فاتح ِمکہ حضور رحمت عالم ﷺ کاکفارمکّہ سے خطاب

فتح مکہ کے بعد شہنشاہِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزاروں کے مجمع میں ایک گہری نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ سرجھکائے، نگاہیںنیچی کئے ہوئے، لرزاں وترساں اشرافِ قریش کھڑے ہوئے ہیں۔ ان ظالموں اور جفاکاروں میںوہ لوگ بھی تھے جنہوں نے آپ کے راستوں میں کانٹے بچھائے تھے، وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے آپ کے راستوں میں کانٹے بچھائے تھے، وہ لوگ بھی تھے جوبارہا آپ پر پتھروں کی بارش کرچکے تھے ،وہ خونخوار بھی تھے جنہوں نے باربار آپ پرقاتلانہ حملے کئے تھے، وہ بے رحم وبے درد بھی تھے جنہوں نے آپ کے دندانِ مبارک کو شہیداور آپ کے چہرہ انور کو لہولہان کرڈالا تھا، وہ اوباش بھی تھے جو برسہابرس تک اپنی بہتان تراشیوں اور شرمناک گالیوں سے آپ کے قلب مبارک کوزخمی کرچکے تھے، وہ سفّاک ودرندہ صفت بھی تھے جو آپ کے گلے میں چادر کا پھنداڈال کر آپ کا گلا گھونٹ چکے تھے، وہ ظلم وستم کے مجسمے اور پاپ کے پتلے بھی تھے جنہوںنے آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو نیزہ مار کر اونٹ سے گرادیا تھا اور ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا،وہ آپ کے خون کے پیاسے بھی تھے جن کی تشنہ لبی اور پیاس خونِ نبوت کے سواکسی چیز سے نہیں بجھ سکتی تھی،وہ جفاکاروخونخوار بھی تھے جن کے جارحانہ حملوں اور ظالمانہ یلغار سے باربار مدینہ منورہ کے درودیوار دہل چکے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل اور ان کی ناک، کان کاٹنے والے، ان کی آنکھیں پھوڑنے والے ، ان کا جگرچبانے والے بھی اسی مجمع میں موجود تھے، وہ ستم گار جنہوں نے شمع نبوت کے جاں نثار پروانوں حضرت بلال ، حضرت صہیب، حضرت عمّار ، حضرت حبّاب، حضرت خُبیب، حضرت زید بن دثنہ وغیرہ رضی اللہ عنہم کو رسیّوں سے باندھ باندھ کر ، کوڑے مار مار کر جلتی ہوئی ریتوں پر لٹایاتھا،کسی کو آگ کے دہکتے ہوئے کوئلوں پر سلایا تھا، کسی کو چٹائیوں میں لپیٹ لپیٹ کر ناکوں میں دھوئیں دئے تھے، سیکڑوں بار گلا گھونٹا تھا۔

یہ تمام جوروجفا اورظلم وستم گاری کے پیکرجن کے جسم کے رونگٹے رونگٹے اور بدن کے بال بال ظلم وعدوان اور سرکشی وطغیان کے وبال سے خوفناک جرموں اورشرمناک مظالم کے پہاڑ بن چکے تھے۔ آج یہ سب کے سب دس بارہ ہزارمہاجرین وانصار کے لشکر کی حراست میں مجرم بنے ہوئے کھڑے کانپ رہے تھے اور اپنے دلوں میں یہ سوچ رہے تھے کہ شاید آج ہماری لاشوں کو کتوں سے نچواکر، ہماری بوٹیاں چیلوں اورکووں کو کھلادی جائیں گی اور انصارومہاجرین کی غضبناک فوجیں ہمارے بچے بچے کو خاک وخون میں ملاکر ہماری نسلوں کو نیست ونابود کرڈالیں گی اور ہماری بستیوں کو تاخت وتاراج کرکے تہس نہس کرڈالیں گی۔ ان مجرموں کے سینوں میں خوف وہراس کا طوفان اٹھ رہا تھا۔ دہشت اور ڈر سے ان کے بدنوں کی بوٹی بوٹی پھڑک رہی تھی ، دل دھڑک رہے تھے ، کلیجے منھ میں آگئے تھے اور عالم یاس میں انہیں زمین سے آسمان تک دھوئیں ہی دھوئیں کے خوفناک بادل نظر آرہے تھے ۔

اس مایوسی اور ناامیدی کی خطرناک فضا میں ایک دم شہنشاہِ رسالت کی نگاہِ رحمت ان پاپیوں کی طرف متوجہ ہوئی اور ان مجرموں سے آپ نے پوچھا کہ ”بولو تم کو کچھ معلوم ہے؟ کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں ۔“اس سوال سے مجرمین حو اس باختہ ہوکر کانپ اٹھے لیکن جبینِ رحمت کے پیغمبرانہ تیور کو دیکھ کر امیدوبیم کے محشر میں لرزتے ہوئے سب یک زبان ہوکر بولے کہ ”آپ کرم والے بھائی اور کرم والے باپ کے بیٹے ہیں“ سب کی للچائی ہوئی نظریں جمالِ نبوت کا منھ تک رہی تھیں اور سب کے کان شہنشاہِ نبوت کا فیصلہ کن جواب سننے کے منتظر تھے کہ ایک دم دفعتہ فاتح مکہ نے اپنے کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا کہ ”آج تم پر کوئی الزام نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو۔ بالکل غیر متوقع طور پر ایک دم اچانک یہ فرمان رحمت سن کر سب مجرموں کی آنکھیں فرطِ ندامت سے اشکبار ہوگئیں اور ان کے دلوں کی گہرائیوں سے جذبات شکریہ کے آثار آنسوؤں کی دھار بن کر ان کے رخسارپر مچلنے لگے اور کفار کی زبانوں پر ”لاالٰہ الا اللہ محمدرسول اللہﷺ“ کے نعروں سے حرمِ کعبہ کے درودیوار پر ہرطرف انوار کی بارش ہونے لگی۔ ناگہاں بالکل ہی اچانک اور دفعتہ ایک عجیب انقلاب برپا ہوگیا کہ سماں ہی بدل گیا، فضا ہی پلٹ گئی اور ایک دم ایسا محسوس ہونے لگا کہ
جہاں تاریک تھا ، بے نورتھا اورسخت کالا تھا
کوئی پردے سے کیا نکلا کہ گھر گھر میں اجالا تھا
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 732601 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More