ملک میں جاری بدحالی،بے راہ
روی،معاشرتی انتشار، صوبائی منافرت،عالمی تنہائی،مستقبل سے مایوسی،جمہوریت
عمل میں ناکامی اور آمرانہ نظام سیاست کا بار بار مسلط ہونا پاکستان کی
تقدیر بنتا جا رہا ہے۔جھوٹی انا کے پنجرے میں قید سیاسی ومذہبی نام نہاد
قیادتیں اپنی کوتاہ بینی کے سبب مملکت کےلئے عظیم خطرات کا موجب بنتی جا
رہی ہیں۔میڈیا کے توسط سے نت نئے پنڈورا بکسوں کا کھولے جانا عوام کی
آنکھوں میں مزید پٹی باندھنے کےلئے آزمائی ہوئی کوششیں ہیں جن سے سب واقف
ہوتے ہوئے بھی نا واقف بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن شاہین کی نظر رکھنے
والے ملکی صورتحال کا ادراک کرکے سوئی ہوئی قوم اور بے شعور لیڈروں کو
جگانے کے لئے تمام تر مخالفتوں کے باوجود سعی کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان کی شمالی مغربی سرحدوں کےساتھ ساتھ ، جنوبی سرحدیں اور ساحلی
گذرگائیں مکمل غیر محفوظ ہوچکی ہیں۔در انداز اپنے مقاصد کے حصول کےلئے
پاکستان کی سرزمیں کو نہایت زرخیز تصور کرتے ہوئے بھرپور طریقے سے استعمال
بھی کر رہے ہیں۔15اگست 1947ءجب پاکستان کے پہلے وزیر اعظم اپنے عہدے کا حلف
اٹھا رہے تھے تو ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج محلاتی سازشیں ہی تھیں۔ ان کی
حتی الواسع کوشش تھی کہ پاکستان بننے کے مقاصد کو کسی کی ذاتی خوائش کے
تابع نہ بننے دےا جائے ۔تاریخی حقیقت ہے کہ محمد علی جناح اور لیاقت علی
خان کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس کا اظہار فاطمہ جناح نے
اپنی کتا ب"مائی برادر" میں محمد علی جناح کی وفات کے حوالے سے لیاقت علی
خان کے روئےے کے حوالے سے بھی کیا ہے۔نومبر دسمبر1948کا عرصہ پنجاب کی
سیاسی تباہی،اور1949میں صوبہ سرحد اور سندھ کی صورتحال نے اس بات کو عیاں
کردیا تھا کہ سیاسی کرداروں میں باہمی اعتماد کا فقدان اور اقتدار کی رسہ
کشی اپنے عروج پر تھی۔ مشرقی پاکستان میں اقتدار پانے کی ہوس نے ملک کی
بنیاد کو مضبوط ہی نہیں ہونے دیا اور اس اقتدار کے حصول کی رسہ کشی لیاقت
علی خان کے قتل سے لیکر آج تک جاری ہے۔
19اکتوبر1951ءمیں جب خواجہ ناظم الدین نے مسند وزارت عظمی سنبھال کر جب ایک
معذور اور مریض شخص ملک غلام محمد کو گورنر جنرل بنا دیا تو اس وقت کے
سیاسی تجزیہ نگاروں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ "پاکستان میں
جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی طرف پہلا قدم خود سیاست دانوں کا اپنا ہے".آج
بھی ملکی صورتحال بہتر نہیں ہوسکی اور آج بھی مختلف سیاسی بازی گر اپنے
مفادات کے حصول کےلئے اقتدار کی رسہ کشی میں جھکاﺅ اپنی جانب کرنے میں تن ،
من ، دھن کی بازی لگائے بیٹھے ہیں ، کوئی جنرل عبدالرحمن ، جنرل ضیا، جنرل
حمید گل ، جنرل شجاع کے زور بازو کا سہارا لیکر عوامی نمائندگی کا دعوی
کرتے نظر آنے والوں کوملکی معاشی ابتر صورتحال کا قطعی ادراک نہیں بلکہ
تمام سیاسی شعبدے باز مسائل کا ایک حل سمجھتے ہیں کہ انھیں حکومت دے دی
جائے تو وہ چند دنوں میں ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔لیکن ماضی کی غلط پالیسوں
کے تسلسل کی وجہ سے مستقبل غیر محفوظ ہوگیا ہے۔جب پاکستانی کشکول
17دسمبر1952ءکو امریکہ کے سامنے رکھا گیا اور اس میں 12کروڑ ڈالر کا قرضہ
گندم کے ساتھ حاصل کیا گیا تو بیرونی امدادکے نام پر عوام کو کاسہ غلامی
دیکر طوق نظریہ ضرورت پہنا دیا گیا ۔ڈالروں کے عوض روس زار کی جنگ کو اپنی
جنگ بنا کر 80 کی دہائی میں امریکی کمانڈوز نے اسلام کا لبادہ اوڑھ
کر34لاکھ افغانیوں کو ڈالروں کی بھینٹ چڑھا دیا اور آج بھی ڈالروں کے عوض
ملکی غیرت کا سودا ریمنڈ ڈیوس جیسے ایجنٹوں کی جانب سے قصاص میں ملنے والی
رقم کو قبول کرکے حمیت تک فروخت کی جا رہی ہے۔ملکی سرحدیں غیر محفوظ اس قدر
ہیں کہ دنیا کی سب سے زیادہ مطلوبہ شخصیت عسکری اداروں کے ناک کے نیچے
سالوں سال سے بے خوف زندگی گذار رہی ہوتی ہے اور کسی کو کانوں کاں خبر نہیں
ہوتی ۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جب امریکہ ریمنڈ ڈیوس ،نیٹو سپلائی ،حقانی گروپ
، کوئٹہ مجلس شوری ،ڈرون حملوں پر کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کرتا تو پھر
امریکہ جیسے اپنا قومی ہیرو ڈاکٹر شکیل آفریدی کو قرار دے تو وہ اپنے قومی
ہیرو کو پاکستانی جیل میں پابند سلال ہونے پر کیونکر خاموش بیٹھا رہے
گا۔افغانستان میں بھارتی اثر رسوخ کے افراط اور پاکستانیوں کو تمام مسائل
کی جڑ سمجھنے والے عام افغانی بھی پاکستانی پالیسوں سے سخت نالاں نظر آتے
ہیں۔ملکی افراتفری،معاشی بد حالی اور امن و امان کی بدترین صورتحال کی وجہ
سے آج پاکستان میں متعدد مشرقی پاکستان وجود پذیر آنے کےلئے غیر ملکی
مداخلت کی دعوت دےتے نظر آرہے ہیں ۔لیکن ارباب اختیار کبوتر کی طرح آنکھیں
بند کرکے مملکت پر مسلط خطرات سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔عوام کو ا ن خطرات کا
تدارک کرنے کےلئے اپنے جھوٹی انا کے پنجرے کو توڑنا ہوگا۔ |