فلمی گائیکی میں کلاسیکل انگ
پاکستان اور بھارت کی گلوکاری میں بنیادی فرق انداز اور انگ کا ہے۔ پاکستان
کی موسیقی اور بالخصوص غیر فلمی موسیقی میں کلاسیکل انگ نمایاں ہے۔ بھارت
میں فلمی موسیقی کو کلاسیکل انگ سے دور رکھا گیا ہے۔ بیشتر موسیقار کوشش
کرتے ہیں کہ گیت زیادہ سے زیادہ آسان دُھن میں ریکارڈ کئے جائیں تاکہ لوگوں
کی سمجھ میں آئیں اور اُنہیں گنگنانا آسان ہو۔ پاکستان میں بھی وہ فلمی
زیادہ مقبول ہوئے ہیں جن میں کلاسیکل موسیقی کو زیادہ سمویا نہیں گیا۔ دُھن
آسان ہو تو لوگوں کو آسانی سے یاد ہو جاتی ہے۔
مہدی حسن نے اِس معاملے میں بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ جس دور میں
اُنہوں نے گانا شروع کیا، پاک و ہند میں ہلکی پھلکی موسیقی کو زیادہ پسند
کیا جاتا تھا۔ عنایت حسین بھٹی نے فلمی گانوں میں پنجاب کی لوک موسیقی شامل
کی جو اُن کے فن کا نمایاں وصف ہے۔ مہدی حسن نے فلمی گانوں میں کلاسیکل انگ
کو سمویا جو بڑا کارنامہ ہے۔ اُنہوں نے فلمی گیتوں کو بھی خاصے ٹھوس
کلاسیکی انداز سے گاکر یہ پیغام دیا کہ کسی بھی شعبے میں اپنی نمایاں شناخت
کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں نے اُن کے انداز کو خاصا پسند کیا اور عام
آدمی بھی خاصے مشکل انگ والے گیت گنگنانے لگا۔ مہدی حسن کے بیشتر فلمی
گانوں میں خالص کلاسیکی انداز صاف جھلکتا ہے جو اُن کا خاصہ ہے۔ یہی اُن کی
تربیت تھی جو اُنہوں نے اپنے فن کے ذریعے دُنیا کے سامنے پیش کی۔ احمد رشدی،
مسعود رانا اور منیر حسین کے ہاں اِس حوالے گہرائی اور گیرائی نہیں ملتی۔
”اِلٰہی آنسو بھری زندگی کسی کو نہ دے“ ایسا گیت تھا جو خاصا مدھم اور
پُرکیف ہونے کے ساتھ ساتھ کلاسیکی انگ کا حامل تھا۔ ”ترسی ہوئی آنکھوں کو آ
جائے قرار آ جا“ بھی ایک ایسا ہی گیت تھا جس میں روایتی کلاسیکی موسیقی کا
انداز عمدگی سے سمویا گیا تھا۔ ”گلوں میں رنگ بھرے بادِ نوبہار چلے“ خالص
غیر فلمی انداز سے گائی ہوئی غزل تھی مگر فلم ”فرنگی“ میں علاءالدین پر
فلمائی گئی تو لوگوں نے بہت پسند کی۔
مہدی حسن نے فلمی گائیکی میں کلاسیکی روایات کا رچاؤ پیدا کیا اور اِس
معاملے میں اِس قدر کامیاب رہے کہ آج بھی لوگوں کو 1960 کے عشرے کی موسیقی
پسند ہے۔ کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مہدی حسن نے فلمی گیتوں میں بھی
کلاسیکی انداز اختیار کرکے موسیقی کو بھاری بھرکم بنادیا مگر سچ تو یہ ہے
کہ خاں صاحب کی بدولت فلمی موسیقی بھی کچھ معتبر ہوگئی۔ ہلکے پھلکے گانے
والے تو بہت تھے۔ مزا تو اِسی بات میں ہے کہ اِنسان معمول کا کام بھی عمدگی
سے کرکے دِکھائے۔
............
دو مختلف میدانوں میں یکساں کامیابی
پاک و ہند میں کلاسیکل بیک گراؤنڈ رکھنے والے کم ہی گلوکاروں نے فلمی دنیا
میں اپنی صلاحیتوں کو آزمایا ہے۔ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ کلاسیکل گانے والے
کسی فنکار کو فلمی دنیا میں مکمل قبولیت اور مقبویت ملی ہو یا اُس نے فلمی
ماحول قبول کرلیا ہو۔ چند ایک نغمات کی حد تک تو کلاسیکل والے کامیاب رہتے
ہیں مگر اس کے بعد اپنی دُنیا میں واپس چلے جاتے ہیں۔
مہدی حسن کے کیریئر کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اُنہوں نے فلمی اور غیر
فلمی ہر دو طرح کی گائیکی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھرپور طور پر منوایا۔
وہ زندگی بھر محفلوں میں فلمی اور غیر فلمی آئٹمز یکساں مہارت اور ذوق و
شوق سے گاتے رہے۔ کسی بھی محفل میں اُن کی پرفارمنس کا جائزہ لیجیے تو
اندازہ ہوگا کہ وہ کِسی معاملے میں بیزاری محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ معمول
کی چیز کو بھی اپنے ذوق و شوق سے غیر معمولی بناکر دم لیتے تھے۔ یہ فن کے
حوالے سے بڑا کارنامہ ہے۔
غیر فلمی گائیکی کے شوقین جب مہدی حسن کے فلمی گانوں کو سُنتے ہیں تو
اُنہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا کہ خالص غیر فلمی انداز سے گانے والا
کوئی فنکار اِس قدر فلمی انداز سے بھی گا سکتا ہے۔ اور اُن کے فلمی گانوں
کو پسند کرنے والے یہ دیکھ کر انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں کہ اُن کا اصل
میدان تو غیر فلمی گائیکی ہے۔ مہدی حسن جب نجی محفلوں میں کوئی فلمی گانا
غیر فلمی انداز سے یا غزل کے انگ میں سُناتے تھے تو دُھن کی تمام پوشیدہ
خوبیاں سامعین پر عیاں کردیتے تھے۔ فلم کے لیے گاتے وقت سچویشن کو ذہن نشین
رکھنا پڑتا ہے۔ زیادہ کاری گری اور لَے کاری کی گنجائش نہیں ہوتی۔ موسیقار
اور ڈائریکٹر فلمی گانے کو زیادہ بوجھل بنانے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ مہدی
حسن نے کئی فلمی گانوں کو جب محفلوں میں پیش کیا تو اندازہ ہوا کہ وہ کِسی
فلمی گیت کو بھی کِس قدر مختلف یعنی کلاسیکی اور رچے بسے انداز سے گانے کی
اہلیت رکھتے تھے۔ پورے خطے میں کوئی بھی دوسرا گلوکار فلمی اور غیر فلمی
گائیکی کے تقاضوں کو یکساں مہارت اور جوش و خروش سے نبھانے میں کامیاب یا
اِس قدر کامیاب نہیں ہوسکا۔
............
فن کے اظہار میں پوری ایمانداری
کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والا فرد عمر کی ایک خاص حد کو پہنچ جانے کے
بعد کام کے معاملے میں بیزاری محسوس کرنے لگتا ہے۔ اداکار بھی عمر ڈھلتے ہی
ایک طرف بیٹھ جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ زیادہ کامیابی حاصل کرچکنے کے بعد فن کو
بالائے طاق رکھ کر صرف کام چلانے کے انداز سے کام کرنے لگتے ہیں۔ اداکاری،
گلوکاری، تصنیف و تالیف، مُصوّری اور دوسرے بہت سے شعبوں میں اِس خامی کا
آسانی سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ذرا ماحول پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا
کہ لوگ ذرا سی کامیابی ملنے پر اپنے فن کو بھول جاتے ہیں اور صرف معمول کا
کام کرنے لگتے ہیں۔
مہدی حسن کے وجود کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اُنہوں نے کبھی اپنے فن سے بے
ایمانی کے بارے میں سوچا بھی نہیں۔ وہ جب بھی غزل سرا ہوتے تھے، پوری آب و
تاب کے ساتھ اپنے فن کی تمام جولانیاں دِکھانے پر کمربستہ دِکھائی دیتے
تھے۔ فن کے اظہار کا جو اہتمام مہدی حسن کرتے تھے وہ کم ہی فنکاروں کے ہاں
دِکھائی دیا ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ حاضرین میں فن کی دُنیا سے تعلق رکھنے
والی کوئی بہت بڑی ہستی یا کسی ملک کا صدر، وزیر اعظم بیٹھا ہو تو مہدی حسن
زیادہ دل جمعی سے گاتے تھے اور جہاں عام سے لوگ بیٹھے ہوں وہاں اُن کے جذب
و شوق کی آتش سَرد پڑ جاتی ہو۔ پی ٹی وی کے لیے مہدی حسن نے بہت سے محفلیں
گائیں۔ اُنہوں نے نیپال کے دربار میں شنہشاہ کے سامنے جس دلچسپی سے گایا
اُتنی ہی دلچسپی کا اظہار اُنہوں نے اندرون ملک عام سی محفلوں میں غزل
سرائی کے دوران بھی کیا۔ اِن محفلوں میں سینئر فنکار بھی ہوتے تھے اور عام
لوگ بھی۔ اور سب کے لیے مہدی حسن کا فن بھرپور تابانی کے ساتھ موجود ہوتا
تھا۔ ریڈیو کے اسٹوڈیوز میں محض مائکروفون کے سامنے بھی وہ پوری ایمانداری
اور کاریگری کے ساتھ گاتے تھے۔ یہ وصف اُنہی لوگوں میں پایا جاتا ہے جو
اپنی زندگی کو فن کی نذر کرچکے ہوں اور صلاحیتوں کے اظہار کو زندگی کا مقصد
گردانتے ہوں۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب کہیں دور تک بھرپور کامیابی کا کوئی تصور یا امکان
نہیں تھا۔ تب بھی مہدی حسن پوری توجہ سے سیکھتے اور گاتے تھے۔ پھر یہ ہوا
کہ کامیابی کی طرف لے جانے والے راستے پر قدم رکھنے کا موقع ملا۔ تب بھی
اُنہوں نے فن کے اظہار میں تن آسانی یا بُخل سے کام نہیں لیا۔ بہت سے لوگوں
کا فن اِسی مرحلے میں دم توڑ دیتے ہیں۔ مہدی حسن نے ہر موقع سے جامع ترین
استفادہ کیا۔ اُنہیں فن کے حوالے سے آگے لانے کی کوشش کرنے والے جانتے تھے
کہ فن کے اظہار میں وہ مایوس نہیں کریں گے۔ اور جب بھرپور کامیاب مل گئی تب
بھی مہدی حسن کی لگن اور فن سے بھرپور وابستگی برقرار رہی۔ ریڈیو پاکستان
اور پی ٹی وی میں اُن کے آئٹمز ریکارڈ کرنے والے جانتے ہیں کہ وہ ہر
ریکارڈنگ کے لیے فن کا کِس قدر اہتمام کرتے تھے اور دُھن کی تمام جزئیات
معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے تاکہ سامعین بھرپور لطف پائیں۔
عام طور پر گانے والے محض دس پندرہ آئٹمز ہٹ ہو جانے پر آپے سے باہر ہو
جاتے ہیں اور مزید ریاض یا سیکھنے پر توجہ نہیں دیتے۔ یوں اُن کا فن پرواز
کے ابتدائی مراحل ہی میں دم توڑ کر زمین چاٹنے لگتا ہے۔ مہدی حسن کی خصوصیت
یہ تھی کہ وہ زندگی بھر سیکھتے رہے اور کِسی بھی مرحلے پر یہ نہیں سوچا کہ
اُنہوں نے سب کچھ سیکھ لیا ہے اور اب مزید کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہی
حال ریاض کا تھا۔ باقاعدہ ریاض ہی کی بدولت مہدی حسن ہر دور میں نئی دُھنیں
ترتیب دیتے رہے اور فلمی گانوں کو بھی غزل کے انداز سے سُناکر داد پاتے
رہے۔ اپنے فن سے اِس قدر ایماندار کم ہی فنکار رہ پائے ہوں گے۔ سوال صرف
زندگی بھر گانے کا نہیں، فن کے تقاضوں کو نبھانے اور اِس معاملے میں کامل
ایمانداری کا مظاہرہ کرنے کا بھی ہے۔
............
فن اور آواز کے تجربات
مہدی حسن نے مہم جو طبیعت پائی تھی۔ وہ زندگی بھر فن کی مختلف جہتیں دنیا
کے سامنے لانے کے لیے کوشاں رہے۔ اُنہوں نے ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی
سعی کی اور بہت حد تک کامیاب رہے۔ اُن کی آواز ایک مخصوص انداز اور مزاج کی
حامل تھی۔ ہر طرح کا گانا اُن کی آواز میں اچھا نہیں لگتا تھا۔ مثلاً اُن
کی آواز قوّالی یا بھجن کے لیے موزوں نہیں تھی۔ پُرجوش قسم کے مِلّی ترانے
بھی اُن کی آواز کے لیے موزوں نہ تھے۔ غزل کے لیے جس آواز کو مہدی حسن نے
بہت محنت سے نرم کیا تھا اُس پر وہ ظلم ڈھانے سے گریز کرتے تھے! مگر تجربات
کے معاملے میں وہ پیچھے نہیں رہے۔ اُنہوں نے زندگی بھر آواز اور انداز سے
مختلف تجربات کئے۔
”غرناطہ“ کے لیے اے حمید کی موسیقی میں گایا ہوا ”میں ہوں یہاں، تو ہے
وہاں“ بھی ایسا ہی گانا تھا۔ اِس گانے میں سانس کا عمل دخل بہت نمایاں تھا۔
مہدی حسن کو گیت میں یہ دکھانا تھا کہ ہیرو پر جُدائی کی کیفیت بُری طرح
طاری ہے اور وہ اعصابی طور پر بہت تھکا ہوا ہے۔ مہدی حسن مطلوبہ تاثرات
پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔
1974 ریلیز ہونے والی فلم ”سُسرال“ میں شاہد پر مہدی حسن کا گایا ہوا
”بھانڈے قلعی کرالو“ فلمایا گیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ گانا مہدی حسن کو نہیں
گانا چاہیے تھا۔ مگر جن لوگوں نے اِس گیت کو اوریجنل ساؤنڈ ٹریک پر سُنا ہے
اُنہیں اندازہ ہوگا کہ اِس عام سے مزاحیہ گیت میں بھی مہدی حسن نے کِس قدر
مہارت دکھائی ہے۔ مہدی حسن نے یہ گیت اُس وقت گایا تھا جب وہ اپنے کیریئر
میں بلند ترین مقام پر تھے۔ اُن کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت دنیا بھر میں
مقبولیت سے ہمکنار ہو رہے تھے۔ ایسے میں ”بھانڈے قلعی کرالو“ جیسا گیت
کیریئر پر اثر انداز بھی ہوسکتا تھا۔ مگر اِس کے بعد باوجود اُنہوں نے رسک
لیا اور ایک مزاحیہ گیت میں بھی اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ اُسی دور میں
فلم ”نوکر“ میں محمد علی پر ”لاکھ کرو انکار، سُسر جی رنگ لائے گا پیار،
دلہن میں لے کے جاؤں گا“ فلمایا گیا۔ یہ گیت بھی بے حد مقبول ہوا۔ کِسی نے
یہ نہیں سوچا کہ اِسے ”پیار بھرے دو شرمیلے نین“ اور ”گلوں میں رنگ بھرے
بادِ نوبہار چلے“ گانے والے مہدی حسن نے گایا ہے! |