آخر کار وہی ہوا جس کی عرصہ
درازسے با شعور حلقوں کی جانب سے نشان دہی کی جاتی رہی لیکن سیاسی
مخالفت،ذاتی چپقلش اور ارباب اختیار کیجانب سے جان بوجھ کر مجرمانہ خاموشی
نے کراچی میںدہشت گردی کو مضبوط کیا اور اب ا دہشت گردوں کے باقاعدہ اعلان
جنگ اور حساس اداروں کی رپورٹ نے ثابت کردیا کہ کراچی کے28علاقے شدت پسندوں،
کالعدم تنظیموں کے مضبوط گڑھ بن چکے ہیں ۔جب بھی کراچی میں فرقہ وارانہ عدم
برداشت کے حوالے سے تحفظات منظر عام پر آتے ہیں تو ایسے مخصوص قوم کے خلاف
پروپیگنڈا کہہ کر سیاسی مفادات کے لئے استعمال کیا جاتا لیکن عوام کے تحفظ
کے بجائے اپنے لئے مزید حکومت سے سیکورٹی مانگ لی جاتی اور پھر ڈرائنگ روم
میں بیٹھ کر مختلف نیوز چینلوں میں مخالفت کے ایسے طنز کے تند و تیز نشتر
چلائے جاتے کہ عوام میں یہ تاثر جائے کہ یہ سب مخصوص مقاصد کے تحت کسی
مخصوص قومیت کے خلاف ہے۔ کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کو لسانیت کا رنگ
دے دیا جاتا اور نیوز چینلوں ، اخبارات اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے عوام
کو آنے والے عظیم خطرے سے بے خبر رکھنے کی بھر پور کوشش کی جاتی رہی لیکن
اب ان کے اپنے گھر کے اندر اسی ڈرائنگ روم میں ہی آگ لگ چکی ہے جس کے شعلوں
کی تپش باہر واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے۔گر چہ کراچی میں ان گنت ایسے
واقعات اور ایسے عناصر کی گرفتاریاں ہوچکی ہیں ۔ کراچی میں فرقہ وارانہ ہم
آہنگی کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں اور ایسی مذہبی تنظیموں کو اعتماد
میں لینے کی ضرورت ہے جو اسلام یا فقہ کو تلوار کے ذریعے نہیں بلکہ فکر و
فلسفے سے پھیلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ارباب اختیار کی آنکھیں تو اس وقت ہی
کھل جانے چاہے تھی جب 08جنوری 2010ئ بلدیہ ٹاﺅن کے علاقے میںایک مکان کے
اندر مکینوں کی غلطی کی بنا ءپر بارودی مواد پھٹ گیا ۔ جس میں مبینہ طور پر
کودکش حملہ آور کے ساتھ 08افراد جاں بحق ہوئے۔
2010 ئ میں جب قوم پرست لسانی جماعت کے ہیڈ کوارٹر کو دہماکے سے اڑانے کی
دہمکی دی گئی تو آج تک پختونوں کی گنجان آباد علاقے پیر آباد کراچی میں
واقع مرکز تنظیمی سرگرمیاں بحال نہیں ہوسکی اور اس جماعت کا کوئی عہدےدار
وہاں سیاسی سرگرمی سر انجام دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔کیونکہ اسی جماعت
کے ڈسٹرکٹ ویسٹ کے جنرل سیکرٹری حنیف محمد خان ایڈوکیٹ کا صبح سویرے قتل
تھا جب 21مارچ2011ئ وہ اپنے گھر سے نماز کےلئے نکلے اور گھات لگائے پختون
آبادی کے اندر ہی گھر کے سامنے ہدف بنا کر ہلاک کردیا ۔
کراچی میں فرقہ وارانہ یا سیاسی ، لسانی بنیادوں پر قتل و غارت کا بازار
اپنے عروج پر ہے لیکن جب 26اپریل 2011ئ نیوی کے دو بسوں کو بلدیہ ٹاﺅن
کراچی میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تو اس وقت بھی مجرمانہ چشم پوشی کو
وطیرہ بنایا گیا حالاں کہ اس واقعے میں 05ہلاک اور 56افراد زخمی بھی
ہوئے۔کراچی بتدریج ایسے عناصر کے ہاتھوں یرغمال ہوتا جارہا تھا جیسے درپردہ
ایسے نام نہادلیڈروں کی حمایت حاصل تھی جس کی وجہ سے کراچی میں کسی قومیت
کا فرد محفوظ قرار نہیں دیا جاسکتا۔23مئی 2011ئ ایک بار پھر ایک ایسی طاقت
کا مظاہرہ ہوا جس نے دفاع پاکستان کی جڑیں ہلا دیں ۔ یہ واقعہ مہران نیوی
بیس پر شدت پسندوں کا ناقابل یقین حملہ تھا جس نے بحریہ کے اہم طیاروں کو
تباہ تک کردیا اور بحریہ کی ڈیفنس لائن و کمزور کرکے ثابت کیا کہ کراچی میں
جب افواج کے دفاعی بیس محفوظ نہیں ہیں تو ایک عام انسان کی جان کی تحفظ کی
گارنٹی کون دے سکتا ہے۔اس حملے میں 17غیر ملکی عسکری انجینئرز معجزانہ طور
پر محفوظ رہے اس گروپ میں 11چینی انجینئرز بھی زشامل تھے۔
حساس ادارے کیونکر بے خبر رہ سکتے ہیں کہ شدت پسند یا ملکی دشمن عناصر اپنی
سر گرمیوں کو بتدریج ایسے گنجان آباد علاقوں میں مضبوط کر رہے ہیں جہاں کسی
بھی قسم کے کاروائی کو لسانی رنگ دے دیا جاتا اور دانستہ ایسے عناصر کو
سیاسی پشت پناہی فراہم کی جاتی جن کا مقصد صرف مملکت خداد داد پاکستان کو
نقصان ہی پہنچانا ہے ۔ چاہیے وہ لسانےت کے رنگ میں ہو، فرقہ یا نسلی عصبیت
یا کوئی بھی طرز طریقہ کار ہو ۔ مقصد صرف معاشی حب کو کمزور کرنا اور ملک
کو ایسی قوتوں کا دست نگر بنانا ہے جو بین الاقوامی گریٹ گیم میں اپنے
مخصوص مقاصد کے لئے پہلے سے ترتیب شدہ گیم کھیل رہے ہیں۔اور اس کا مظاہرہ
ایک بار پھر 06جنوری2012ئ سوات کی اہم شخصیت سی امیں ایسوسی ایشن کے صدر
سید احمد خان کو اس کے گھر میں گھس کر کے ہلاک کر کیا گیا ۔لیکن پھر سیاسی
ناقاعبت اندیشوں نے اپنی آنکھیں کھولنے اور عوام کو آگاہ کرنے کے بجائے
مخصوص طرز فکر کو پھیلانے کا مشن جاری رکھتے ہوئے اپنے تحفظ کو ہی ترجیح
دی۔سوات قومی اتحاد کے چیئرمین حاجی شیر علی خان واحد شخصیت نہیں تھے کہ
انھیں شہید کیا گیا بلکہ 200سے زائد ایسی شخصیات یدف بنا کر قتل ہوئیں جن
کا تعلق کسی نہ کسی صورت سوات کے علاقے سے تھا اور انھیں پختونوں کی گنجان
آباد علاقوں میں ان کے گھر کے دروازوں پر ہلاک کیا گیا اور پیدل با آسانی
فرار بھی ہوئے۔
کراچی میں باقاعدہ اعلان جنگ 26جون2012ءآج نیوز کے دفتر پر فائرنگ کے ذمے
داری قبول کرنے کے ساتھ ساتھ، 11جولائی 2012 ئ کو سپارکو کی بس پر دہشت
گردی کے حملے کی صورت میں نکلا جس میں ایک شخص ہلاک اور 20زخمی ہوئے۔قوم
پرست لسانی جماعت کے اہم عہدے دار سید امیر سردار 13اگست2012ئ گھر کے سامنے
اپنے رفقا ءکے ساتھ دہشت گردی کانشانہ بنے تو بھی ارباب اختیار نے اپنی
پرانی روش برقرار رکھی ۔ یہ اعلان جنگ کا وہ طبل تھا جو ایک پھر بشیر جان
پر 16اگست2012ئ کے رات دستی بموں کے حملوں کی صورت میں بجا توکراچی کے وہ
خوابدیدہ عناصر بھی جاگنا شروع ہوئے جو خواب غفلت میں تھے۔ اب بھی کچھ
زیادہ وقت نہیں گذرا کہ سوات کی عوام کی طرح کراچی کی عوام کو بھی ہجرت
کرنا پڑے۔سیاسی پوائنٹ سکورنگ ختم کرکے باشعور عوام کو ،ملک دشمن عناصر کے
خلاف اعلان جنگ کرکے ملک و قوم کا مستقبل محفوظ بنانے کےلئے اپنی فروعی
مخالفتوں کو ترک کرکے یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ورنہ جس طرح آج سفاری
پارک ، گلستان جوہر میں فرقہ وارنہ پلانٹ بم دہماکے ہوئے ہیں ۔پھر ایسے
واقعات کا سدباب ممکن نہیں ہوگا۔ |