پاکستان کی آزادی،ریاست کشمیر اور امت مسلمہ

پچھلے پینسٹھ برسوں کی طرح ان دنوں بھی پاکستان بھر میں یوم آزادی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے ،حقیقت یہ ہے کہ جن قوموں نے جدوجہد کے ساتھ آزادی حاصل کی ہوتی ہے ان کو اس آزادی کا احساس بھی ویسا ہی ہوتا ہے وہ اپنی آزادی کے دن کو جوش وجذبے کے ساتھ منانے میں کوئی کمی بھی نہیں رہنے دیتے لیکن دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ وہ قومیں حقیقی معنوں میں آزاد بھی ہیں یا رسماً آزادی کا لیبل لگائے بیٹھی ہیں،یہ الگ موضوع ہے کہ ہم 14اگست 1947ءکی تقسیم والے دن کو متحدہ ہند کے مسلمانوں کی آزادی کا دن تسلیم نہیں کرتے لیکن یہاں اس آزادی پر بحث ضرور کی جا سکتی ہے۔ جس ملک کے بننے کا آج یہ قوم جشن منا رہی ہے اس کو بنے 65سال گزر چکے اس ملک پر حکومت کرنے والوں کے آج تک تما م کام نرالے ہیں ، اسلامی جمہوریہ نام تو ہے لیکن یہاں ایک غیر اسلامی نظام(جمہوریت) کے سائے تلے ہم زندگیاں بسر کر رہے ہیں ،اسلام تو درکنار یہاں دور دور تک جمہوریت جیسا بھی کچھ نظر نہیں آرہا ،یہ ملک 47ء سے لے کر آج تک سرمایہ داروں ،جاگیرداروں ،صنعت کاروں ،بزنس مینوں اور ایوانوں میں بولیاں لگا کر جانے والوں کے ایسے ہاتھوں میں ہے جن کا اسلام سے ظاہری اور باطنی تعلق بھی نہیں ہوتا ، یہی لوگ اس ملک کا حشر نشر کیے ہوئے ہیں ،شخصیت پرستی کا دور دورا ہے ،موجودہ وقت میں کوئی ذولفقار بھٹو کے نام پر لوٹتا ہے،کوئی ضیاءالحق کے نام پر،تو کوئی پیری مریدی و اسلام کے نام پر ،ہر ایک سیاسی و مذہبی جماعت نے لوٹ کھسوٹ کیلئے اپنا اپنا 'ٹھیہ'لگا رکھا ہے جہاں جو، جس کے قابو میں آتا ہے اس کو نچوڑ کر اپنا مطلب حاصل کر لیا جاتا ہے ، اس ملک میں کسی بھی نظریے کی پیروی کرنے والے تلاش سے بھی نہیں ملتے ، یہاں کبھی سرحدوں پر مامور کیے جانے والوں نے زبردستی حکومت کی اور کبھی جمہوریت کے نام پر لوٹنے والے برسر اقتدار رہے لیکن عوام کیلئے بنیادی سہولیات اب تک نا پید ہیں ،جہاں ایک طرف عوام کی ایک کثیرتعداد دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے وہاں دوسری طرف صاف پانی میسر نہیں ۔کیا کوئی غیرجانبدار شخص ایک ایسے ملک کو آزاد کہہ سکتا ہے جس میں عوام بھوک، ننگ ،افلاس ،بیماری اور سب سے بڑھ کر بے روزگاری میں لوگ زندگیاں گزار رہے ہیں ،یہاں پر غریبوں کیلئے معیاری تعلیمی اداروں کے دروازے بند ہیں ،افسوس کی بات ہے کہ نوجوان ملک کی کل آبادی کا 65فیصد ہیں مگر صرف 5فیصد تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ حالیہ اکنامنک سروے کے مطابق پاکستان کا ہر 5واں نوجوان بے روزگار ہے اور اس میں خطرناک حد تک مزید اضافہ ہورہا ہے ، آج کے دور میں ہم دنیا سے ہر ایک میدان میں پیچھے سے پیچھے ہوتے جا رہے ہیں، حالیہ لندن اولمپکس میں پاکستانی دستے کی کارکردگی حکمران ٹولے کی امور نواجوانان سے روگردانی کا منہ بولتا ثبوت ہے آج پاکستان کا وقار پوری دنیا میں مجروح ہورہا ہے ، 80 فیصد سے زیادہ عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ،ملک میں گڈ گورننس تو درکنار گورننس نام کی چیز نہیں ہے ہر سال سیلاب سے صوبوں کے صوبے ڈوب جاتے ہیں عوام کا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے لیکن کسی بھی حکومت کے پاس اس کا حل نہیں ،جن ڈیمز کے منصوبے ایوب خان کے دور میںشروع کیے گیے تھے ان سے آگے آج چھ عشرے گذرنے کے باوجود کچھ نہ ہو سکا ،پی آئی آئے ،سٹیل ملز ،واپڈا،ریلوے ،پی ایس او سب بے حال ہےںلیکن کسی کے پاس ان کا حل نظر نہیں آتا،ڈرون حملون کے ذریعے شہریوں کو قتل کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ادارے خاموش، بس اس ملک میں سیاست کار آتے ہیںمال بناتے ہیں ،اپنی نسلوں کیلئے ملکی و غیر ملکی اکاﺅنٹ بھرتے ہیں اور اگلے آنے والے کیلئے واری چھوڑ جاتے ہیں ، اس ملک میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ ایسا ہے کہ اس سے چھٹکارا پانا ان مفاد پرست سیاست کاروں کیلئے ناممکن دکھائی دیتا ہے دوسری طرف اپنی حکومتوں کو طول دینے کیلئے جائز و ناجائز تمام حربے استعمال کیے جاتے ہیں ، آئین میں من مرضی ترامیم کی جاتی ہیں ،عدلیہ کو بے بس کر دیا جاتا ہے ،عوام کو منتخب نمائندوں کے چناﺅ کیلئے وﺅٹ کے ذریعے حق رائے دہی کا تو کہا جاتا ہے لیکن جن نمائندوں کو وﺅٹ دینا مطلوب ہوتا ہے ان کے معیار کو کسی بھی کسوٹی سے گزار کے منتخب نہیں کیاجاتا ،جو جتنا مال دار ہو گا ،بڑ ی برادری کا ہو گا اس کو اسی کے اثر رسوخ کی بنیاد پر نامزد کر کہ ایسی اسمبلی میں پہنچایا جائے گا جس کو قانون ساز اسمبلی کہتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ان نمائندوں کو اس قانون سازی کی تعریف تک نہیں آتی ، سب سے بڑھ کر یہ کہ یورپین اور امریکی اداروں نے ایک پالیسی کے تحت پاکستان کو ہر شعبے میں بے بس کر کہ رکھا ہوا ہے نہ ہمارے ایوانوں میں اسلامی نظام رائج ہے نہ ہی ہمارے معاشرے میں اسلامی اقدار کا خیال رکھا جاتا ہے ۔47ءمیں عملاً ہندوﺅں سے ہمیں الگ تو کر دیا گیا لیکن ان کے دیئے ہوئے شادی بیاہ،جینے مرنے سمیت دیگر تمام رسم و رواج سے ہم آج تک آزادی نہیں حاصل کر سکے ،ان پینسٹھ برسوں میں سرحدوں کی حفاظت ہم سے نہیں ہو پائی۔کو ئی غیر جانبدار رہتے ہوئے مطالعہ کر کہ بتائے کہ ہم نے ہر دور میں ہر میدان میں شکست کھائی ہے کہ نہیں؟سیاست ،معاشرت،جدیدیت سے لے کر کھیلوں کے میدانوں تک ہم شکست سے دوچار ہیں لیکن ہماری بد بختی کے ہم فراخ دلی سے اپنی ہار بھی تسلیم نہیں کرسکتے،آج ہر ذی شعور شخص سوالیہ نظروں سے ملک کے حالات کو دیکھتا ہے ،کیا ایسے حالات میں آزادی کا جشن منانے کا دل کر بھی سکتا ہے۔؟47ءمیں ہم نے سرحدی آزادی تو حاصل کر لی تھی لیکن ہمارے ذہن آج تک ہنود و یہود کے غلام ہیں۔

ان گنت خرابیاں سہی لیکن ملک تو اپنا ہے کیونکہ اس میں بسنے والوں کی بڑی اکثریت کو مسلمانیت کا لیبل تو لگا ہے اس لیے اس کی حفاظت اور اس کی بہتری کی جدوجہد کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ ہمارے پالیسی میکرز اور تھینک ٹینکس حقیقت جانتے ہوئے بھی اس قوم کو کیوں نہیں بتاتے کہ اس منحوس جمہوریت کے چنگل سے اب باہر نکل جانا چاہیے،اس جمہوریت جس کو نہ آج تک ہم اپنا پائے ہیں نہ اس کوپا کر ہم اپنی منزل تک پہنچ بھی سکتے ہیں ،اس لیے مسلمانوں کیلئے اسلامی نظام جو مکمل نظام حیات اور کامیابی کی ضمانت ہے کے نفاذ کیلئے ذاتی طو ر پر ہر ایک کو کوشش کرنی ہو گی ، نظام تعلیم و نصاب میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی نسلوں کی 'سوچ' کو تعمیری بنانا ہو گا ، موجودہ نسل میں عدم برداشت کا جو بیج تناور درخت بن چکا ہے اس کا خاتمہ کرنے کیلئے حکمت عملی سے چلنا ہو گا، مصر میں جس طرح کی اسلامی نظام کیلئے تبدیلی آئی ہے اس جیسی تبدیلی کیلئے خود کو آج سے ذہنی تیار کرنا ہو گا،اس قوم میں سے ہی کسی ایک کو محمد بن قاسم کی جیسی تاریخ دوہرانی ہو گی ،ایسی تبدیلی کیلئے ہر ایک فرد کو اپنا کردارا دا کرنا ہو گا تبھی جا کر تبدیلی ممکن ہو سکے گی ۔

ایک طرف پاکستان بھر میں 14اگست کو اور بھارت میں 15اگست کو یوم آزادی منایا جا رہا ہے دوسری طرف ریاست کشمیر کے دونوں طرف کے باسی ایک عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں نہ آزادی کو پوری طرح دل سے منا سکتے ہیں نہ اس کو ٹھکرا سکتے ہیں ،تقسیم ہند کے وقت کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کااختیار دیا گیا لیکن دونوں طرف کے مفاد پرستوں نے ان کو تقسیم کر دیاآج دونوں طرف کے کشمیریوں کے حقوق سلب ہیں لیکن دونوں طرف ہی بے بسی کا عالم ہے کیونکہ دونوں طرف کی سیاسی لیڈر شپ اقتدار کی لالچ مین اصل حدف سے ہٹ چکی ،چاہیے تو یہ تھا کہ کشمیری خود اپنا فیصلہ کرتے لیکن ہوا یہ کہ ایک طرف آزاد بھارتی مقبوضہ کشمیر اور دوسری طرف آزاد پاکستانی کشمیر بنا دیا گیا ، گلگت بلتستان،لداخ سمیت کشمیری نمائندوں سے الگ الگ حکومتیں بھی بنوائیں گئیں لیکن عملاً تمام کردار دونوں 47ءکی تقسیم والے ملکوں کا ہے وہ جو کرتے ہیں وہی ہوتا ہے ، ابھی تو کشمیریوں کو ان دونوں ملکوں سے اپنے بنیادی حقوق کیلئے طویل جدوجہد کرنا ہو گی،کشمیری عوام کو اسلامی نظام کیلئے کوشش کرنا ہو گی،جہاد کو ایک بار پھر اپنانا ہو گا، تبھی جا کرجدوجہد کے ثمرات سامنے آسکیں گے وگرنہ جو حال کشمیر کونسل کے ذریعے پاکستانی حکومت کشمیریوں کی حکومت کا کر رہی ہے اس سے بھی بھیانک حالات کیلئے تیار ی کر لینی ہو گی کیونکہ بھارت کی بھی ریاستی دہشت گردی کا مقابلہ کسی اور ملک سے نہیں کیا جاسکتا۔

پاکستان میں جشن آزادی کا سماں ہے لیکن اس وقت امت مسلمہ کس حال سے د وچار ہے اس سے نظریں چرانا کسی طور پر جائز نہیں،برما میں ہزاروں مسلمانوں کو اسلام کے نام پر شہید کر دیا گیا جس پر پاکستان سمیت دیگر بے شمار ایسے ممالک (ماسوائے ترکی کے)جو اسلامی ملک کہلانے کا بھونڈ کیے ہوئے ہیں کی حکومتوں پر اثر ہی نہیں ہو رہا کہ کہیں پر مسلمانو ں کا قتل عام اس دیدہ دلیری سے کیا جا رہا ہے کہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ،بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایٹم بم،جدید مزائل بم رکھنے اور اتنی بڑی فوج کو عوامی ٹیکسوں سے دن رات کھانے پلانے کے باوجود ہماری خارجہ پالیسی ایسی ہے کہ ہم بے بس ہیں ،عوام اندھی اور گونگھی ہو چکی ہے ،میڈیا کا کردار معذرت کے ساتھ گھٹیا تر ہے ، یہ بے حسی کا حال صرف پاکستانیوں اور کشمیریوں کا نہیں تمام مسلمانوں کا مشترکہ المیہ ہے کہ ایران کی طرح چٹا ن بن کر غیر مسلموں کے خلاف اپنے حقوق کیلئے سینہ سپر نہیں ہو سکتے ،آج ہمت و حوصلے کی کمی ہے کہ برما،کشمیر، افغانستان، عراق، شام، آسٹریلیا، کنیڈا،انگلینڈ، امریکہ، چیچنیا و بوسینا سمیت تمام ممالک میں مسلما ن کہلانے والے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔آج اگرمسلمانوں کو حقیقی کامیابی چاہیے تو امت مسلمہ کو دنیا میں اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے غیر مسلموں کے ساتھ مفاہمت کی اس گھٹیا پالیسی کو چھوڑنا ہو گا ،پوری دنیا میں جو بھی مسلمان ہیں ان کو اپنا بھائی سمجھنا ہو گا کیونکہ میرے نزدیک اسلام اور مسلمانوں کے درمیان کوئی بارڈر یا تقسیم نہیں ہوسکتی، اس لیے اپنے آپ کو قربانی کیلئے تیار رکھتے ہوئے محدود ذہنیت و فرقہ واریت سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔اخوان المسلمین نے مصر میں اسلامی حکومت قائم کر کہ جو مشل روشن کی ہے اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے انفرادی و اجتماعی طور پر جدوجہد کرنی ہو گی تبھی تو ہم قیامت کے دن سرخرو ہوپائیں گے ۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 66243 views Columnist/Writer.. View More