڑا
کردیا۔حالات و واقعات سے مجھے پاکستان کا گمان ہوا۔بے روزگاری عروج پر
تھی۔تعلیم کا یکسر فقدان تھا ۔غربت اور پسماندگی نے بھی ڈیرے ڈال رکھے
تھے۔محض جدت اور انڈسٹری کی طلب عوام کی نہ صرف زبان بلکہ حالات اور آنکھوں
میں بھی نظر آرہی تھی۔پھر نہ جانے کیا ہوا کہ شائد ان کی اپنی کوئی ذاتی
لالچ تھی ےا پھر کیا خوب کہا تھا شاعر نے
تو کسی اور سے ملنے کے بہانے آجا
آخر حکومت نے ملک میں بے روزگاری کا سلسلہ ختم کرنے کی ایک ناکام کوشش کی ۔جو
کہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر تھی۔نہ جانے کتنے ہی پروجیکٹ چلائے گئے
جن میں سے انڈسٹری کو ان مقامات پر لگانے کی عقلمندانہ بھول بھی کی گئی
جہاں سے ان کا را میٹیریل ملتا ہو۔تاکہ ٹرانسپورٹ اور وقت دونوں کی کم از
کم کھپت ہو۔1956ءمیں لگنے ولی کئی انڈسٹریوں میں تاریخی شہر میانوالی کو
بھی نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر اس زیور سے آراستہ کرنے کی ٹھان لی
گئی۔انڈسٹری تو لگ ہی گئی ۔مگر بدقسمتی سے ملک میں آنے والے سیاستدان جو کے
ایک طرح سے ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والے تھے ےعنی ہم سے ہی اپنی سیٹ کے طلبگار
تھے جب بھی اقتدار میں آئے اپنے ذاتی مفادت کی خاطر اس کو نہ جانے کن کن
مرحلوں سے گزارا۔کبھی بیچ کر پیسے کھا گئے کبھی ادھار کی مد میں پیسے کھا
گئے غرض ہر صورت میں اپنی جان بنانے کی فکر میں مشغول سیاستدانوں نے
میانوالی سمیت ملک کی بیشتر انڈسٹری کو تباہ کر کے رکھ دیا ۔اونے پونے
داموں ملکی اثاثے بیچ کر پیسے کمانے میں ہمارے ملک کے تمام تر سیاستدان اور
خاص طور حکمران انتہائی درجے کی مہارت رکھتے ہیں اور ان کے لیے ہی ایک ضرب
المثل بنی ہوئی ہے کہ "ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری"ہمارے پیسے کھا کر
ہمیں ذبح کر دیتے ہیں۔پرائیویٹ انوسٹر کے سہارے لے لیکر اگر ملکی انڈسٹری
آگے آنے ہی لگی تھی تو اس پر ان سے ناجائز ٹیکس ،بھتہ اور نہ جانے کن کن
مقامات پر کن کن طریقوں سے لیا جانے والا ٹیکس ملک میں اس بات کا چیخ چیخ
کر اعلان کر رہا ہے کہ خدارا اس ملک خداداد میں کوئی بھی پرائیویٹ انویسٹر
نہ جائے کیونکہ اس کی نہ تو حوصلہ افزائی کی جائے گی نہ ہی چار پیسے کمانے
کی اجازت دی جائے گی۔ان سب کی بنیاد پر ملک کے بیشتر انویسٹر بھی اپنا پیسہ
ملک سے باہر لگانے پر مجبور ہوگئے جہاں کم از کم ان کے پیسے ان کے مزدور
اور ان کے جان کو کائی خطرہ نہیں ہے۔لے دے کر بار آج تک تو آہی گئی تھی کے
میری آنکھ کھل کھل گئی ۔میں زیادہ ماضی میں تو نہ جا سکا مگر ماضی کے کچھ
نعرے مجھے بہت زور زور سے سنائی دے رہے تھے جن میں ایک محترمہ اور ان کے
چند جانثار کہہ رہے تھے
"روٹی ، کپڑا اور مکان "
نعرے تو کافی اچھے تھے مگر ملک میں موجود نالائق اور ان پڑھ عوام بشول میرے
ان کو سمجھ نہ سکی ان نعروں میں کہیں بھی یہ نہ کہا گیا تھا کہ ہم یہ سب
دیں گے تو گیا ان کا مقصد تھا کہ ہم عوام سے یہ سب لے لیں گے اور ہمیشہ کی
طرح پی پی پی نے اپنے وعدے پورے کردیے۔تمام تر شعبوں میں آگ کگا کر۔پٹرول
مہنگا ، گیس مہنگی ، ہر چیز مہنگی اس پر ظلم کے اگر مزدور کہیں سے چار پیسے
کما بھی رہا تھا تو اس ملک کے حکمرانوں سے وہ بھی برداشت نہ ہوا۔اور ملک کی
تمام تر کھاد انڈسٹریوں کو گیس کی سپلائی معطل کر دی گئی۔جس کے نتیجے میں
مزدور گھر بیٹھ گئے ۔انڈسٹری بند ہوگئی ۔کھاد کی پیداوار بھی یقینی طور پر
اس سے اثر انداز ہو گی۔اور پھر ان پرائیویٹ اداروں کی معاونت سے چلنے والے
ہسپتال سکول اور نہ جانے کتنے اور شعبے متاثر ہوا۔میرا چیف جسٹس سے سوال ہے
کہ اگر اب کوئی فاقہ کشی میں مرگیا تو قاتل کون ہو گا۔کسی کی غربت نے اس کے
بچے بیچنے کا ارادہ کر لیا تو اس کا ذمہ دار کوں ہوگا۔کسی نے بے روزگاری سے
تنگ آکر چوری ڈکیتی شروع کر دی تو جواب کس سے مانگا جائے گا۔جب بچے سکولوں
میں جانے سے قاصر ہوئے تو اس کا خمیازہ کون بھگتے گا۔آج میں ملک کے ہر ایک
مُلا سے بھی یہی سوال کرتا ہوں کہ ہاتھ پھیلانے والا آپ کے مذہب میں ایک
ناپسندیدہ فعل سرانجام دے رہا ہے آئے دن آپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر عوام کو
گمراہ کرنے کے لیے فتوے دیتے ہیں تو یہ فتوات بھی دیں کہ ہاتھ پھیلانے والا
غلط تو پھر مزدور کے ہاتھ سے اوزار چھین کر اس کے ہاتھ میں کاسہ دینے والا
کون؟اس کو کسی قانون میں غلط نہیں کہتا کوئی بھی عالم دین ۔کوئی بھی ایسے
شخص پر کوئی حکم نہیں سناتا ۔تو ایسا کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ ہمارے مُلاﺅں
نے آج دین کو امیر شہر کے دَر کا محتاج کر رکھا ہے اور ان کے فتوات میں
شریعت بیان نہیں کی جاتی بیچی جاتی ہے۔اللہ معاف کرے مگر سن لو اے اس ملک
کے نام نہاد لیڈرواس ملک کے علماءکرام اگر غریب کی غربت نے اسے اشتعال
انگیز کردیا تو جھونپڑیوں سے تو بھوک جنازے نکالے گی مگر شیش محل اور زری
کے مکینوں تم بھی اس آگ کی لپیٹ سے نہ بچ پاﺅ گے ۔ بس اب اتنا ہی کہوں گا
اپنی عوام کے لیے
ہمارے خون کو بھی وہ کسی دن بیچ ڈالے گا
خریداروں کے جھرمٹ میں عدالت روز بکتی ہے
نہ جانے لُطف کیا ملتا ہے ان کو روز بکنے میں
طوائف کی طرح لوگو قیادت رو ز بکتی ہے
کبھی مسجد کے منبر پر کبھی حجرے میں چھپ چھپ کر
میرے واعظ کے لہجے میں قیامت روز بکتی ہے |